کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر

شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ" نیکی کر ، اس سے قبل آواز آئے کہ فلاں شخص اب اس دنیا میں نہیں رہا"۔ نیکی ایک چھوٹا سے لفظ ہے،مگر اپنے معنی اور مفہوم کے باعث تمام دنیاوی خزانے اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے ۔ نیکی میں اتنی خوبصورتی ہے کہ دنیابھر کی تمام برائیاں ایک چھوٹی سی بھلائی کے سامنے سر نگوں ہو جاتی ہیں۔ آپ نے بنی اسرائیل کی عورت کا واقعہ ضرور پڑھا ہو گا کہ و ہ انتہائی گنہگار تھی مگر گرمی کے موسم میں جب وہ خود ایک کنویں سے پانی پی کر جانے لگی تو سامنے ایک کتا دکھائی دیا ،اس کی زباں باہر کو نکل رہی تھی،گنہگار عورت نے ارد گرد نگاہ دوڑآئی تو کچھ ایسی چیز دکھائی نہ دی جس کی مدد سے کتے کو پانی پلایا جا سکے،چنانچہ اس عورت نے اپنی چادر کے ساتھ اپنے جوتے کو باندھا اور کنویں کے اندر ڈال کر پانی باہر نکالا اور اس کتے کو پانی پلایا،اللہ تعالی کو اس گنہگار عورت کی یہ ادا پسند آ گئی اور اسکے سب گناہوں کو معاف کر دیا۔ عر ض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نیکی کمانا بہت آسان ہے ،صرف نیکی کی جانب پہلے قدم کو اٹھانا مشکل ہے۔ رضائے الہی کے حصول کی خاطر مخلوق خدا کے کام آنا ،ان کے دکھ درد،غمی خوشی اور تکالیف کا مداوا کرنا نیکی کہلاتا ہے۔ ہمارے مذہب اسلام میں نیکی کمانا انتہائی درجے کا آسان عمل ہے۔

مذہب اسلام کے اندر امیر سے امیر اور غریب سے غریب تر انسان نیکی کے حصول کی خاطر ایک ہی درجے میں تسبیح کے دانوں کی مانند لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ نیکی کا پہلا سبق ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ‘‘سے شروع ہوتا ہے۔ قرآن حکیم جو ہمارا دستور حیات ہے اس کے ایک ایک لفظ کر پڑھنے اور سمجھنے پر نیکی ملتی ہے۔ نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام پڑھنا ،راستے میں پڑی کسی تکلیف دہ شے ،کیلے کے چھلکے کو دور کرنا، کسی پیاسے کو پانی پلانا، بوڑھے یاکسی نابینا کا ہاتھ پکڑکر سڑک پار کروا دنیا ،بھوکے کو کھانا کھلانا، صدقہ کرنا، کسی ایسے شخص کو جس کے پاس کپڑے نہ ہوں اس کے لیئے لباس کا انتظام کر دینا، یتیم بچے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر دینا، راہ چلتے کو راستہ دکھا دینا، مریض کی عیادت کرنا، اپنے والدین، اساتذہ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور زیادہ نہیں تو کسی سے مسکر ا کر بات کر دینا یہ سب اعمال نیکی ہی میں شمار ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کے ماہ میں روزے رکھنا،مسنون اذکار کا صبح و شام پڑھنا بھی نیکی میں شامل ہے اور اس سے درجات بلند ہوتے ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے عمل کو انسانیت کی بھلائی کے لیے بغیر کسی لالچ و نمودو نمائش کے صرف اللہ تعالی سے اجر چاہتے ہوئے کرنا ،نیکی کہلاتا ہے۔اس طرح ہزاروں طریقے موجود ہیں،جن کی بدولت نیکیاں کمائی جا سکتی ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو یہ چھوٹے چھوٹے کام جو بظاہر ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے ، اگر ہم ان کاموں کوہی مداومت عمل کے ساتھ جاری رکھیں تو بے شمار نیکیاں روز انہ کمائی جاسکتی ہیں ۔

