نکاح میں عورت کے حقوق

آج کل ہمارے مشرقی معاشرے میں اس بات کو ٹھیک نہیں سمجھا جاتا کہ کوئی لڑکا اپنی شادی کیلیے اپنی پسند کا اظہار کرے،اس طرح کا معا ملہ لڑکیوں کے ساتھ بھی ہے،بلکہ لڑکیوں پر تو زیادہ پابندیاں عائد ہیں،حالانکہ یہ سرا سر غلط ہے،اگر لڑکا لڑکی دونوں بالغ ہوں تو اسلام نے اس بات کا اختیار دے رکھا ہے کہ اس معاملے میں دونوں اپنی پسند کا اظہار کریں،نکاح کے معاملے میں نہ تو لڑکے کو مجبور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی لڑکی کو۔

ہاں!!مگر یہ بات لڑکی کیلیے ضروری ہے کہ اگر وہ اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے تو اپنے والدین یا اپنے سر پرست کو بتائے۔اپنی پسند کا ڈائریکٹ لڑکے سے اظہار کرنا یا اس کے ساتھ تعلقات رکھنا غلظ اور غیر شرعی ہے،اگر لڑکی کسی غیرمزہب لڑکے سے محض اپنی مرضی سے شادی کرنا تو اس کے ولی کو اس پر اعتراض اور روکنے کا پوراپورا حق ہے۔

بخاری شریف میں درج نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قول کا مفہوم ہے کہ،،شوہر دیدہ عورت کی شادی اس کے صریح حکم اور واضع رضامنی کے بغیر نہ کیجائے اور نہ ہی کنواری لڑکی کا نکاح اس کی رضامندی اور اجازت کے بغیر کیا جائے،، صحیح مسلم میں بھی اس طرح کی روایت موجود ہے یہاں کنواری لڑکی کے خاموش رہنے کو ادنٰی درجہ قرار دیا گیا ہے۔ .

ازدواجی زندگی میں میں ایک عورت،مرد کی ساتھی ہے جو شوہر کی زندگی اور فیصلہ سازی میں حصہ لیتی ہے،اس کا اور خاوند کا دکھ درد سانجھا ہوتا ہے،. خوشی اور غمی کے برابر کے شریک ہیں۔

جس کا شوہر نہیں وہ عورت مسکین ہے:
ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا کہ وہ شخص مسکین ہے جس کی بیوی نہیں، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا اگر بہت مالدار ہو؟ آپؐ نے فرمایا وہ عورت مسکین ہے جس کا شوہر نہیں، صحابہ نے عرض کیا یا رسولؐ وہ بہت مالدار ہو تب بھی؟ آپؐ نے فرمایا تب بھی وہ مسکین ہے (کتاب النکاح)

اس حدیث میں مرد اور عورت دونوں کو نکاح کی ترغیب دی گئی ہے اور نکاح کے بغیر رہنے کی مذمت کی گئی ہے۔

تین چیزوں کے کرنے میں جلدی کرنیکا حکم:
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین کام کرنے میں ہمیشہ جلدی کرو
(1)۔نماز جب اس کا وقت ہو جائے۔(2)۔ جنازہ جب حاضر ہو۔(3)۔ اور عورت بے شوہر جب اس کیلئے کفوپائے۔ (ترمذی شریف)

بے نکاح لڑکی کے گناہ والد کے سر:
رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اﷲ عزوجل تورات شریف میں فرماتے ہیں جس کی بیٹی 12برس کی عمر کو پہنچے ا ور وہ اس کا نکاح نہ کردے اور یہ دختر گناہ میں مبتلا ہو تو اس کا سارا گناہ اس شخص پر ہے (بہیقی فتاوی، رضویہ،387/5)

اس سے لڑکیوں کی شادی میں جلدی کرنے کاحکم معلوم ہوتا ہے کہ مبادا لڑکی کوئی گناہ کر بیٹھے تو اس کا سبب نکاح میں تاخیر ہوگا۔ 12 برس کی قید تعجیل کے لئے ہے۔ یعنی جب لڑکی بالغ ہو جائے چاہے 12برس سے کم ہی ہو یا اس سے زیادہ اور کفو (برابر کا شوہر) مل جائے تو جلد نکاح کردیا جائے۔

