انسان بے شک ایک ہزار سال جی لے آخر کار انجام موت کی
صورت میں ہی ہو گا زندگی اور موت کے درمیان صرف چند لمحوں کا فاصلہ ہے جیسے
آزان اور نماز کے درمیان وقت بلکل ایسے ہی جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اسکے
کان میں آزان دیکر یہ بتا دیا جاتا ہے کہ اب نماز کسی بھی وقت پڑھی جاسکتی
ہے جوانسان اس دنیا میں آگیا اسے ایک دن لوٹ کر ضرور جانا ہے آئے روز اپنے
ارد گرد اس دنیا سے جانے والوں کی نماز جنازہ پڑھ کر انہیں رخصت کرتے
دیکھتا رہتا ہوں کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی موت کو انسان بھلائے
بھی تو بھول نہیں سکتا اور ایک کے بعد جب دوسری موت سامنے آجائے تو ان سے
پہلے جانے والوں کی یادیں بھی تازہ ہو جاتی ہیں اسی ماہ 8 جون کی بات ہے کہ
میں اپنے بہت ہی پیار کرنے والے سید ممتاز احمد شاہ کی بیٹی کی رخصتی کی
تقریب میں جانے کے لیے تیاری کررہا تھا کہ بہاولپور سے چھوٹے بھائی جاوید
اکبر کا ٹیلی فون آیا کہ ماموں چوہدری ارشاد فوت ہوگئے اتنی سی بات کے بعد
نہ مجھ سے کچھ بولا گیا اور نہ ہی بھائی سے تفصیلات بتائی گئی میں فوری طور
پر بہاولپور کے لیے چل پڑا اوراپنے گاﺅں تک جاتے ہوئے 8گھنٹے کا سفر مجھے
ماضی میں لے گیا جب ہم بچپن میں والدہ محترمہ کے ہمراہ چھٹیوں کے دنوں میں
ساہیوال سے بہاولپور جایا کرتے تھے تو اس وقت رات کو ارشاد اور اعجاز دونوں
بھائی ہاتھوں میں ٹارچ پکڑے ہمیں لینے آیا کرتے تھے اعجاز کے ساتھ جو عمر
میں مجھ سے چند سال ہی بڑے تھے اور ارشاد سے چھوٹے تھے میری دوستی بہت
زیادہ تھی اور اس وقت ہم اکثر خط و کتابت کے زریعے ایک دوسرے کو خوبصورت
شعر بھی لکھ کر بھیجا کرتے تھے ان دنوں ٹرین کے زریعے ہم ساہیوال سے ڈیرہ
نواب صاحب ( احمد پور شرقیہ) جاتے اور پھر وہاں سے ایک بس پر بیٹھ کر اپنے
گاﺅں 36/DNB پہنچ جاتے تھے مجھے آج بھی یاد ہے کہ پورے دن کا یہ سفر جو صبح
ساہیوال سے ٹرین پر شروع ہوتا تھا رات گئے بذریعہ جرینلی سڑک36چک جا کر
اختتام پذیر ہوتا تھا اور اس وقت احمد پور شرقیہ سے جو اکلوتی بس چلتی تھی
اس کے ڈرائیور لال ڈاڑھی والے کا حلیہ مجھے آج بھی یاد ہے جب ہم گاﺅں کے
سٹاپ پر اترتے تھے تو اس وقت اکثرسورج زمین کی آغوش میں جانے کی وجہ سے
اندھیرے کا راج شروع ہو چکا ہوتا تھاتو ہمیں رات کے اندھیرے میں گھر تک لے
جانے کے لیے ہمارے یہ دونوں ماموں چوہدری ارشاد اور اعجاز ناجانے کب سے اس
جرنیلی سڑک پر ہمارے انتظار میں بیٹھے ہوتے تھے اور جب ہم بس سے اترتے تھے
تو اس وقت ان دونوں بھائیوں کی خوشی کی کوئی انتہاءنہ رہتی تھی اور گاﺅں
میں گذرنے والے دن چند گھڑیوں میں گذر جاتے اور پھر ہماری واپسی کا سفر
شروع ہو جاتا بچپن گذرنے کا تب احساس ہو ا جب والد صاحب کی وفات کے بعد بڑے
