جزائر کی سرزمین - فلپائین

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(12جون :قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

جمہوریہ فلپائین ،جنوب مشرقی ایشیا کا ملک ہے جو سات ہزار سے زائد چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل ہے جو سمندر کے اندر پانچ سو میل کے احاطے میں پھیلے ہیں۔ فلپائینی جزائرکا کل خشک رقبہ ایک لاکھ پندرہ ہزار مربع میل سے کچھ زائد ہے۔یہ ملک چاروں طرف سے سمندرمیں ہی گھراہے اس لیے اسکی سرحدیں کسی ملک کے پڑوس سے ناآشناہیں،تاہم چین،تائیوان،تھائی لینڈ،برمااور ملائیشیااس کے قریب ترین ممالک ہیں۔سولھویں صدی عیسوی میں جب فلپائین کا علاقہ ملک اسپین کے زیر تسلط تھا تو اس وقت کے اسپینی بادشاہ’’فلپ ثانی‘‘کے نام پر اس سرزمین کانام ’’فلپائین ‘‘رکھاگیاتھا۔’’منیلا یہاں کا سب سے بڑا شہر ہے اور 1976ء سے اس ملک کا دارالحکومت بھی ہے،یہ شہر’’لوزون‘‘ نامی سب سے بڑے جزیرے پر واقع ہے۔فلپائین تین سو تیتیس سالوں تک اسپین کے زیرتسلط رہااس کے بعد اٹھتالیس برسوں تک یہاں امریکی سامراج نے اپنے ڈنڈے گاڑے رکھے،شاید اسی کے باعث فلپائین کے مغرب کے سایھ بہت گہرے تعلقات ہیں۔یہ ایشیاکا ایک ترقی پزیر ملک ہے اور تعلیمی لحاظ سے اپنے براعظم کے صف اول کے ممالک میں شامل ہے۔

سولھویں صدی عیسوی میں اسپینیوں کے آنے سے قبل یہ خطہ ارضی چھوٹی بڑی بستیوں پر مشتمل تھااور مقامی سرداریہاں کے آزادقبائل پرخودمختار حکمرانی کرتے تھے۔زراعت اور مچھلی بانی یہاں کے مقامی پیشے تھے جن پر آبادی کے روزگار کا انحصار تھا۔اسپینیوں نے یہاں پر تمدنی زندگی کی داغ بیل ڈالی اور متعدد نئے شہر آباد کیے۔اگست1896میں یہاں اسپین کے خلاف ایک انقلابی جنگ کا آغاز ہوا،انقلابیوں نے اسپین کی افواج کے ساتھ بہت بہادری سے مقابلہ کیا اور اس دوران فلپائین کے انقلابی راہنماؤں کے ساتھ مزاکرات بھی چلتے رہے لیکن اسی دوران امریکی اور اسپینی افواج میں باقائدہ جنگ چھڑ گئی اور 1898میں امریکی بحریہ نے فلپائین کو اسپین سے آزاد کرالیا اور 12جون کوفلپائینی راہنماؤں نے اپنے مادروطن کی آزادی کا اعلان کر دیا،یہ دن آج تک قومی دن کی حیثیت سے فلپائین میں منایاجاتاہے۔چندماہ میں ضروری قوانین کی ترتیب کے بعد جنوری 1899میں فلپائینی انقلابی لیڈر نے صدر کی حیثیت سے اپنے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا۔اس لحاظ سے فلپائین ایشیاکاپہلاملک تھا جس نے یورپی غلامی سے آزادی حاصل کی لیکن امریکی افواج کی موجودگی میں فلپائین کی مکمل آزادی خواب ابھی شرمندہ تعبیر ہونا باقی تھا،امریکہ کے ساتھ اس معاملے میں فلپائینی راہنماؤں کی ایک طویل سیاسی کشمکش رہی جو بالآخر دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی کمزوری سے نتیجہ خیز ہوئی اور 1946کو فلپائین ایک جمہوریہ کی حیثیت سے دنیاکے نقشے پر ابھرآیا۔