امام غزالی فرماتے ہیں "میں نے تمام دنیا پر نظر ڈالی ہر شخص کسی نہ کسی چیز سے محبت کرتا ہے مگر اس محبوب چیز کو دنیا میں چھوڑ کر قبر میں اکیلا چلا جاتا ہے میں نے سوچا کہ میں نیکیوں اور اچھے کاموں سے محبت کروں تا کہ یہ قبر میں بھی میرے ساتھ جائیں اور مجھے اکیلا نہ چھوڑیں"۔ اس عظیم قول میں اہل علم و دانش کے لیے گہرائی موجود ہے۔ انسان اس دنیا میں اپنی مرضی کے خلاف آتا ہے اور جب شعور کو پہنچتا ہے تو اسے دنیا کی رونقیں بھلی معلوم ہونے لگتیں ہیں اور وہ اس دنیا فانی کو ہی اپنا مقصد حیات جان لیتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ اس دنیا میں اللہ تعالی نے انسانوں اور جنوں کی تخلیق صرف اور صرف اپنی عباد ت کے لیے کی ہے۔ جب انسان اپنی مرضی کے برعکس رب ذوالجلال کے حکم پر واپس دارلبقاء میں چلا جائے گا تو وہاں پر اس کے اعمال ترازو میں تولے جائیں گے ایسے میں یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہی خطاؤں پر بھاری ہو جائیں گی۔ قرآن حکیم کی دوسری سورۃ مبارکہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 245میں اللہ تعالی فرماتے ہیں"ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالی کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالی اسے بہت بڑھا چڑھا کے عطا فرمائے ،اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے"۔کتنا مہربا ن ہے اللہ تعالی کہ سب نعمتیں اور خزانے عطاء کرنے کے بعد پھر قرض مانگتا ہے اور ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ اسے دگنا چگنا کر کے لوٹاؤں گا اور کتنے بدنصیب ہم ہیں کہ اس عالی مرتبت کی راہ میں خرچ کرنے اور نیکیاں کمانے کے بجائے اپنے مال کو محفوظ کرنے میں مشغول ہیں اور دل میں یہ خوف ہے کہ کہیں خرچ کرنے سے مال میں کمی واقع نہ ہو جائے۔ اس حوالے سے رحمت للعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ مشعل راہ ثابت ہوتا ہے کہ ’’ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں ایک بکری دی گئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کو اپنے گھر بھیج دیا اور ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس بکری کا گوشت تقسیم کردیں۔ شام کے وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور ام المؤمنینؓ سے دریافت کیاکہ کھانے کے لیے کچھ موجود ہے تو لائیں،ام المومنینؓ نے جواب میں فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی جانب سے بھیجی گئی بکری کے گوشت کو راہ خدا میں تقسیم کر دیا ہے،صرف ایک ران بچی ہے،آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہؓ جو راہ خدا میں خرچ کر دیا وہ باقی رہ گیا اور جو ہم نے کھالیا وہ ختم ہو گیا‘‘۔ اسی طرح حضرت اما م زین العابدین علی ابن حسینؓ ابن علیؓ ایک مرتبہ اللہ کی راہ میں دینے والے اپنے مال کو پیار کر رہے تھے،گھر والوں نے حضرت اما م زین العابدین علی ابن حسینؓ ابن علیؓسے دریافت کیا کہ آپ باقی مال و اسباب کو چھوڑ کر صرف اس مال کو پیارکیوں کر رہے ہیں ؟حضرت اما م زین العابدین علی ابن حسینؓ ابن علیؓ نے جواب دیا کہ جو مال میں اپنے لیے استعمال کروں گا وہ دنیا میں ہی ختم ہو جائے گا اور اس مال کو پیار اس لیے کر رہا ہوں کیوں کہ اس مال کو اللہ تعالی کے حضورجانا ہے،اور جو مال اللہ کے دربار میں گیا ،وہ مال کتنا خوش قسمت ہے کہ اس نے کبھی ختم نہیں ہونا بلکہ باقی رہنا ہے۔ امام غزالی کا خوبصورت قول "میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے پاس کوئی بھی قیمتی چیز ہے تو وہ اس کی خوب حفاظت کرتے ہیں،پھر میں نے اس آیت پر غور کیا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے،چنانچہ اب میں اپنی ہر قیمتی چیز کو اللہ کے حوالے کر دیتا ہوں تا کہ وہ میرے لیے باقی رہے اور میر ے کام آئے" ۔

چند واقعات و حقائق کے حوالہ سے اس بات کی نشاندہی کرنا مقصود تھی کہ آج ہمارے اندر ایسی باتوں کا فقدان عام ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس کی جگہ ایسی قباحتوں نے لے لی ہے جس کا انجام سوائے تباہی کے کچھ نہیں۔ جتنا زیادہ ہم اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے اتنی زیادہ نیکیاں ملیں گی،جتنی زیادہ نیکیاں ہمارے اعمال نامہ میں شامل ہوں گی اتنی آسائشیں اللہ دنیا و آخرت میں ہمارے لیے پیدا کرے گا۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو مال ہم راہ خدا میں خرچ کریں ،وہ حلا ل ہواور اس کے ساتھ ہمارا خرچ بغیر کسی لالچ ،طمع، ریاکاری، دکھاوے سے پاک ہونا چاہیے۔ نیکی کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ نیکیاں برائیوں سے دور کرتی ہیں،جتنا برائیوں سے دور ہوتے جائیں گے اتنا زیادہ اللہ کا قرب حاصل ہوگا اور قرآن حکیم کے بارہویں سپارے کی سورۃ ھود کی آیت نمبر 114 کے آخری حصہ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ" یقیناًنیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لیے" ۔ اب راہ خدا میں خرچ کر کے نیکیاں کمانا صرف امیر کا ہی نہیں ،بلکہ غریب کا بھی کام ہے ۔ امیر انسان کو اگر اللہ تعالی نے لاکھوں خرچ کرنے کی توفیق دی ہے تو وہ دل میں بغیرکسی فطور کو لائے اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اگر غریب آدمی کو اللہ نے ایک روپیہ خرچ کرنے کی توفیق دی ہے تو وہ ضرورراہ خدا میں ایک روپیہ ہی خرچ کرے ۔ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی روپے پیسے کو نہیں،بلکہ نیت کو دیکھتا ہے۔ اس لیے آنکھوں کے بند ہونے سے قبل اپنے نیکیوں کے کھاتے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں ، رب ذوالجلال اس سے دگنا بلکہ بے حساب منافع سے آپ کے کھاتے کو بھر دے گا۔نیکی کی آفرآخری سانس تک محدود ہے۔۔۔۔!!

Danial Shahab
About the Author: Danial Shahab Read More Articles by Danial Shahab: 18 Articles with 22199 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.