شوہر کے حقوق سن کر نکاح سے انکار:
حدیث ایک صاحب اپنی صاحبزادی کو لے کر درگاہ عالم پناہ حضور سید العٰلمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کی میری یہ بیٹی نکاح کرنے سے انکار رکھتی ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اطیعی اباک اپنے باپ کا حکم مان، اس لڑکی نے عرض کی قسم اس کی جس نے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا میں نکاح نہ کروں گی جب تک حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یہ نہ بتائیں کہ خاوند کا حق عورت پر کیا ہے۔

فرمایا: شوہر کا حق عورت پر یہ ہے کہ اگر اس کے کوئی پھوڑا ہو، عورت اسے چاٹ کر صاف کرے یا اس کے نتھنوں سے پیٹ یا خون نکلے عورت اسے نگل لے تو مرد کے حق سے ادا نہ ہوئی۔ اس لڑکی نے عرض کی قسم اس کی جس نے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا میں کبھی شادی نہ کروں گی۔ حضور پرنور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، عورتوں کا نکاح نہ کرو جب تک ان کی مرضی نہ ہو۔ (فتاوی رضویہ جلد 5 صفحہ 391)

خواتین املاک اور اپنے شوہر، باپ یا خاندان کے اندر اندر یا باہر دوسرے مردوں لوک برا سلوک کے خلاف نہیں کی حفاظت کا کوئی حق نہیں تھا.

اگر یہ وضاحت بھی آج کچھ مردوں اور ہمارے سماجی mores کی طرف سے قیادت میں زندگی سے ملتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کا ایک حصہ تاریکی کی عمر میں رہنے کے لئے. اسلام نے ان کی زندگی کو چھو نہیں ہے. قرآن مجید میں بہت سی ایات کے طور پر کے طور پر حضور نبی (ص) اور ان کی ذاتی زندگی اور طرز عمل ہے جو عورتوں کی حیثیت اٹھایا اور ان سے بہت سے اب تک کی تردید کی حقوق دیئے میں واقعات کی باتیں ہیں.

سب سے پہلے جس چیز سے اسلام نے جنسوں کے درمیان ایک حقیقی مساوات کا اعلان تھا، اور کوئی قوم یا برادری کو اﷲ تعالی کے حکم کے باہمی تعلقات میں تبدیلی کا حق ہے. اصل میں، یہ صرف حق کی بات بلکہ مہذب رویے کی نہیں ہے. مرد احترام اور غور کے ساتھ کے ساتھ ساتھ خواتین کو انصاف دونوں اقتصادی اور سماجی تعلقات میں ایک احساس کے ساتھ علاج سیکھنا چاہئے.

کیونکہ خواتین کی پوری تاریخ میں 'کمزور' جنسی تعلقات رہے ہیں، مردوں کی گئی ہے خاص طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ ان کی وجہ سے حقوق دیئے ہیں اور کافی علاج کیا حکم ہے. اپنے آخری خطبہ میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہا، "مردوں کے [خدا کے سامنے سب سے بہترین ان کے خاندان کے ساتھ جو gentlest ممکن طریقے میں نمٹتا ہے،" اور کہ "وہ مومن جو شائستہ ہے سب سے بہتر ہے اور ان کے آشرتوں آہستہ سے علاج کرتا ہے"۔

قرآن خود کو محدود نہیں کیا خواتین کے ساتھ نرم رویے کی سفارش بھی لیکن وراثت میں عورتوں کا حصہ بچھانے کے علاوہ وراثت، شادی، طلاق، وغیرہ کے معاملات میں مخصوص ہدایات دی قرآن کا کہنا ہے کہ، "مرد جو وہ ان کا حصہ ہے حاصل کی اور عورتوں میں سے جو انہوں نے کمایا ہے ان کا حصہ "(4:82). اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں میں سے جو انہوں نے کمایا ہے زائد کا حق بلکہ صرف اسے خرچ کرنے کی آزادی نہیں ہے.

مزید حکم واضح ہے کہ خواتین کو ان کی اپنی کوششوں ہے، جو جاگیردارانہ اور قدامت پسند ذہنیت ہے جو بعد میں ترقی کی تردید ہے کی طرف سے ان کی زندگی حاصل کرنے کا حق ہے. کئی قرآنی آیات جس میں خاص طور پر تمام لوگوں، مردوں، اور عورتوں حکم، کام اور ان کی brow کے پسینے کی طرف سے ان کے کمانے ہیں. اس طرح کے کام کے لئے لفظ 'فضل'، جس میں 'بھگوان کی کرپا' کا مطلب ہے کہ ہے.
اسلامی قانون کے تحت شادی نہیں ہے کہ مردوں اور عورتوں irrevocably تمام حالات کے تحت ضروری ہے مل کر yoked یا کہ خواتین کو انسان کے لئے صرف منظوری کے کسی چیز کو بنایا جانا چاہیے. اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ دو افراد کو ایک اچھی اور مہذب تعلقات کے لئے ایک ساتھ لانے کے ہے. محبت، ہم آہنگی کے جذبے کو اور دونوں کی طرف سے ذمہ داریوں کے مناسب مادہ کے لئے یہ کالز. جب اس اعلی مقصد کھو دیا ہے، تو علیحدگی کے لئے دروازہ کھول سکتے ہیں.