1946میں امریکی تسلط کے اختتام سے قبل تک بھی شہروں کی تعداد میں اضافہ ہوتارہا۔ یہاں کی آبادکاری ماضی بعید میں موجودہ انڈونیشیا کی سرزمین سے آئے ہوئے لوگوں نے کی،دسویں صدی میں چین سے بھی کچھ قبائل یہاں آن آباد ہوئے ،بعد کے ادوار نے ہندوستانیوں نے بھی یہاں کا رخ کر لیااور یوں فلپائین کی سرزمین انسانی سروں سے بھرتی چلی گئی اور آج تک انہیں تین اقوام کے لوگوں کی نسلیں یہاں آباد ہیں جو اپنے آپ کو ’’فلپائینی‘‘کہلواتے ہیں۔کچھ قبائل ان سے بھی زیادہ قدیم تاریخی اہمیت کے حامل ہیں آج تک وہ فلپائین کی آبادی میں آٹے میں نمک کے برابر ہی ہیں یہ قبائل’’نیگریٹوس‘‘ یا’’آئیٹس‘‘ بھی کہلواتے ہیں لیکن انہوں نے دیگرنسلوں سے میل ملاپ بہت کم رکھا ہے ،کچھ تاریخ دان انہیں اس زمین کا وارث سمجھتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے ہندوستان میں ’‘’اوڈ‘‘نسل کے لوگ ہیں جنہیں یہاں کا اصل باسی سمجھاجاتا ہے اور انہوں نے آج تک اپنی جداگانہ شناخت قائم رکھی ہے۔فلپائین میں ستر کے قریب مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ’’فلپینو‘‘ یہاں کی بہت زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔لیکن فلپائین کی اصل مادر ی زبان ’’ٹگالوگ‘‘ہے جس نے اپنے دامن میں فلپائین کابہت بڑا تاریخی و ادبی سرمایا سمیٹ رکھاہے۔یہاں کی اکثریت رومن کیتھولک مذہب عیسائیت کی پیروکار ہے،مسلمان اور پروٹسٹنٹ یہاں کی بہت بڑی اقلیت ہیں اور ایک مقتدر تعدادبدھ مذہب کے ماننے والوں کی بھی ہے۔

فلپائین کی سرزمین زیادہ تر پہاڑی جنگلات پر مشتمل ہے اور یہ جنگلات ایشیا میں پائے جانے والے جانوروں اور پرندوں سے بھرے ہیں۔فلپائین کی سرزمین میں بہت قیمتی معدنیات دفن ہیں،سونے،لوہے،زنک،چاندی اور پارے وغیرہ کے بے پناہ ذخائر یہاں موجود ہیں۔فلپائین چونکہ پانیوں میں گھراہے اس لیے یہاں پر دوہزار سے زائد نسل کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جن میں سے بعض نایاب بھی ہیں۔ان سب کے باوجود بھی بیشتر جنوب ایشیائی ملکوں کی طرح فلپائین بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہی ہے،اسکی سرزمین بہت زرخیز ہے اور ساراسال لہلہاتی فصلوں سے کھیت آباد رہتے ہیں۔چاول ،مکئی،کھوپرا،گنا،تمباکو،اناناس،کیلا،آم اور بہت سے دیگر کھٹے پھل اور سبزیاں یہاں اگائی جاتی ہیں۔چاول یہاں کی نقد آور فصل سمجھی جاتی ہے اور کم و بیش پورے ملک میں ہی اسکے کھیت نظر آتے ہیں۔فلپائین دنیامیں کھوپرے کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے اور کھوپرے سے تیار کی جانے والی اشیا یہاں کی بہت بڑی صنعت ہے اور کھوپرایہاں سے برآمد بھی کیاجاتاہے۔چینی،مچھلی اور جنگلات کی لکڑی بھی فلپائین سے بڑے پیمانے پر پوری دنیا میں برآمد کی جاتی ہیں۔حکومت صنعتوں پر خصوصی توجہ دیتی ہے۔محصولات میں نرمی سمیت سرمایادوست منصوبہ بندی کے باعث فلپائین میں صنعت تیزی سے ترقی پزیر ہے۔مزدوروں کے لیے یونین سازی کی جاتی ہے اور انکے تحفظ حقوق کی خاطر قانون بھی بنایا گیاہے۔

