ولی الرّحمٰن کی ہلاکت اور طالبان میں پھوٹ

پاکستان میں نئی سیاسی حکومت آچکی ہے جمہوریت کا سفر جیسا بھی ہے آخر چل تو پڑا ہے۔ امریکہ اپنے آپ کو دنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا ٹھیکیدار سمجھتا ہے اور ملکوں ملکوں گھومتا ہے کہ کہاں بادشاہت یا آمریت ہے کہ اُسے ختم کرے اور جمہوریت بلکہ دراصل اپنی مرضی کی حکومت اُس ملک پر مسلط کرے لیکن پاکستان میں وہ جمہوری حکومتوں کے خلاف بھی مسلسل نبرد آزما رہتا ہے اور اپنے کار ندے ہمیشہ متحرک رکھتا ہے ۔ نئی حکومت آئی تو عوام کو ایک اُمید تھی کہ شاید دہشت گرد کاروائیوں میں کمی آئے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ طالبان اِن کے لیے کچھ نرم گوشہ رکھتے ہیں ان کی حکومت خیبر پختونخواہ میں آئی تو سمجھا گیا کہ شاید اب حالات بہتر ہو جائیں، بالکل یہی تاثر مسلم لیگ﴿ن﴾ کی حکومت اور طالبان کے بارے میں تھا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور دہشت گرد حملے اب بھی جاری ہیں ۔ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش ہوئی تو امن کی اُمید میں بھی اضافہ ہوا اگر چہ کچھ حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ پچاس ہزار شہادتوں اور ہلاکتوں کے بعد مذاکرات کیوں ،تو یہ کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ پچاس اور سو سالوں کی جنگوں کے بعد بھی صلح کے مذاکرات ہوتے ہیں اور معاہدے طے پاتے ہیں لیکن ان معاہدوں میں طرفین کا خلوص درکار ہوتا ہے۔طالبان کی طرف سے مذاکرات کا عندیہ دیا گیا تو اِس کے لیے طالبان لیڈر ولی الرّحمٰن کا نام سامنے آیا جو سالہا سال سے جاری اس جنگ کو ختم کرنے کے حامی تھے جب کہ حکیم اللہ محسود کا اپنے ہی گروپ کے اس رہنما سے اس بارے میں اختلاف رائے تھا۔ حکیم اللہ ظاہر ہے نہ تو اپنی لیڈری کو دائو پر لگا سکتا تھا نہ اپنے آقائوں کو ناراض کر سکتا تھا ولی الرحمٰن اور حکیم اللہ کے درمیان ایک تنازعہ شروع ہوا اور اسی کے نتیجے میں حکیم اللہ نے اپنے امریکی آقائوں کو ولی الرّحمٰن کے ٹھکانے کا پتہ بتایا اور یوں ڈرون حملے میں اُسے ماردیا گیا تاکہ نہ مذاکرات ہوں نہ امن قائم ہو اور نہ ہی اُس کی کروڑوں کی امداد اور تنخواہ بند ہو۔ اس مخبری کی خبر خود امریکی حکومت کی طرف سے دی گئی کہ یہ اطلاع حکیم اللہ محسود گروپ کے ایک شخص نے دی تھی اور اس کارنامے پر اُسے حکومت امریکہ کی طرف سے پانچ ملین امریکی ڈالر دئیے گئے ۔