جب طلاق ناگزیر ہے قرآن صرف عورت جو طلاق کی جا رہی ہے انسان پر بہت زور دیتا ہے. ان کی مانگ غصے یا باوجود میں نہیں ہونا چاہئے. یہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں کو ان کی شادی کے کو کامیاب بنانے میں ناکام رہے ہیں کی ایک سے گریزاں تسلیم ہونا چاہئے. قرآن کہتا ہے: "مطلقہ عورتوں کی بحالی کی ایک معقول بنیاد پر فراہم کی جانی چاہئے. یہ نیک مرد "(2:241) کی ذمہ داری ہے. اگر اسلامی قانون پر عمل ہے مکمل طور پر بیوی کو برقرار رکھنے کے لئے اس کے مالی فوائد طلاق نکاح میں کرنے پر اتفاق کا حق ہونا چاہئے.

عقد نکاح کے سب سے زیادہ اہم معاہدوں ہے کہ ایک دلہن اور دولہا پر اس بات پر راضی ہیں شریعت کے مطابق میں ان کے یونین solemnise میں سے ایک ہے. لیکن ہم احترام کا وہ حقدار کے ساتھ اس معاہدے کا علاج؟ پاکستان میں nikahnama بعض اوقات شادی جوڑے کے علم کے بغیر مولوی اور رجسٹرار کی طرف سے نظر ثانی شدہ، اور اکثر دولہے کے خاندان کی ملی بھگت کے ساتھ. دلہن کے والدین کو جھوٹے وعدوں دیئے ہیں اور کبھی کبھی جذباتی بلیکمیل بھی نشانہ بنایا.

اس بڑے پیمانے پر کہ nikahnamas پر نظر ثانی کر رہے ہیں اور جان بوجھ کر متنازعہ حصے کو لڑکے کے خاندان کو مطمئن کرنے کے ہٹا دیا ہے. اکثر حصے جو لڑکی کے حقوق اور مراعات کی حفاظت ترسکار کے ساتھ باہر سے تجاوز کر رہے ہیں. یہاں تک کہ ایک اعلی تعلیم یافتہ دلہن اندھیرے میں رکھا ہے اور الدین کے درمیان اور الجھن میں دستاویز پر دستخط ہے جبکہ وہ ghungat میں شامل ہے اور بمشکل ہی اس کے ہاتھ میں اس اہم دستاویز پر دستخط کرنے ننگا کرنے کے قابل مجبور ہے. سے پہلے یا اس کے بعد پر دستخط پڑھنے سے شاذ و نادر ہی سوال اٹھتا ہے.

nikahnama کے اس طرح کے استعمال کی اطلاع پاکستان میں بہت سے جوڑوں کا سامنا ہے کے بعد وہ شادی میں درج کیا ہے. اکثر انسان سے عورت کے لئے زیادہ سے زیادہ نتائج ہیں. یہ ایک سنگین مذہبی اور قانونی دستاویز ہے جو کہ متعلقہ خاندان کی طرف سے کم سے کم اہمیت دی جاتی ہے. مسئلہ فوری طور پر شریعت کے حکم کو پورا کرنے کے لئے توجہ کا مستحق ہے.

سنبھالنے کہ nikahnama کے غلط استعمال کو جان بوجھ کر کیا جاتا ہے، اسے ایک مجرمانہ کرتی ہے جس کے لئے دونوں اطراف اور نکاح solemnising ایک سرپرستوں کو جوابدہ متعلقہ قوانین کے تحت منعقد کیا جانا چاہئے. ایک سنگین نکاح کے معنی میں، حقوق اور مراعات جو اس کے ساتھ کے بارے میں معاشرے کو تعلیم کرنے کے لئے، اور قانونی میکانزم ہے کہ شادی کی قانون کی خلاف ورزیوں کی سزا کی ضرورت ہے۔
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68423 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.