ایثار و قربانی ،خلوص و محبت، عدل و مساوات ، فراخدلی و
خندہ پیشانی کی جو مثال ہجرت مدینہ کے وقت دیکھنے میں آئی آج تک اور رہتی
دنیا تک اس کی مثال صفحہ ہستی پر نہیں ملتی جب مکہ سے مسلمان بے سروسامانی
اور پریشانی کی حالت میں مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تولگتا ہی نہیں تھا کہ
یہ لوگ پہلی مرتبہ ایک دوسرے سے مل رہے ہیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ صدیوں
سے بچھڑے ایک دوسرے کے تعلق دار و رشتہ دار ہیں اور اس وقت ان سب کا شوق
بھی دیدنی تھا ان میں سے ہر ایک کی خواہش اور کوشش تھی کہ میں کسی نہ کسی
طرح مکہ سے ہجرت کرکے آنے والوں مسلمانوں کے کام آسکوں ان کی خدمت کرکے
اپنی خوش قسمتی پر رشک کرسکوں۔ ان میں جو جذبہ تھا اسے الفاظ میں بیان ہی
نہیں کیا جاسکتا کہ جذبات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا کہ جس کی موجیں
بار بار چھلکی جارہی تھیںآنے والوں کیلئے انہوں نے اپنے نگاہیں بچھائی
ہوئیں تھی اور ان کی مدد کو اپنا اولین شعار سمجھا جارہا تھا۔انصار مدینہ
نے مکی مسلمانوں کو اس طرح accomodateکیا کہ اپنی جائیداد مال و دولت
کاروبار میں اپنا شراکت دار بنالیا توکسی نے اپنا آدھا کاروبار آدھی
جائیدادآدھا مال ودولت بے لوث و بے غرض اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا۔اور
ایسی مثال بھی سامنے آئی کہ اگر کسی انصاری کی دو یا زائد بیویاں تھیں تو
انہیں بھی طلاق دے کر دوسرے بھائی کے نکاح میں دے دی ایسی مثال چشم فلک نے
اس سے پہلے نہ کبھی دیکھی تو اور نہ کبھی دیکھ سکے گا اور مہاجرین نے بھی
حق ادا کرتے ہوتے صرف وہی لیا جس کی اشد ضرورت تھی اور محنت مزدوری کو اپنا
شعار بنایا تاکہ انصاری بھائی پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔ اس کے بعد بھی فلک نے
دیکھا کہ جب مکہ فتح ہوا اور حضور اکرم ﷺ جب فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل
ہوئے تو اس وقت آپ نے جو فرمایا وہ رہتی دنیا تک ہمیشہ سے سنہری حروف میں
لکھا جائیگا کہ آج کے دن تمام دشمنوں کو عام معافی ہے کسی سے کوئی بازپرس
نہیں کی جائیگی عفو و درگزر صلہ رحمی اور ایثارکی ایسی مثال کبھی نہ دیکھی
جائیگی اور نہ سنی جائیگی۔
پاکستان کے بنتے وقت بھی اس سے ملتے جلتے ایثار وقربانی اور خلوص و محبت کے
واقعات تاریخ کا حصہ ہیں کہ جب ہندوستان سے مسلمانوں نے پاکستان کی طرف
ہجرت کی اس وقت وہ نفسا نفسی کا عالم تھا کہ ماں بیٹی سے بیٹا باپ سے بھائی
بھائی سے بہن بھائی سے جدا ہوگئے کسی کو مار ڈالا گیا تو کسی کو کاٹ دیا
گیا۔ عصمتیں لوٹیں گئیں عزتیں پامال کی گئیں ،خون کی ندیاں بہادی گئیںایسے
میں بھی مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی جس طرح بن پڑا مدد کی انکو
ایڈجسٹ کرنے کیلئے مال و جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا گیاایسے
واقعات بھی سامنے آئے کہ جب کسی کی مد د کرنے کی پاداش میں اپنی جان کو بھی
داﺅ پر لگادیا گیایہ بھی تاریخ کے اوراق کا ایک سنہری باب تھا۔ لاہور میں
ایک عیسائی کو بچانے کیلئے ایک مسلمان طالب علم گٹر میں اتر جاتا ہے اور
پھر ان دونوں کو بچانے کیلئے ایک اور مسلمان ایثار و قربانی کے جذبے کے تحت
کود پڑتا ہے اور پھر تینوں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔گجرات میں جب
وین میں آگ لگنے کا الم ناک حادثہ رونماہوتا ہے سولہ معصوم طالب علم آگ کے
شعلوں میں لپٹے مدد کیلئے پکار رہے ہوتے ہیں تو ایسے میں ان کی ٹیچر جو کہ
اپنی جان بچا کر باہر نکل چکی ہوتی ہے جذبہ ایثار وقربانی کی مثال قائم