مذاکرات کا عمل تو امریکہ اور اس کے امداد یافتہ طالبان نے سبوتاژ کردیا لیکن اب طالبان کی صفوں میں بھی وہ اتحاد باقی نہیں رہ سکے گا بلکہ یقینا اس میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ تحریک طالبان افغانستان کی طرف سے پاکستانی طالبان سے لا تعلقی کا اظہار کیا گیا ہے اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ ا ب پھر ملا عمر کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ اُن کی جنگ امریکہ سے ہے پاکستان سے نہیں اور نہ ہی پاکستانی طالبان سے اُن کا کوئی تعلق ہے ۔یہ بات ماورائے عقل بھی ہے کہ آخر یہ لوگ افواج پاکستان اور حکومت پاکستان کے خلاف کس بنیاد پر بر سر پیکار ہیں ،کیا پاکستان ایک غیر مسلم ریاست ہے جس کے خلاف یہ جہاد کر رہے ہیں اور کیا حکومت یا نظام حکومت سے اختلاف کا مطلب اس ریاست کے ہر باشند ے کا واجب القتل ہونا ہو تا ہے۔ جس میں بچے ،بڑے ،بوڑھے ،مرد اور عورت کسی کی تخصیص نہیں،اگر یہ جنگ اسلام کے نام پر لڑی جا رہی ہے تو تاریخ نبوی میں سے کوئی واقعہ اٹھا کر دکھائیے جس میں راہ چلتے لوگوں کو مار دیا گیا ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس جنگ کی زمام کار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اِس ملک کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس ملک کا وجود ہی اسلام کے خلاف اُن کے ارادوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور دکھ اس بات کا ہے کہ کچھ اسلامی ممالک بھی ان کے مددگار بن جاتے ہیں ۔ لفظ طالب کا مطلب اب وظیفہ اکٹھا کرکے مسجد کے باقی طلبائ کے لیے کھانے کا بندوبست کرنے والے بے ضرر ’’چنڑے ‘‘ ﴿پشتو کے اس لفظ کا مطلب اکٹھا کرنے والا ہے﴾سے بدل کر دہشت اور وحشت کی علامت بن چکا ہے اور اس معصوم بچے کی بجائے اب ایک قاتل اور وحشی کے معنی لے چکا ہے۔ خود کوطالبان کہلانے والے یہ لوگ دراصل وہ مجرم اور اجرتی قاتل ہیں جو بیرون ملک سے امداد لے کر اپنے ہی لوگوں کا خون بہاتے ہیں اور اس کی مثال ان قبائلیوں کے روایات کے مطابق ایسی ہی ہے جیسے اپنے ہی قبیلے کا کوئی شخص مخبری کر کے مخالف قبیلے کو اس کے مطلوب شخص کا پتہ دے اور اس بار تو کھلم کھلا حکیم اللہ محسود نے یہ فعل سرانجام دیا ہے جس کے لیے اُسے اُجرت ادا کی گئی ہے۔ ولی الرحمٰن بھی کوئی بے گناہ شخص نہیں تھا وہ بھی ایک عرصے تک اِن کا آ لہ ئ کا ر بنا رہا لیکن اگر اسے اپنی غلطی کا احساس ہو ہی گیا تھا اور اس نے بارہ سال سے جاری اس قتل عام کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا تو اُسے ہلاک کرنے کی آخر کیا وجہ تھی اور امریکہ نے حکیم اللہ کی مخبری پر عمل کیوں کیا ،ظاہر ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ یہ جنگ ختم ہو بظاہر تو وہ 2014 تک افغانستان سے نکلنے کا اعلان کر چکا ہے لیکن وہ اپنا اثر و رسوخ اور اپنے مفادات اور اِن کی حفاظت کرنے والے چھوڑ کر جائے گا اور اپنی اہمیت جتانے کو یہاں امن قائم ہونے نہیں دے گا ۔ طالبان گروپوں کو بھی یہ سب کچھ مد نظر رکھنا ہوگا اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ان کی آنے والی نسلیں بیرونی آقائوں کے لیے غلا م اور اجرتی ہونے کے فرائض ہی سر انجام دیتی رہے گی اور کبھی امریکہ اور کبھی بھارت اور کبھی کسی اور کے آگے اپنی خدمات کے لیے دست سوال دراز کرتی رہے گی اور خود اپنی زمین اور اختیار کے مالک ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی نمک خوار بنی رہے گی۔ قبائلی خون تو اپنے اختیار میں شراکت بھی برداشت نہیں کرتا کجا کہ اِسے دوسروں کو سونپ کر اِن کا غلام بن جائے وہ بھی صرف پچاس لاکھ امریکی ڈالرز میں۔ کیا وہ مخبر جس نے ولی الر حمٰن کی مخبری کی وہ نہیں جانتا کہ ولی الرّحمٰن کے قبیلے کو اس کے نام کا علم ہوا تو وہ بدلہ لیے بغیر نہیں رہیں گے، کیا اس کا جانشین خان سعید یہ خون معاف کر دے گا اور اگر اُس نے ایسا کیا تو کیا وہ اپنے قبیلے کے سامنے جوابدہ نہیں ہوگا قبائلی روایات اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتی۔

یہ جنگ جسے ہمارے کرتا دھرتا طبقے نے ہماری جنگ بنا ہی دیا ہے اسے اب ختم ہو جانا چاہیے ۔ حکومت اور افواج پاکستان کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ طالبان میں ایک ولی الرّحمٰن تھا اور اس کی موت کے ساتھ ہی صلح جوئی کے تمام راستے بند ہو گئے ہیں ظاہر ہے ایک ولی الرّحمٰن تھا تو دس بیس اور بھی ہونگے جن کے آسرے اور سہارے پر اُس نے مذاکرات کی ہمت کی ہوگی بہت سے ایسے طالبان اب بھی زندہ ہیں جو ایک بار غلطی سے اس دام میں آگئے ہیں اور اب اس سے نکلنا چاہیے ہیں لیکن کئی مجبوریوں کی وجہ سے ایسا نہیں کر پا رہے ضرورت ان کی تلاش کی ہے اور پھر ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ پچاس ہزار جانیں گنوانے کے بعد بھی اگر جنگ کا فیصلہ نہ ہو تو پھر سٹریٹجی کو بدل دینے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اسے ہر صورت بدل دینا چاہیے ۔ ولی الرّحمٰن کی موت کا ایک اور بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے بہت بڑے پیمانے پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے یعنی صلح کے مذاکرات کو ختم کر کے۔ ڈرون حملے تو اب اس کی عادت بن چکے ہیں لیکن نئی حکومت کو اس پر جراتمندانہ اقدام اٹھانا ہوگا ور نہ اُسے بھی آئندہ پانچ سال تک باہر سے حملے اور اندر سے مخالفت برداشت کرنا ہوگی۔ خود کو شیر کہنے والی یہ حکومت یاد رکھے کہ ملکی سلامتی اور سرحدوں کی حفاظت حکومت کی پہلی ذمہ داری ہوتی ہے اور موجودہ حکمران اگر ملک کو ایٹمی قوت اور ناقابل تسخیر بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں تو آج اُس کے پاس ایک اچھا موقع ہے کہ وہ یہ کارنامہ بھی سر انجام دے دے اور اپنے عوام کو ڈرون حملوں سے بھی محفوظ کرلے، اور اگر دہشت گرد ی کی جنگ ختم نہیں کر سکتی تو کم از کم پاکستان اور اس کے عوام کو پر امن طریقے سے اس جہنم سے نکال لے اور پورے ملک میں راہ چلتی زندگیوں اور قبائلی علاقوں میں گھر میں بیٹھی ہوئی جانوں کو محفوظ بنا دے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552502 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.