دوبئی چلو

انسان کو اس دنیا میں بسنے کے بعداپنے معاش کی فکر ہویٔ۔شروع میں انسان نے شکار کرنا سیکھا۔ پھر کھیتی باڑی کی۔ اب جیسے جیسے انسان نے ترقی کی اسے روزگار کے نئے مواقعے ملتے گئے۔آج کے دور میں جہاں دنیاوی ترقی اپنے عروج پر ہے زندگی کے ہر شعبے میں انسان مصروف عمل ہے۔ زراعت کے ساتھ ساتھ صنعت و تجارت کی انگنت شاخیں انسان کو روزگار کے لاکھوں کروڑوں مواقع فراہم کرتی ہیں۔ جہاں بہترین حکمت عملی، وسائل کا بہتراستعمال اور مخلص قیادت دستیاب ہو وہاں یہ مواقع پروان چڑھتے ہیں۔ لیکن جہاں سیاسی و معاشی بے قادٔگیاں اور غیر مخلص بلکہ مجرمانہ ذہنیت کی حامل قیادت ہووہاں یہ مواقع مسدود سے مسدود تر ہوتے جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارا ملک بھی ایسے ہی ملکوں کی صف میں لا کھڑا کیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا اور اسکے کیا محرکات و عوامل تھے یہ بحث پھر کسی موقع پر، ایسے میں لوگوں کو تلاش معاش کے کمتر وسایٔل میں ایک راہ بھیڑ چال کی صورت یہ نظر آیٔ کہ کام اور کمانے کے لیے خلیج کے مملک کا رخ کیا جاۓ۔
(اس تحریر میں دوبیٔ کا لفظ خلیجی ممالک کے دیگر تمام بڑے شہروں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے)۔

اپنا ملک بھی اپنے گھر کی طرح ہوتا ہے۔ اس ملک کے بسنے والے اپنے ملک کے قوانین اپنی سہولت کو مد نظر رکھ کر بناتے ہیں۔ان قوانین اور اپنے منتخب سربراہوں کی وجہ سےوہ جو ترقی کرتے ہیں وہ ترقی بھی ان کی اپنی ہوتی ہے۔ اس ترقی کے بل بوتےپر وہ اپنی زندگی میں آرام و آسایٔش کا سامان مہییا کرتے ہیں۔ انہیں اور ان کی ساری ترقی کو دیکھ کراپنے ملک میں اور اپنی زمین میں اپنے حالات درست کرنے کی بجاۓ ان کے گھر (ملک) چلے جانا کہیں کی عقلمندی نہیں، بلکہ سراسر حماقت کی اعلی ترین مثال ہے۔ ایسے میں وہ اگر آپ کواپنے گھر آنے دیں گے بھی تو آپ کو اپنا دست نگر بنا کر ہی رکھیں گے۔یہاں آپ دوسرے (بلکہ تیسرے، چوتھے، پانچویں) درجے کے شہری ہوگے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حقیقت یہ کہ آپ کا کویٔ درجہ ہی نہ ہوگا۔ دوبیٔ میں کام کی غرض سے آنے والے پاکستانی (نہایت آسودہ حال سے نہایت بے حال تک)اس اصول کی منہ بولتی تصویر ہیں۔یہاں کے بظاہر سختی اور اصول پر مبنی ظالمانہ حد سے بھی آگے نکلے ہوۓ قوانین اور ان میں جکڑے ہوۓ خارجی ایک ایسی مخلوق کی غا زی کرتے ہیں کہ باری تعالی کو ان پہ ترس آجانا ایک فطری بات ہے۔ لہذا اس راقم کے خیال میں عنقریب یہ ساری صورتحال تبدیل ہونے والی ہے، انشاءاللہ۔
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ جس پر قلم طراز ہونے سے پہلےراقم اس تحریر کو علماء حضرات کے سامنے سوال کے طور پر رکھنے کی بھی جسارت کرتا ہے کہ آپ حضرات نے ۱۹۷۸۔ ۱۹۷۹ میں جب دوبئل چلو کا بخار پاکستانیوں کو ابھی چڑھا ہی تھا قوم کو یہ کیوں نہ بتایا کہ دوبي جانے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کؤي ایسا فطویٰ جاری نہ فرمایا جس سے پاکستانی دوبیٔ آنے سے رک جاتا۔کیونکہ کویٔ جاپانی، کویٔ کورین، کویٔ ملایٔشیایٔ باشندہ ایسا نہیں کرتا۔سب نے اپنے اپنے ممالک میں خوب جی لگا کے کام کیا، انتھک محنت کی۔ آج دنیا میں ان قوموں کا ایک مقام ہے۔

