دہشت گردوں نے پہلےسردار بہادر
خان ویمن یونیورسٹی کی بس کو دھماکے سے تباہ کیا جس کے نتیجے میں 14 طالبات
جاں بحق جبکہ 20 سے زائد زخمی ہوگئیں جبکہ دوسرا بم دھماکا بولان میڈیکل
کمپلیکس کی ایمرجنسی میں اس وقت ہوا جب طبی عملہ ویمن یونیورسٹی کی زخمی
طالبات کو طبی امداد فراہم کررہا تھا، دھماکے سے کچھ ہی دیر قبل چیف
سیکریٹری بلوچستان اور آئی جی سمیت کئی اعلیٰ سرکاری حکام زخمیوں کی عیادت
کے لئے اسپتال پہنچے تھے تاہم دہشتگردوں کی فائرنگ، دستی بم حملوں میں ڈپٹی
کمشنر کوئٹہ عبدالمنصور خان کاکڑ اور 4 ایف سی اہلکار جاں بحق جبکہ 9 ایف
سی اور 3 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔ ایک نیوز رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں
ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد ۳۷ کے قریب ہے۔
کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعات کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان پر صوبائی
حکومت کی جانب سے سرکاری سطح پر سوگ منایا گیا، صوبے بھر کی اہم سرکاری ،
نیم سرکاری اور نجی عمارتوں نے قومی پرچم سرنگوں رہے۔ جبکہ کوئٹہ سمیت کئی
علاقوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی اپیل پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔
صوبائی دارالحکومت پورے دن گزشتہ روز ہونے والے واقعات پر غم کی تصویر
بنارہا اور لوگ اپنے گھروں میں محصور رہے۔ کاروباری مراکز، دکانیں اور
مارکیٹیں مکمل طور پر بند رہیں جبکہ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ بھی نہ ہونے کے
برابر رہا۔
یونیورسٹی طالبا ت اور ہسپتال پر حملوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نےقبول کی
ہے اور انٹیلیجنس ذرائع کے مطابق خودکش بمبار جس نے بس میں دھماکہ کیا ایک
عورت تھی۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نہتے عوام پر اِس
طرح کے سنگدلانہ حملے ناقابل برداشت ہیں، ملک کو ایسی دہشت گرد ی کی
کارروائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر ممکن اقداما ت کئے جائیں گے ۔ مسلم
لیگ(ن) بلوچستان کے صدر ثناءاللہ زہری نے اِن واقعات کو صوبائی اور وفاقی
حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش قرار دیا اور کہا ہے کہ صوبے میں غیر ملکی
ہاتھ سرگرم ہے،جب تک صوبے میں سرگرم غیر ملکی قوتوں سے آہنی ہاتھ سے نہیں
نمٹا جاتادہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔
دہشت گردی مسلمہ طور پر ایک لعنت و ناسور ہے نیز دہشت گرد نہ تو مسلمان ہیں
اور نہ ہی انسان۔ گذشتہ دس سالوں سے پاکستان دہشت گردی کے ایک گرداب میں
بری طرح پھنس کر رہ گیا ہے اور قتل و غارت گری روزانہ کا معمول بن کر رہ
گئی ہےاور ہر طرف خوف و ہراس کے گہرے سائے ہیں۔ کاروبار بند ہو چکے ہیں اور
ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے۔
دہشتگرد ملک کو اقتصادی اور دفاعی طور پر غیر مستحکم اور تباہ کرنے پر تلے
ہوئے ہیں اور ملک اور قوم کی دشمنی میں اندہے ہو گئے ہیں اور غیروں کے
اشاروں پر چل رہے ہیں۔ انتہا پسند داخلی اور خارجی قوتیں پاکستان میں سیاسی
اور جمہوری عمل کو ڈی ریل کرنے کی کو ششیں کر رہی ہیں .خودکش حملے اور بم
دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے. اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل
کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور سینکڑوں ہزاروں بار پوری انسانیت
کاقتل کرنے والے اسلام کو ماننے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟ خودکش حملوں کے
تناظر میں تمام مکاتب فکر بشمول بریلوی، دیو بندی ، شیعہ ، اہل حدیث سے
تعلق رکھنے والے جید علماء پاکستان میں خود کش حملوں کو حرام قرار دے چکے
ہیں ۔ دہشت گرد خود ساختہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستانی عوام پر
اپنا سیاسی ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کی دہشت گردوں کو اجازت نہ دی جا
سکتی ہے۔درندہ صفت دہشتگرد جو نہتی معصوم طالبات کو بھی اپنی دہشتگردی کا
نشانہ بنانے سے باز نہ آتے ہیں۔
معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت
کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اورپرائیوٹ، ملکی و قومی املاک کو نقصان
پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں
کو شہید کرناخلاف شریعہ ہے اور جہاد نہ ہے۔ کسی بھی مسلم حکومت کے خلاف علم
جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی
ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی
ہے،اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی
الارض قرار دیا گیا ہے۔ دہشت گرد ،اسلام کے نام پر غیر اسلامی و خلاف شریعہ
حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں اور اس طرح اسلام کو بدنام کر رہے ہیں اور
اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں۔
شریعت کے نام پر محدود فکر مسلط کرنے والوں نے وطن عزیز کو بدامنی کی طرف
دھکیل دیا ہے۔مٹھی بھر شر پسند عناصر کی وجہ سے پر امن پاکستان کا امیج
دنیا کے سامنے دھندلا گیا.بدقسمتی سے ایک اقلیتی گروہ اسلام کی خودساختہ
اور من پسند تشریح کے ذریعے اسلام کو پوری دنیا میں بدنام کر رہا ہے .
انتہا پسند پاکستان کا امن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عورتوں اور بچوں کا
قتل اسلامی تعلیمات کے مطابق حالت جنگ میں بھی جائز نہ ہے۔ اور نہ ہی
عرورتوں اور بچوں کو جنگ کا ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔شدت پسندوں کا یہ غلط
واہمہ ہے کہ وہ قتل و غارت گری اور افراتفری کے ذریعے اپنے سیاسی ایجنڈے کو
پاکستانی عوام پر مسلط کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
طالبان ،لشکر جھنگوی، جندوللہ اور القائدہ ملکر پاکستان بھر میں دہشت گردی
کی کاروائیاں کر رہے ہیں ۔ ایک دہشت گرد گروپ کےطاقت کے بل بوتے پر من مانی
کرنے کے بڑے دورس نتائج نکل سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پوری قوم کی
جنگ ہے اور ہر شخص کو دہشت گردی کے خلاف بھرپور کردار ادا کرنا چاہئیے۔
دہشت گرد لشکرِجھنگوی کا وجود پاکستان اور اس کے مستقبل کے لیےایک سنگین
خطرہ ہے.
دہشت گردی کا تسلسل پاکستان کی سالمیت، قومی یکجہتی اورمعیشت کے لیے بڑا
خطرہ ہے۔ دہشت گردی کی یہ کارروائی انتہائی افسوسناک اور ایک بہت بڑا قومی
المیہ ہے ۔ معصوم جانوں سے کھیلنے والے انسانوں کے روپ میں درندے ہیں جن کا
وجود پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے .ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے
کیلئےہمیں سخت ترین اقدامات کر نا ہونگے۔ دہشت گردوں کی کمین گاہوں اور
بلوں کا کھوج لگا کر انہیں باہر نکالنا ہوگا اور انہیں عبرتناک سزائیں دینا
ہوگی اور دہشت گردوں کی آمدنی اور اسلحہ کے حصول کے ذرائع بند کرنا ہونگے۔ |