حضرت مولانا کاندھلوی ؒ اپنی
تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں حضرت ابو ذر ؓ فرماتے ہیں میں نے
عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ حضرت ابراہیم ؑ کے صحیفے کیا تھے؟ آپ نے فرمایا ان
صحیفوں میں صرف مثالیں اور نصیحتیں تھیں (مثلاً ان میں یہ مضمون بھی تھا )اے
مسلط ہونے والے بادشاہ ! جسے آزمائش میں ڈالا جاچکا ہے اور جو دھوکہ میں
پڑا ہوا ہے میں نے تجھے اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ تو جمع کر کے دنیا کے
ڈھیر لگالے میں نے تو تجھے اس لیے بھیجا تھا کہ کسی مظلوم کی بددعا کو میرے
پاس آنے نہ دے کیونکہ جب کسی مظلوم کی بددعا میرے پاس پہنچ جاتی ہے تو
پھرمیں اسے رد نہیں کرتا چاہے وہ مظلوم کا فرہی کیوں نہ ہو اور جب تک عقل
مند آدمی کی عقل مغلوب نہ ہو جائے اس وقت تک اسے چاہیے کہ وہ اپنے اوقات کی
تقسیم کرے۔ کچھ وقت اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرنے کے لیے ہونا چاہیے،
کچھ وقت اپنے نفس کے محاسبے کے لیے ہونا چاہیے، کچھ وقت اللہ تعالیٰ کی
کاریگری اور اس کی مخلوقات میں غور و فکر کرنے کے لیے ہونا چاہیے اور کچھ
وقت کھانے پینے کی ضروریات کے لیے فارغ ہونا چاہیے اور عقل مند کو چاہیے کہ
صرف تین کاموں کے لیے سفر کرے یا تو آخرت کا تو شہ بنانے کےلئے یا اپنی
معاش ٹھیک کرنے کے لیے یا کسی حلال لذت اور راحت کو حاصل کرنے کے لیے اور
عقلمندکو چاہیے کہ وہ اپنے زمانہ(کے حالات) پر نگاہ رکھے اور اپنی حالت کی
طرف متوجہ رہے اور اپنی زبان کی حفاظت کرے اور جو بھی اپنی گفتگو کا اپنے
عمل سے محاسبہ کرے گا وہ کوئی بیکار بات نہیں کرے گا بلکہ صرف مقصد کی بات
کرے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! حضرت موسیٰ ؑ کے صحیفے کیا تھے؟
آپ نے فرمایا ان میں سب عبرت کی باتیں تھیں (مثلاً ان میں یہ مضمون بھی تھا
کہ ) مجھے اس آدمی پر تعجب ہے جسے موت کا یقین ہے اور وہ پھر خوش ہوتا ہے۔
مجھے اس آدمی پر تعجب ہے جسے جہنم کا یقین ہے اور وہ پھر ہنستا ہے، مجھے اس
آدمی پر تعجب ہے جسے تقدیر کا یقین ہے اور وہ پھر اپنے آپ کو بلا ضرورت
تھکاتا ہے۔ مجھے اس آدمی پر تعجب ہے جس نے دنیا کو دیکھا اور یہ بھی دیکھا
کہ دنیا آنی جانی چیز ہے ایک جگہ رہتی نہیں اور پھر مطمئن ہو کر اس سے دل
لگاتا ہے۔ مجھے اس آدمی پر تعجب ہے جسے کل قیامت کے حساب کتاب کا یقین ہے
اور پھر عمل نہیں کرتا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ مجھے کچھ وصیت
فرمادیں۔ آپ نے فرمایا میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ
تمام کاموں کی جڑ ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! کچھ اور فرما دیں۔ آپ
نے فرمایا تلاوت قرآن اور اللہ کے ذکر کی پابندی کرو کیونکہ یہ زمین پر
تمہارے لیے نور ہے اور آسمان میں تمہارے لیے ذخیرہ ہے۔ میں نے عرض کیا
یارسول اللہ ﷺ! کچھ اور فرما دیں۔ آپ نے فرمایا زیادہ ہنسنے سے بچو کیونکہ
اس سے دل مردہ ہو جاتا ہے اور چہرے کا نور جاتا رہتا ہے۔ میں نے عرض کیا یا
رسول اللہ ﷺ! کچھ اور فرما دیں۔ آپ نے فرمایا جہاد کو لازم پکڑ لو کیونکہ
یہی میری امت کی رہبانیت ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کچھ اور
فرمادیں۔ آپ نے فرمایا زیادہ دیر خاموش رہا کرو کیونکہ اس سے شیطان دفع ہو
جاتا ہے اور اس سے تمہیں دین کے کاموں میں مدد ملے گی۔ میں نے عرض کیا یا
رسول اللہ ﷺ ! مجھے کچھ اور فرما دیں۔ آپ نے فرمایا مسکینوں سے محبت رکھو
اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رکھو ۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! کچھ اور
فرمادیں۔ آپ نے فرمایا (دنیاوی مال و دولت اور ساز و سامان میں )ہمیشہ اپنے
سے نیچے والے کو دیکھا کر و اوپر والے کو مت دیکھا کر و کیونکہ اس طرح کرنے
سے تم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھو گے میں نے عرض کیا یا
رسول اللہ ﷺ ! کچھ اور فرما دیں۔ آپ نے فرمایا حق بات کہو چاہے وہ کڑوی
کیوں نہ ہو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کچھ اور فرمائیں۔ آپ نے فرمایا
جب تمہیں اپنے عیب معلوم ہیں تو دوسروں (کے عیب دیکھنے ) سے رک جاﺅ اور جو
برے کام تم خود کرتے ہو ان کی وجہ سے دوسروں پر ناراض مت ہو۔ تمہیں عیب
لگانے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ تم اپنے عیبوں کو تو جانتے نہیں اور دوسروں
میں عیب تلاش کر رہے ہو اور جن حرکتوں کو خود کرتے ہو ان کی وجہ سے دوسرے
پرناراض ہوتے ہو۔ پھر حضور ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا اے ابو ذرؓ!
