أربک لینگویج انٹر نیشنل ڈے

الشیخ ولی خان المظفر

28دسمبر1973ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار داد نمبر3190کے مطابق ہر سال 18 دسمبر کی تاریخ بطور ـ’’ أربک لینگویج انٹرنیشنل ڈے ‘‘ (الیوم العالمي للغۃ العربیۃ)منانے کا اعلان ہوا، عرب دنیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی جامعات ،سفارت خانوں،قونصل خانوں ،بین الاقوامی لیول کی سماجی تنظموں ،عرب لیگ ،اوآئی سی ،خلیج تعاون کونسل ، رابطۃ العالم الاسلامی ،رابطۃ الأدب الاسلامی العالمیۃ ،المجلس الدولی للغۃ العربیۃ ،المجلس العالمی لعلماء المسلمین،یوینسکو اور UN کی طرف سے عالمی سطح پر اپنے اپنے انداز میں یہ دن منایاجاتاہے۔یہاں ہم یوینسکوکی طرف سے اس ڈے کے منانے کے متعلق العربیہ۔نیٹ کی ایک رپورٹ پیش کرنا چاہینگے:’’ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی مذہبی زبان کی اہمیت کا اعتراف :اقوام متحدہ کی تعلیمی،سائنسی اور ثقافتی تنظیم(یونیسکو )کے زیر اہتمام 18دسمبر2012ء کو دنیابھر میں عربی زبان کا پہلا عالمی دن منایا گیا۔

یہ دن مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں میں معلومات کے فروغ میں عربی زبان کے کردار کے اعتراف میں منایا جارہا تھا ۔اس موقع پر پیرس میں قائم یونیسکو کی ڈائر یکٹر جنرل آئرینا بوکوفا نے ادارے کی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان میں کہاہے کہ ’’۱۸ دسمبر ۱۹۷۳؁ء کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عربی زبان کو اپنی سر کاری زبانوں میں شامل کیا تھا ، اس کے چالیس سال کے بعد ہم عربی زبان کی طاقت کے اعتراف میں عالمی دن منارہے ہیں ،یہ زبان ہمیں امن اور پائیدار ترقی کے لئے مشترکہ اقدار کے گرد لائی ، اس نے ہمارے آئیڈیاز کو توانائی بخشی اور ہماری خواہشات کو گہرائی عطا کی ہے ۔

انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’’ہر سا ل اٹھارہ دسمبر کو عر بی زبان کا عالمی دن منانے کا مقصد مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاناہے ،ان کے درمیان ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنا اور مختلف تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ کو فروغ دینا ہے ۔

یونیسکو کے مطا بق دنیا میں50کروڑسے زیادہ لوگوں کی مادری زبان عر بی ہے اور دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان عر بی زبان کو کسی نہ کسی شکل میں استعمال کر تے ہیں،وہ روزانہ پنج وقتہ نماز عربی الفاظ میں اداکر نے اور اﷲ کی آخری الہامی کتاب قرآن مجید کی عربی زبان میں تلاوت کر تے ہیں ۔

متحدہ عر ب امارات میں عربی زبان کے عالمی دن کے موقع پر ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا ، اس میں عربی زبان کی تاریخ ،ادب اور ثقافت سے متعلق کتب پیش کی گئیں اور اس کے فروغ کی غرض سے پبلشرز کے لئے تر بیتی پروگراموں کا انعقاد کیاگیا۔

سابق سوویت ریاست اور آزاد ملک آرمینیا میں طلبہ ، بروفیسروں اور صحافیوں نے عر بی زبان کے عالمی دن کے موقع پر رنگا رنگ بروگراموں کا انعقاد کیا اور ایک تقریب میں عر بی ڈانس ، موسیقی اور تھیٹر پر فارمنس کا مظاہرہ کیا گیا۔

واضح رہے کہ تین اکتوبر2012ء کو پیرس میں یونیسکو کے ایک سو نوے ارکان پر مشتمل ایگز یکٹو بورڈ کے اجلاس میں سعودی عرب اور مراکش نے عربی زبان کا عالمی دن منانے کی تحریک پیش کی تھی جس کو منظور کر لیاگیا تھا ، اب ہر سال اٹھارہ دسمبر کوunاور یونیسکو کے زیر اہتمام عر بی زبان کا عالمی دن منایا جائے گا ۔‘‘