کرتی ہوئی بے خطر آگ میں کود پڑتی ہے اور معصوم ننھے طلبا و طالبات کو
بچانے کی خواہش و کوشش میںاپنی جان جان آفرین کے حوالے کردیتی ہے اور تاریخ
میں ایک اور باب کا اضافہ ہوجاتا ہے لیکن بے حس قوم و حکمرانوں کیلئے ایک
سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہے
دوسری طرف بے حسی درندگی حرص و ہوس کی مثالیں بھی ہمارے معاشرے کو
جھنجھوڑتی رہتی ہیں کہ جب ایک آٹھ سالہ معصوم بچہ برف لینے کیلئے گھر سے
دکان پر جاتا ہے اور برف خریدتے وقت معاشرے کی ہوس پرستی اور بے حسی سے بے
نیازبرف کا ایک ٹکڑ ا اٹھا کر منہ میں ڈال لیتا ہے جس سے وہ ظالم انسان برف
کے ٹکڑے کے نقصان پر ہذیان اور غصے میں مبتلا ہوکراس معصوم پر برف توڑنے
والے سوئے سے وار کرتا ہے جوکہ بچے کو شدید زخمی کردیتا ہے اور بچہ زخموں
کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی اور طمع کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور
اپنے خالق حقیقی جا ملتا ہے جہاں پر وہ یقینا اس بے حس معاشرے کا گلہ کررہا
ہوگا۔ اسی طرح کاایک اور واقعہ جس میں پانچ معصوم بچوں کو باغ سے ایک ایک
آم توڑنے کی پاداش میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے پھر انہیں رسیوں کی مدد
سے باندھ کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ ایک ایک آم کھانے کا معاوضہ ہزاروں روپے طلب
کیا جاتا ہے اور ادائیگی نہ کرنے پر محبوس کردیا جاتا ہے جسے پولیس کی
مداخلت سے بازیاب کرایا جاتا ہے اور باغ کے بے حس مالک شیخ کو گرفتار
کرلیاجاتا ہے جسے یقینا چند سو روپوں کی خاطر چھوڑ بھی دیا جائیگا یا کالم
کے آنے تک چھوڑا بھی جا چکا ہوگا۔
ہر دو رویوں میں اتنا تضاد کیوں ہے؟کیوں یہ بے حسی اور عدم برداشت کے رویے
ہمارے معاشرے کا مزاج بنتے جارہے ہیں وہ بھی انسان تھے جو کہ بے لوث جذبوں
کے مزین اور طمع و حرص و ہوس سے عاری تھے۔جذبہ ایثار و وفا ان کا خاصہ تھا
۔ برداشت اور درگزر ان کی عادات میں شامل تھے۔دھن دولت مال و متاع کی حیثیت
ان کے ہاں ثانوی تھی۔ انسانیت کے دلدادہ تھے اور اس کی فلاح و بہبود ہمیشہ
ان کے پیش نظر رہتی تھی۔اور آج کے انسان نے مسلمان نے پاکستان کی عوام نے
ان قربانیوں اور جذبوں کو پس پشت ڈال دیا ہے کہ برف کے ایک ٹکڑے کی خاطریا
چند آموں کے عوض انسانی جانوں کو کھیلا جائے۔زمانہ جاہلیت کو آواز دی جائے
کہ ”کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا“کے تصور کو کھرچا جائے۔ ان عوامی رویوں
ایک کلیدی کردار حکومتی ناقص پالیسیوں اور نااہلی کا بھی ہے کہ جس نے
مہنگائی کے جن کو کھلا چھوڑ رکھا ہے۔انرجی بحران سے پہلے برف کی یہی پٹی 30
روپے میں فروخت ہوتی تھی جو کہ آجکل100 سے150 روپے میں فروخت ہورہی ہے۔تیس
روپے والی برف موٹی تازی جبکہ آجکل کی برف سوکھے پاپڑ کی طرح ہوتی ہے وجہ
بجلی کی لوڈشیڈنگ۔اب جنریٹر پر برف جمتی ہے پہلے بجلی سے جمتی تھی۔پھر ملتی
بھی نہیں اسے خریدنے کیلئے بھی لمبی لمبی لائنیں نظر آتی ہیں لوگ سوغات کی
طرح سے خرید کر لے جاتے ہیں۔ اور سوغات کی طرح ہی استعمال کرتے ہیںحتی کہ
دھونے میں بھی کنجوسی اختیار کی جاتی ہے کہ زیادہ پانی ڈالنے کی وجہ سے برف
غائب ہی نہ ہوجائے۔ یعنی اتنی قیمتی بنادی گئی ہے کہ اس کیلئے معصوم جانوں
سے کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔
گورنمنٹ کو چاہئے کہ اس قسم کے اندوہناک اور دلخراش واقعات سے نمٹنے کے
ساتھ ساتھ ان کے سدباب کا سبب بھی پیدا کرے اور انرجی بحران پر قابو پائے
تاکہ معاشرے میں مثبت روپے پنپ سکیں اور عوام کی قیمتی جانوں کو برف کے عوض
بھینٹ نہ چڑھایا جائے- |