کون کرے گا مجھ سے شادی

پرندے کی چونچ میں ایک قطرہ پانی سے آتشِ نمرود تو نہیں بجھائی جاسکتی مگر کم از کم اپنا شمار آگ بجھانے والوں میں ضرور کیا جاسکتا ہے ۔عصرِ حاضر جہاں دیگر برائیاں جنم لے کر اپنے آپ کو مستقل مزاج کر چکی ہیں وہاں خواتین کو مارنا پیٹنا،زہریں دینا ،جلانا ، مختلف رسم و رواج کی بھینٹ چڑھانے کے ساتھ ساتھ حوس پرست مرد ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ظلم و ذیادتی کی داستانیں رقم کرنے میں مشغول ہیں ۔ہر طر ف حرس وحوس کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔محترم قارئین کرام ! کوئی بھی انسان فطرتی طور پر برا نہیں ہوتااُس کو بدکار اور برا بنانے میں ہمیشہ معاشرے کا عمل دخل ہوتا ہے ۔۔۔گو کہ اس معاشرے میں برے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے مگر یہ بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تھوڑے ہی سہی اچھے لوگ ضرور موجود ہیں جن کی مرہونِ منت نظامِ کائنات ابھی چل رہا ہے ۔۔۔ کاش کہ عورتوں کو قرآن وحدیث کے مطابق حقوق اور آزادی دی جاتی اور انھیں ماں ،بہن ، بیوی،بیٹی کے روپ میں دیکھا جاتا توکوئی عورت بنگلوں، کوٹھوں اور بازار حسن تک کا سفرہر گزنہ کرتی ۔ سرعام جسموں کی نیلامی ، عزت وعظمت کے سودے نہ ہوتے مگر۔۔۔شو مئی قسمت۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

لاہور کی ایک دکھی ، حوس، ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے والی بہن کی داستان بصورت نظم و کالم صفحہ قرطاس پر قارئین کے لئے لمحہ فکریہ۔۔۔۔۔
پیدا ہوئی جب آنکھیں کھولیں
گھر والو ں نے شمع کہہ کر
شمع نام کی مہرلگادی
باپ کی شفقت ،ماں کی ممتا
گھر والوں کی چاہت پائی
اٹھتے گرتے ،چلتے چلتے
ہوش سنبھالا،چلنا سیکھا
پڑھنے کا پھر شوق ہوا تو
تختی بستہ ہاتھ تھامے
آ پہنچی اسکول میں چل کر
سپنا ،خواب،تمنا،حسرت
دل میں میرے خواہش یہ تھی
محنت کر کے پڑھ لکھ کے میں
قوم وطن اور اس دھرتی کی
خدمت کایہ اہم فریضہ
دوں گی میں انجام ہمیشہ
پھر اک پیاروفا کا قائل
مخلص،چاہت،الفت والا
ہاتھ پکڑ کر چلنے والا
ساتھ رہے جو مرتے دم تک
ایسا اک ہمراز چنوں گی
اس ساجن کے گھر جاؤں گی
اپنا گھر اوراپنا آنگن
آنگن میں جب بچے ہوں گے
جنت جیسا موسم ہوگا
لیکن میں یہ بھول گئی تھی
عور ت ہوں میں مرد نہیں ہوں
جس کی ہر اک خواہش ناصر
سپنے سارے پورے ہوں گے
عورت آخر عورت ہی ہے
اس کی یاں اوقات ہی کیا ہے ؟
پیر کی جوتی سر کا لیکن
تاج نہیں ہوسکتی ہرگز
وقت کہاں یہ کب ہے ٹھہرا
رسمیں بدلی قسمیں ٹوٹی
اپنوں نے پھر نظریں پھیری
پہلی،دوجی،تیجی،چوتھی
آخر علم کا دامن چھوٹا
تختی،بستا اور کتابیں
سب سے میرا ناطہ ٹوٹا
ماں کا ہاتھ پکڑ کر ناصر
اک ا فسر کے بنگلے پر میں
آئی پھرمزدری کرنے
افسر،افسر ہی ہوتا ہے
جیسا چاہے کر سکتا ہے
اس نے مجھ کو جیسے دیکھا
اپنی نظربد سے دیکھا
خواہش ،اس کی ہر صورت میں
حوس کی بھنیٹ چڑھانا مجھ کو
اس نے میرے گھر والوں کو
اک دن آ خر یہ کہہ ڈالا
گھر کے اوّل بیٹے کو میں
مستقل،سرکاری، پکی
نوکری میں دلواؤں گا پر
اس کے بدلے شرط یہی ہے
اس نے واضح طور پہ ناصر
میری ہی قر بانی مانگی
نوکری دے کر عصمت لوٹی
لالچ دے کر عزت لوٹی
دھیرے دھیرے ،رفتہ رفتہ
سب کو اس کا علم ہوا جب
حرس حوس کے مارے سارے
بولی لگانے آئے میری
آئی پھر بازار میں بکنے
اپنوں نے جب بیچا مجھ کو
غیروں کی کیا بات کروں میں
اس بنگلے سے اُس بنگلے تک
اس کوٹھے سے اُس کوٹھے تک
جس نے چاہا اُس لوٹا
بن گئی میں اک دھندے والی
سب کہتے ہیں دھندے والی
دھن دولت سے یا پھر زر سے
جسم خریدے جا سکتے ہیں
دل کا سودا نا ممکن ہے
ہر لمحہ یہ سوچتی ہوں میں
کن راہوں پہ چل نکلی ہوں
کیوں ہوں دھندے والی عورت
کیسی ہوں میں ناصر عورت
لیکن،لیکن،لیکن،لیکن،
لیکن،رب رحمان گواہ ہے
میں یہ سب سوچا نہ تھا
مجھ سے یہ کروایا سب نے
دل، ضمیر نہیں ہے مردہ
کون ہے قاضی کون ہے منصف
آئے اب انصاف کرے وہ
اے اسلامی دیس کے باسی
اے اسلام کے شیدا سارے
سب کچھ چھوڑنا چاہتی ہوں میں
اب بھی جینا چاہتی ہوں میں
شادی کر نا چاہتی ہو ں میں
کون سہارا ، عزت دے گا
کون کرے گا مجھ سے شادی
ناصر عباس ناصر
About the Author: ناصر عباس ناصر Read More Articles by ناصر عباس ناصر: 18 Articles with 20937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.