فلپائین میں1986میں تیار کیاگیادستور ایک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے فروری1987کو منظور کیاگیا،اس دستورکے مطابق دو ایوانوں کو قانون سازی کے اختیارات سونپ دیے گئے،کانگریس جو250ارکان پر اورسینٹ جو 25اراکین پر مشتمل ہیں۔دستورکے مطابق کانگریس کے اراکین ملکی اضلاع سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور انکی مدت تین سال ہوتی ہے،جبکہ سینٹ کے اراکین کی مدت انتخاب زیادہ سے زیادہ چھ سال ہوتی ہے۔صدر مملکت کے صوابدیدی اختیارات میں کابینہ کے ارکان کی تعیناتی بھی شامل ہے۔ملک کے 73صوبے ہیں جنہیں بارہ حصوں میں تقسیم کیاہوا ہے،ہر صوبے پر منتخب شدہ گورنر حکومت کرتاہے۔یہی طریقہ شہری حکومتوں کا بھی ہے جہاں چھوٹی سطح پر منتخب افرادحکومتی مشینری کے ساتھ مل کر کاروبار ریاست چلاتے ہیں۔فلپائین میں عدلیہ مضبوط اور آزاد ہے خاص طور اس ملک میں سپریم کورٹ کی بہت قدر کی جاتی ہے اور اس اعلی عدالت کو تنقید سے بالاتر سمجھاجاتاہے،1987کے دستورمیں عدلیہ کی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔چھوٹی عدالتوں کے بوجھ کو کم رکھنے کے لیے محلے کی بنیاد پر پنچائت کے نظام کو متعارف کرایاگیاہے،یہ پنچائتیں سزا تو نہیں دے سکتیں لیکن ان کے مفاہمتی فیصلوں کو حکومتی سطح پر تسلیم کیاجاتاہے۔تعلیم کا شعبہ فلپائین میں بڑے شعبوں میں سے ایک ہے۔یہاں پر ابتدائی تعلیم کادورانیہ چھ سال،ثانوی تعلیم کادورانیہ چارسال اور اعلی تعلیم کا دورانیہ چارسے نوسالوں پر محیط ہوتاہے۔جبکہ پیشہ ورانہ تعلیم ایک سے دوسالوں پر مشتمل ہوتی ہے،بیشتر تعلیم کا ذریعہ قومی زبان ہے تاہم بعض مضامین انگریزی زبان میں بھی پڑھائے جاتے ہیں۔جو نوجوان کسی وجہ دوران تعلیم عملی زندگی سے وابسطہ ہوجاتے ہیں انکے لیے تعلیم بالغاں کی طرز کے منصوبے جاری کیے جاتے ہیں جو انہیں صحت،صفائی اور دیگر ضروری معلومات فراہم کرتے ہیں۔

’’مورولینڈ‘‘کے نام سے فلپائین پر مسلمانوں نے کم و بیش تین سوسالوں تک بلا شرکت غیرے حکومت کی ہے۔اس دوران مسلمان حکمرانوں نے یہاں پر شاندار معاشی و معاشرتی عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کیاجس میں غیر مسلموں کو بھی مکمل مذہبی وشہری آزادیاں حاصل تھیں۔مغربی سامراج نے یہاں پر سیکولر ازم کی آڑ میں مذہبی منافرت پیداکی اور کلیساکی پشت پر سے اسلام پر پر نارواحملے کرکے یہاں سے مسلمانوں کی باقیات کو مٹانا چاہا۔تب سے آج تک مسلمان فلپائین میں حالت جنگ میں ہیں۔1946کے بعد سے وہاں کی حکومت نے دانستہ طور پر مسلمان اکثریتی آبادی کے علاقوں میں عیسائیوں کو تعینات کرنا شروع کیاتاکہ مسلمانوں کی حق تلفی کی جا سکے ،ان عیسائی افسران نے باہر سے عیسائیوں کو بلا کر مسلمانوں کی املاک و اموال انہیں دینا شروع کیے اور مسلمانوں کو ہجرت پر بزورقوت مجبور کیا۔ان حالات میں مسلمانوں نے اپنا دفاع کرنا شروع کیا اور یہاں کے نوجوانوں نے ’’مورو نیشنل لبریشن فرنٹ ‘‘کے نام سے اپنی تنظیم بنائی بعد میں اس کانام ’’مورواسلامک لبریشن فرنٹ‘‘رکھ دیا گیا،اس تنظیم کے تحت مسلمانوں کی سیاسی اور عسکری مساعی جاری ہیں اور وہاں کے مسلمانوں کا فیصلہ ہے کہ پاکستان کی طرح وہ بھی ایک آزاد اسلامی ریاست سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔کل امت مسلمہ کے عوام و خواص اورحکمرانوں کے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا وہ فلپینی مسلمانوں کو اپنا حصہ سمجھتے ہے؟؟

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.