بھائی جو اس وقت میٹرک کے طالبعلم تھے کے کندھوں پر آن پڑی اور پھر چند
سالوں کے بعد اعجاز ماموں جو بڑے اچھے دوست اور عمر میں بھی چند سال ہی بڑے
تھے انکا نوجوانی میں اچانک انتقال ہوگیا انکا یہ صدمہ ابھی تازہ ہی تھا کہ
بڑے بھائی سہیل اکبرجو ابھی جوانی کی دہلیز پر ہی تھے وہ بھی ہمیں چھوڑ گئے
ان پے درپے صدموں نے ایسے ہوش آڑائے کہ جیسے سب کچھ ہی لٹ گیا اور ہم بے
آسرا ہو گئے مگر ان حالات میں میرے بڑے ماموں میاں انجم فارانی اور چوہدری
ارشاد نے ہمیں ایسے سہارا دیا جیسے جون جولائی کے دنوں میں تپتے ہوئے
صحرامیں کسی پیڑ کی گھنی چھاﺅں میسر آجائے بلکل ایسے ہی ہمارے سروں پر ان
دونوں نے چھاﺅں کیے رکھی اور ہم زندگی کی روانی میں دوبارہ حالات کا مقابلہ
کرنے لگ گئے ابھی وہ سب پرانے زخم ہرے تھے کہ اچانک ایک دن بہاولپور سے بڑے
ماموں کا فون آیا کہ ارشاد ہسپتال میں ہے امی اور چھوٹا بھائی فورا روانہ
ہوگئے اور میں اپنے کام میں مصروف رہا مگر 8جون کو جب چھوٹے بھائی جاوید نے
فون کرکے صرف اتنا بتایا کہ ماموں فوت ہوگئے تو اسکے بعد حلق سے آواز نہ
نکل سکی والد محترم غفور علی ،بھائی سہیل اکبر ،ماموں ارشاد اور اعجازیہ
چاروں عہد سازشخصیت تھیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں بے پناہ کام کیے جن کی
تفصیلات پھر کبھی اس وقت صرف اتنا بتاتا چلوں کہ چوہدری ارشاد کے جانے سے
جو نقصان اہل علاقہ کا ہوا وہ شائد آجتک کسی کے جانے سے نہیں ہوا ہوگا گاﺅں
کے مسئلے مسائل کبھی تھانہ کچہریوں تک نہیں گئے سیاست میں جس کی حمایت کردی
پھر ناکامی اسکے مقدر میں نہیں آتی تھی کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو وہ
سیدھا چوہدری کے ڈیرے پر نہ جانے اس شخص میں اللہ تعالی نے کیاخصوصیت رکھ
دی تھی کہ کسی کو بھی کسی بھی کام سے انکار نہیں کیا عام لوگوں کے مسائل کو
ذاتی کام سمجھ کر ساتھ دیا کبھی اپنا لالچ سامنے نہیں رکھااور اسے لالچ کسی
چیز کا تھا بھی تو نہیں کیونکہ اللہ پاک نے انہیں سب نعمتوں سے نوازا ہوا
تھا اور انکے جنازہ میں اتنے زیادہ لاگ شریک تھے کہ صفوں کا کوئی اندازہ
نہیں تھا بس یہ تھا کہ لڑکوں کے سکول کا گراﺅنڈ بھر چکا تھا اور لوگ تھے کہ
رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور انکے جنازہ میں بچوں سے لیکر بوڑھوں تک سب
کو ڈھاڑے مار کر روتے ہوئے دیکھا آللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام
عطا فرمائے اور انکی بوڑھی والدہ کو پے در پے آنے والے صدمات برداشت کرنے
کی ہمت عطا فرمائے کیونکہ اب سب ذمہ داریاں ایک بار پھر انکے کندھوں پر آن
پڑی ہیں اللہ تعالی انہیں اور بڑے ماموں میاں انجم فارانی کو صحت تندرستی
اور لمبی عمر عطا فرمائے (آمین )
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا |