پچھلے دنوں جامعہ بنوری ٹاؤن کے
ناظم تعلیمات مولانا عطاء الرحمن صاحب طیارہ حادثے میں شہید ہوئے، تو ملک
بھر اور مختلف ممالک سے جامعہ میں تعزیت کرنے والوں کا تانتابندھ گیا ،ساؤتھ
افریقہ سے جامعہ کے فاضل وسابق استاذ مولانا اسماعیل مُلّا اور جناب فیصل
سالوجی صاحب بھی کراچی تشریف لائے، چونکہ ان دونو ں حضرات کی سماحۃالامام
الشیخ سلیم اﷲ خان صاحب سے سابقہ عقیدت و تعلق ہے،مجھے فون کرکے انہو ں نے
جامعہ فاروقیہ جانے کا کہا ، میں نے حضرت صدرِ وفاق کے ساتھ رابطہ کرکے
ملاقات کا وقت مانگا، حضرت نے اگلے دن صبح نوبجے آنے کا فرمایا، ہم وقت
مقررہ پر پہنچے، حضرۃالاستاذمولانا عبیداﷲ خالد صاحب کے ساتھ دفتر اھتمام
میں چائے نوش کی، اورپھر حضرتِ والا کی بیٹھک میں چلے گئے، باہمی خیریت
دریافت کرنے کے بعد حضرت نے جامعہ فاروقیہ کراچی فیزII ساتھ جانے کا اشارہ
فرمایا، فیصل سالوجی صاحب کے ساتھ ان کے گھر والے بھی تھے ، وہ زنان خانے
چلے گئے تھے، اور وہیں سے اپنے قیام گاہ شیرٹن ہوٹل واپس ہوئے۔
اِدہر راقم،حضرت شیخ صاحب ،حضرت مولانا اسماعیل ملاّ صاحب ،جناب فیصل
سالوجی صاحب، مولانا عبیداﷲ خالد صاحب، مولانا محمد صدیق حسن زئی ،مولانا
عبدالہادی اور مولوی حماد خالد ائرپورٹ،ملیر کینٹ اور بائی پاس سے ہوتے
ہوئے بلوچستان کے سرحدی شہر حب چوکی کے قریب جامعہ فاروقیہ فیزIIپہنچ گئے۔
مولانا عبیداﷲ خالد صاحب نے بہت تفصیل سے جامعہ کے نئے پلان ،رہائشی
وتعلیمی حصے کے معاینے کے بعد جامع مسجد محمد بن قاسم کے منصوبے پر روشنی
ڈالی، ’’بیس منٹ ‘‘میں داخل ہوئے تو خوشی اس بات کی ہوئی کہ وہ حصہ اس
توازن کے ساتھ بلند اور زیر زمین رکھا گیا ہے کہ اندر جانے والا یہ
قطعاًمحسوس نہیں کرتا کہ وہ کسی تہ خانے میں آگیا ہے، بلا تکلف دن کی روشنی
اور تازہ ہواء کی آمد ہے ،یہ مسجد چوڑائی میں جامعہ بنوری ٹاؤن کی عظیم
الشان مسجد سے 20 فٹ زیادہ ہے اور لمبائی میں شاید اس کے ڈبل نہیں ٹرپل ہے،
اس مسجد کا ابتدائی کام اس بیس منٹ اور چاروں طرف پکی بھرائی کی وجہ سے
مکمل ہے،اوپر کے بقیہ حصے کا آغاز ہواچاہتا ہے ،اس ضخیم مسجد سے پاکستان
میں جہاں بڑی اور تاریخی مساجد کی فہرست میں ایک حسین اور پر وقار اضافہ
ہوگا ،وہاں جامعہ کے طلبہ کیلئے نمازوں ،امتحانات اورحلقاتِ تحفیظ القرآن ِکے
علاوہ دیگر روح پرور تقاریب میں بے پناہ سہولت میسر آئیگی۔لیکن اسکے ساتھ
ساتھ اساتذہ ودیگر منتظمین کی رہائش گاہوں کی ضرورت یہاں شدت سے محسوس کی
جارہی ہے،اصحابِ خیر کی توجہ کی ضرورت ہے۔
جامعہ فاروقیہ کراچی فیز۲ کی تدریس کو عربی کے ساتھ مختص کیا گیا ہے، اولی
سے سابعہ تک ان وسیع وعریض درسگاہوں میں تعلیمی نظام مکمل طور پر عربی میں
ہے، تدریس، امتحانات، تعلیمی اعلانات، اساتذہ کی میٹنگیں اور بین الطلبہ
والأساتذہ باہمی گفتگوسب ہی کچھ عربی میں ہے،شیخ عبد اللطیف ایک قابل
استاذہے ، عربی تحریر و تقریر پر اچھی خاصی قدرت رکھتے ہیں یہاں مدیر
التعلیم وہی ہیں، دوسری طرف مدیر عام مولوی عمر فاروق ہیں،جو عربی زبان
وادب میں صرف ماہر ہی نہیں اس کے عاشق بھی ہیں، دیگر تمام اساتذہ کا انتخاب
بھی اسی فارمولے کے تحت عمل میں لایا گیا ہے ،جس سے اس میدان کے تازہ دم
شہسواروں کا ایک خوبصورت گلدستہ تیار ہوگیا ہے۔
کسی زمانے میں جامعہ فاروقیہ کراچی کی نادی عربی کا چرچا تھا، اس وقت شیخ
عبداللطیف طالب علم تھے اور ان نشاطات میں سرگرمی سے حصہ لینے والوں میں سے
تھے، چنانچہ وہی باغ وبہار انہوں نے یہاں بھی سجایا ہواہے۔
طلبہ اور اساتذہ میں تحریری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے مجلہ الفاروق
عربی اپنا کردار ادا کرتا تھا، وہ بھی یہاں منتقل ہوگیاہے، جس سے عربیت کو
اس ماحول میں مزید ترقی ملے گی، کیونکہ اس سے ’’الفاروق‘‘اوراس کے تبادلے
میں آنے والے عربی مجلات کی ان طلبہ واساتذہ کے ہاتھوں میں دستیابی ہوگی۔
علمائے دیوبند کا دارالعلوم دیوبند سمیت بر صغیر میں اس حجم کے ساتھ خالص
عربی ادارہ نہیں تھا، جسکی ضرورت عرصے سے محسوس کی جارہی تھی، ڈاکٹر امجد
صاحب کا جامعہ عائشہؓ و جامعہ ابن عباسؓ ، اس سلسلے کی شاید پہلی کڑی ہے،
مولانا طارق جمیل صاحب کا جامعۃ الحسنین ؓ اورمولانا عبدالستار کا جامعہ
بیت السلام بھی اس حوالے سے نمایاں ہیں، ملک بھر کے دیگر بڑے اداروں میں
معاہدیااٰقسام عربیہ کا وجود ایک شعبے کے مانند ہے، البتہ صدر وفاق اور
مولانا عبید اﷲ خالدصاحب کا کلی طور پر(۸۰)ایکڑکے قریب ایک بین الاقوامی
لیول کی جامعہ کو اس مقام پر لانایقیناًاہل دیوبنداور اسلامیان پاکستان کے
لئے نوید مسرت سے کم نہیں ہے۔
جامعہ فاروقیہ کراچی کا شاہ فیصل والا حصہ ایک تو تنگیٔ داماں کا شاکی ہے،
تو دوسری طر ف وہاں باطل فرقوں کی یلغار ہے ، اب سے چند ماہ قبل جامعہ کے
طالب علم مولانا قمر الدین صاحب ایم این اے کے جواں سال صاحبزادے کو جس بے
دردی کے ساتھ شھید کیا گیا تھا، اس کی ویڈیو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے
ہیں، جبکہ اس سے قبل جامعہ کے درجۂ علیا کے اساتذہ کو بھی شھید کردیا گیا
تھا، جن میں حضرت مولانا عنایت اﷲ خان،مولانا سید حمید الرحمن اور مفتی
محمد اقبال کراچوی سر فہرست تھے، اس کے مقابلے میں یہ جگہ نسبۃً پر سکون
اور اطمنان بخش ہونے کے علاوہ جامعہ میں داخلہ لینے کیلئے آنے والے طلبہ کی
کثیر تعداد اور صدر وفاق کے دنیا بھر سے آنے والے مہمانوں کیلئے نہایت
کشادہ اور تعلیمی ماحول سے کہیں زیادہ ہم آھنگ ہے۔
جامعہ فاروقیہ کراچی کی عربیت کے میدان میں ترقی اچانک نہیں ہوئی بلکہ حضرت
شیخ کے حکم پر شاہ فیصل میں آج سے ۲۵ سال پہلے مجلہ الفاروق عربی کا اجراء
ہوا، اٹھارہ بیس برس قبل معہداللغۃ العربیۃ والدراسات الاسلامیہ کی بنیاد
رکھی گئی، جس میں اولی تا سادسہ درس نظامی کے تمام اسباق عربی زبان میں
ہوتے تھے، بعد میں معہد کو تقویت دینے کیلئے حضرت مولانا شفیق احمد خان
بستوی کی خدمات حاصل کی گئیں، جنہوں نے جدید مدرسین ِجامعہ کو تخصص فی
الادب العربی کا باضابطہ تخصص کرایا ، آگے چل کر نادی عربی قائم کی گئی ،
مجلات جداریہ کا اہتمام کیا گیا ، تبلیغی جماعت کی تعلیم کا عربی شعبہ فعال
کیا گیا اور آخر میں دوسالہ تخصص فی الادب العربی کا انتظام کیا گیا، ان
تمام سرگرمیوں کی سرپرستی زیادہ تر حضرت مہتمم صاحب نے بنفس نفیس فرمائی
اور یوں جامعہ فاروقیہ کراچی میں عربیت کی وہ بنیادیں پڑگئیں جس کی مثال
ملنا مشکل ہے۔
ہمارے یہاں لوگ اکثر ندوۃ العلماء کی مثالیں دیتے ہیں، لیکن اسلاف ِ
دیوبندکے طور وطریق کو مکمل اپناکر اور درس نظامی ہی کو بنیاد بناکر جامعہ
فاروقیہ کراچی نے ایک مکمل عربک یونی ورسٹی میں ڈھل کرثابت کردیا کہ ہمارا
نصاب ونظام اور وضع قطع کسی کمال کے حصول میں رکاوٹ کے بجائے ممدمعاون ہے،
بشرطیکہ صحیح حکمت عملی،اخلاص وﷲیت اور جہد مسلسل ہو.
اے خدا ایں جامعہ قائم بدار فیض اوجاری بود لیل ونھار |