اقوام متحدہ میں تحریر وتقریر کیلئے منظور شدہ زبانیں پانچ ہیں :عربی ، انگریزی ،چینی ،روسی ،اور فرانسیسی ۔گویا مذکورہ بولیاں عالم گیریت کے اس دور میں کسی قوم ،منطقہ اور مذہب کے لئے مختص نہیں ر ہیں ،بلکہ ساری انسانیت ان میں برابر کی شریک ہیں ، اب چونکہ دنیا ایک گلو بل ویلج کی صورت اختیار کر گئی ہے،اقوام متحدہ اور عالمی لیبل کی حامل تمام اداروں ،تنظموں اوراتحادوں کافرض بنتاہے کہ کرّہ ٔارض کے امن وسلامتی اورتعمیر وترقی کیلئے انسانیت کے عنوان تلے ان زبانوں کی ترویج وتعلیم کے انتظامات کرے ،تاکہ بنی نوع بشری نظریات ،افکار اور عقائد کے ساتھ ساتھ علم وادب ،تہذیب وتمدن اور صحافت وثقافت کے میدانوں میں ایک دوسرے سے بھر پور استفادہ کر سکے اور ایٹمی ٹیکنالوجی سے مسلح آج کی دنیا جنگ وجدل ، اور تخریب وفسادسے دُور انسانیت کے ناطے محبت والفت، افہام وتفہیم ،دلیل ومنطق اور گفت و شنید سے اپنے معاملات حل کرکے اس چمنستان ِرنگ وبو کو أمن وآشتی کا گہوارہ بنا ئے ۔
عبرانی اور سریانی زبانوں کے انحطاط کے دور میں یہودیت اور عیسائیت کی بنیادی تعلیمات بطور خاص مشرقی کلیساؤں کے معتقدات عربی ہی میں رہیں ،المجلس الیھودی الامریکی (american jewish committee ) کی تمام تر دینی قوانین وعقائد حاخام موسی بن میمون القرطبی کی تحریر کردہ عربی ہی میں ہیں ،موجودہ انگریزی بائبل کے قدیم تر اور مارکیٹ میں متوافرنسخے بھی اصلاًعربی کے ہیں ۔

اسلام کی توبنیادہی عربی پرہے ،تمام تر اسلامی علوم وفنون ،عقائد وتاریخ کی امہات الکتب اور اصل مراجع کا تعلق عربی ہی سے ہے،عربی زبان وادب کی اہمیت وضرورت تو ظاہر ہی ہے ، قرآن حکیم عربی زبان میں ہے ، نماز کے تمام ارکان از اول تا آخر عربی میں ہیں ،عیدین و جمعہ کے خطبے عربی زبان میں ہیں ، احادیث کا عظیم الشان ذخیرہ عربی میں ہے ، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی نسبا ًولغۃً عربی ہے ،عام اسلامی دعائیں ،اذکاراور درود شریف سب عربی زبان میں ہیں ،اﷲ تعالی کے پیارے ننانوے مبارک نام عربی میں ہیں ، حجاز مقدس ،مکہ، مدینہ، لبنان ، شام ،مصر ،طرابلس ، الجزائر ، تیونس ، مراکش ، بحرین ، کویت ، وغیرہ چھوٹے بڑے کئی ممالک کی زبان عربی ہے، ان سے تعلقات قائم رکھنے کے لئے عربی زبان کی شدید ضرورت ہے ،ان ممالک میں جو عربی لٹریچر دینی ،تیکنیکی ، اقتصادی اور سیاسی حوالوں سے ہزاروں کتب، رسائل واخبارات سمعی بصری اور الیکٹرانک میڈیا میں شائع ہورہے ہیں ان کا تو ٹھکانہ ہی کیا۔

ان ممالک کو معلموں ،انجنیئروں،ڈاکٹروں اور زندگی کے دیگر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ضرورت وحاجت ہے ،ان ممالک میں تجارت کے ذرائع پیدا کرنے، کارخانے قائم کرنے ،اپنے ملکی اور ملی و سیاسی مقاصد ومفادات کی وہاں اشاعت کے لئے عربی زبان کی شناسائی نہایت ضروری ہے ،
امام شافعی کے مذہب میں تو کچھ نہ کچھ عربی سیکھنا فرض عین کا درجہ رکھتا ہے ، ا مام ابو حنیفہ ،امام مالک ،امام احمد بن حنبل ، علامہ ابن قیم اور حافظ ابن تیمیہ جیسے اساطین علم وفضل کے نزدیک بھی عربی سیکھنا فرض کفایہ ہے ۔

ادبی اعتبار سے بھی عربی زبان کی صفات و خصوصیات بے حد لطیف اور تفصیل طلب ہیں ،کاش روز اول ہی سے ہمارے ملک میں یونیورسٹیز ، کالجز ، سکولز اور بالخصوص دینی مدارس وجامعات کے ارباب انتظام واختیار اس کے مقام اور مرتبے کو محسوس کرتے ہوئے اس طرف توجہ دیتے ، توعالم اسلام اور عالم عرب کے اتحاداور قرآن و حدیث کی تعلیمات کو باحسن وجوہ سمجھنے کے لئے یہ زبان ایک موثر ذریعہ ثابت ہوسکتی تھی،اب بھی اگر ہمارے حکمراں دین کے لئے نہ سہی اپنے سیاسی اور دنیاوی مقاصد کے لئے اس زبان پر توجہ دیں تو عالم اسلام میں پاکستان کی حیثیت کچھ اور ہو۔

1973ء کے آئین کے مطابق حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عربی زبان کی ترویج واشاعت کی طرف توجہ دے ،آئین کے باب دوم کے آرٹیکل نمبر 31شق 2 میں مذکور ہے ـ:یعنی ملک میں ایسے اقدامات اٹھا ئے جائیں گے ، جن کی وجہ سے مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی عقائد کے مطابق گزار سکیں ،ملک میں قرآن کریم اور اسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دی جائے گی ، نیز عربی زبان کی تعلیم و ترویج کے لیے اقدامات کیے جائنگے مذکورہ اقتباس سے عربی زبان کے فروغ اور نشر اشاعت کے متعلق ہمارے ملک کے آیئنی ودستوری فریضے کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے ۔

zubair
About the Author: zubair Read More Articles by zubair: 40 Articles with 70479 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.