معذورافراد جن کو عرف عام میں ''خصوصی افراد''بھی کہا
جاتا ہے پاکستان کی سب سے بڑی کمیونٹی تو ہے ہی لیکن اگر اسے پاکستان کی سب
سے زیادہ نظرانداز کی جانیوالی کمیونٹی بھی کہہ دیا جائے تو غلط نہ
ہوگامقام حیرت ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں جب پوری دنیا میں معذورافراد
کیلئے صحت ،تعلیم ،روزگارو وظائف سمیت بے پناہ سہولیات و مراعات کا اہتمام
کیا جارہا ہے تاکہ معذورافراد کو کسی بھی موقع پر دوسروں سے کمتری کا احساس
نہ ہو اور وہ اپنے آپ کو تیسرے درجے کے شہری نہ سمجھیں لیکن ہمارے ملک میں
جس کی بنیاد ہی اس اسلام کے مبارک نام پررکھی گئی جو معذورافراد کا سب سے
بڑاداعی ہے اور جس نے عام زندگی میں معذورافراد کو بہت سی رعایات کا مستحق
قراردیا ہے اور معذورافراد کے حقوق کیلئے آج جتنی بھی تحریکیں دنیا بھر میں
چل رہی ہیں اس سلسلے کی سب سے پہلی اور موثرآواز اسلام ہی نے اٹھائی تھی
چنانچہ اللہ پاک نے سورۃ الحجرات میں فرمایا''اور ایک دوسرے پرعیوب نہ لگاؤ
اور کسی کو برے لقب سے نہ پکارو''اسی طرح ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے''بنی
آدم کی دل آزاری کبیرہ گناہ ہے''ایک بار حضرت عمرؓ ایک دعوت میں شریک تھے-
وہاں ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھارہا تھا آپ نے اسے پوچھا کہ تو دائیں
ہاتھ سے کیوں نہیں کھارہا ؟ تو اس نے عرض کیا کہ امیرالمومنین میرا دایاں
ہاتھ جنگ میں شہید ہوگیا ہے یہ سن کر حضرت عمرؓ رونے لگے اور بیت المال سے
نہ صرف اس کیلئے وظیفہ مقرر کیا بلکہ اس کی خدمت کیلئے ایک ملازم کا بھی
بندوبست کردیا ۔بہرحال قصہ مختصر یہ کہ اسلام نے تو معذورافراد کے حقوق کو
سب سے زیادہ اور سب سے پہلے اجاگر کیا لیکن آج ہمارا پیارا ملک اسلامی
جمہوریہ پاکستان ان اسلامی تعلیمات کو مدنظررکھتے ہوئے معذورافراد کیلئے
کوئی قانون سازی نہیں کررہاجس کی وجہ سے یہ بڑا طبقہ جانوروں کی سی زندگی
گزارنے پر مجبور ہے اب جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نہ صرف پنجاب بلکہ وفاق میں
بھی حکومت بنانے جارہی ہے تو یہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آئندہ چند
روز میں پیش کئے جانیوالے بجٹ میں معذورافراد کو ہرگزفراموش نہ کرے اور ان
کی بحالی کیلئے ایک باقاعدہ فنڈ جاری کرے جس کے تحت معذورافراد کومندرجہ
ذیل سہولیات دی جاسکتی ہیں -
***ہنرمند اور کاروبار کے خواہشمند معذورافراد کو آسان اقساط میں بلاسود
قرضے فراہم کئے جائیں اس طرح نہ صرف وہ کسی پربوجھ بننے اور معاشرے بلکہ
اپنے ہی گھر والوں کی کڑوی کسیلی باتیں سننے سے بچ جائیں گے بلکہ معاشرے کے
دیگر محروم طبقات اور افراد کیلئے عزم و ہمت کی مثال بن جائیں گے اور
معاشرے میں یہ سوچ پروان چڑھے گی کہ جب یہ معذورافراد اپنی محنت سے کما
سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں یہ مثبت سوچ کافی حد تک جرائم کے خاتمے میں بھی
ممدومعاون ثابت ہوگی۔
***معذورسرکاری ملازمین کو اضافی معذوری الاؤنس دیا جاسکتا ہے جس سے انہیں
اپنے سپیشل ہونے کا احساس ہوگا اور وہ خود کو دوسروں سے کمتر نہیں بلکہ
منفرد سمجھیں گے۔
***تمام سرکاری سکولوں میں معذورافراد کے بچوں کی مفت تعلیم ،تمام سرکاری
ہسپتالوں میں مفت علاج معالجے اور مفت سفری سہولیات دی جائیں۔
***ہر ضلع میں معذورافراد کو درپیش مسائل کو سننے اور ان کے حل کیلئے سپیشل
کمپلیکس بنائے جائیں جہاں معذورافراد آزادی سے نہ صرف اپنے مسائل ڈسکس
کرسکیں بلکہ ان کو اعلیٰ حکام تک بھی پہنچاسکیں۔
***کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے یا شخص کی جانب سے زیادتی کی صورت
میں اسے مفت قانونی امداد دی جائے۔
****انتہائی حساس معذورافراد کو ان کے گھر کی دہلیز پر وظیفہ پہنچایا جائے۔
***پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر معذورافراد کے حقوق و مسائل کو بھرپور
hilightکیا جائے تاکہ معاشرے میں بھی ان کے حقوق کے بارے میں شعوروآگہی
پیدا ہو سکے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سابق حکومت نے معذورافراد کے حوالے سے
اقوام کے بین الاقوامی چارٹر پردستخط بھی کرچکی ہے جس کے تحت معذورافراد کو
عام انسانوں سے بڑھ کر ٹریٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی آنیوالی حکومت معذورافراد کی امیدوں کو پورا کرتی
ہے یا انہیں مایوسی کے مزید گڑھوں میں دھکیلتی ہے۔ |