ایک نہایت جلیل القدر ہستی جن کے نام سے تقریبا سبھی مسلمان بخوبی واقف ہیں: حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کے احوال جاننے کیلۓ آپؐ سے براہ راست خط و کتابت کی۔آپؐ سے بہت دور قرن، یمن میں ہونے کے باعث آپ خط و کتابت کے ذریعے مسلمان ہوۓ لیکن اللہ کے رسولؐ سے شرف ملاقات حاصل نہ ہوا۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی والدہ سے اجازت چاہی کہ جا کر آپؐ سے ملاقات کر آؤں۔ والدہ نے اس شرط پر اجازت دی کہ تم بس جا کے واپس آ جاؤ گے۔ اگر اللہ کے رسولؐ نہ ملے تو تم وہاں رکنا نہیں بس واپس چلے آنا۔ آپ نے یمن سے مدینے تک کا سفر پیدل تین ماہ میں طے کیا۔ رسول خدا کے گھر پہنچے تو ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا کہ آپؐ گھر پہ نہیں اور کہیں باہر تشریف لے گۓ ہیں۔ آپ نے اللہ کے رسول کو سلام کہنے کو کہا اور بتایا کہ میں واپس یمن جا رہا ہوں کیونکہ مجھے والدہ نے رکنے کی اجازت نہیں دی ۔

نبی ؐ سفر سے واپس تشریف لاۓ تو آپؐ نے اپنے گھر میں حضرت اویس کا نور دیکھا ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپؐ کو پوری بات بتایٔ ۔ اس پر اللہ کے رسولؐ یمن کی طرف دیکھتے ہوۓ فرمایا کہ ہمیں اپنے دوست (اویس) کی خوشبوآ رہی ہے۔

حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ پھر نبی پاکؐ کی حیات میں دوبارہ مدینہ تشریف نہ لا سکے اور والدہ کی خدمت میں مصروف رہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ والدہ (والدین) کی خدمت اتنی بڑی ذمہؑ داری ہے کہ اللہ کے نبیؐ سے ملاقات رہ گیٔ۔ اور ہم: ہم اسی حجاز ماں کو پیچھے چھوڑ دنیا کمانےچلے آیںٔ۔ یہ کہاں کا انصاف ہوا؟ یہ کونسا دین ہوا؟ کیا اللہ اور اسکا رسولؐ میرے اس عمل سے خوش ہونگے یا ناراض؟ ایسا میں نے ایک لمحے کو بھی نہ سوچا نہ کسی سے پوچھنے کی زحمت گوارا کی۔

ایسا میں نے صرف اپنے ذہن سے اور دوسروں کو دیکھ کر کیا۔ بیرون ملک جا کرپاکستانیوں نے ملک کو کس قدر سنبھال لیا؟ اس بات کا ہر پاکستانی کوبخوبی اندازہ ہو جاتا ہے جونہی وہ وطن کی سرزمین پہ پہنچتا ہے۔لیکن پھر بھی نہ تو ہمیں خود سے عقل آ رہی ہے اور نہ ہی کویٔ ملا مولوی حضرت ہمیں یہ باور کرانے کی زحمت فرما رہے ہیں کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟

قوم آج اس قدر انتشار کا شکار ہے کہ آیٌندہ بھی کویٔ اس بات کا مشورہ دے لگتا نہیں۔ ایسے میں یہ راقم اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ اس مختصر تحریر کے ذریعے ہر پاکستانی کو جو ملک سے باہر ہےاس بات کی نصیحت کروں کہ خدارا بس اب بہت ہو چکی اب گھر واپس چلنا چاہیے ہے۔ اور جا کر گھر (ملک) کو دیکھنا چاہیے ہے۔ ملک ترقی کرے گا تو میرا گھرانہ خود بخود ترقی کرے گا۔ دوبیٔ جا کر صرف میں ترقی کرونگا اسکی بھی کویٌ ضمانت نہیں۔ اگر بالفرض میں نے ترقی کی بھی اور ملک نے ترقی نہ کی تو اس کے نتیجے میں افراط زر بڑھے گی بیروزگاری بڑھے گی جرم بڑھے گا۔ نتیجتا مزید ظالم لوگ طاقت اور پیسے کے بل پر حاکم و حکمران بن کر مجھ پر مسلط ہوتے رہیں گے۔
وما علینا الا البلاغ

Adil Nowshirwan Rasid
About the Author: Adil Nowshirwan Rasid Read More Articles by Adil Nowshirwan Rasid: 4 Articles with 3891 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.