حسن تدبیر کے برابر کوئی عقلمندی نہیں اور ناجائز مشتبہ اور نامناسب کاموں
سے رکنے کے برابر کوئی تقویٰ نہیں اور حسن اخلاق جیسی کوئی خاندانی شرافت
نہیں ۔
قارئین ہم جتنا قلم سے دور رہنے کی شعوری کوشش کر رہے ہیں ایسے واقعات پیش
آ رہے ہیں کہ ہمیں اتنا ہی قلم اٹھانے کی مجبوری پیش آ رہی ہے ایک تعطل کے
بعد تیسرا کالم آپ کی خدمت میں پیش ہے جو کالم کم اور ”نوحہ“ زیادہ ہے۔ یہ
بات طے ہے کہ ہر آنے والے کو رخصت ہونا ہے دارا سے لے کر سکندر تک ہر کوئی
بڑی بڑی طاقتوں کے ساتھ دنیا کے اس تختے پر براجمان رہا اور آخر کار خالی
ہاتھ رخصت ہو گیا۔ ساتھ اگر کچھ گیا تو صرف اور صرف اعمال تھے ۔ عبدالخالق
انصاری ایڈووکیٹ کو مرحوم لکھتے ہوئے دل بھی کانپتا ہے اور قلم بھی لرزتا
ہے لیکن ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا مضبوط عقیدہ ہے کہ نبی آخر
الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ، انبیاءکرام ؑ، صحابہ کرامؓ اور اولیاءکرام ؒ
جیسی متبرک و مقدس ہستیاں بھی اس دنیا سے پردہ فرماگئیں اور ہم سب نے بھی
اس دار فانی سے دار بقاءکی طرف سفر کرنا ہے اور کامیابی انہی طریقوں میں ہے
جو اللہ اور اس کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے بتائے۔
قارئین عبدالخالق انصاری مرحوم ایک نظریے ، ایک عقیدے اور ایک ایسے راستے
کے مسافر تھے جسے دیانت داری ، سچائی، ایمانداری سے لے کر درجنوں نہیں بلکہ
سینکڑوں عنوانات سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ میرپور اور ڈڈیال میں ابتدائی
تعلیم حاصل کرنے کے بعد جموں کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد
پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنے والے عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ پریکٹس
کی غرض سے کچھ ماہ سرگودھا میں مقیم رہے اور 1950کے عشرے میں میرپور واپس آ
گئے یہاں پر وکالت کا آغاز کیا ایک ایسے سیاسی طرز فکر کو اختیار کیا جسے
بعض دوستوں نے لادینیت سے تعبیر کیا اور بعض عزیزوں نے پاکستان کی مخالفت
قرار دیا۔ دوستوں اور خیر خواہوں کی طعن زنی اور سنگ باری اپنی جگہ جاری
رہی لیکن مسکراتے اور چمکتے چہرے کے ساتھ عبدالخالق انصاری نے اپنے نظریے
کا سفر جاری رکھا ۔ عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ یہ یقین رکھتے تھے کہ جموں و
کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ کے قریب انسانوں کا مستقبل خاک و خون سے ابھر کر تبھی
روشن ہو سکتا ہے کہ جب کشمیریوں کو پوری دنیا کے سامنے ایک قوم کی حیثیت سے
پیش کیا جائے اور ان کی آزادی کی جدوجہد کو پاکستان اور بھارت کے سرحدی
تنازعے اور الحاق یا اٹوٹ انگ کی لڑائی کی بجائے ایک قوم کی آزادی کے مسئلے
کے طور پر تسلیم کرواتے ہوئے دنیا سے اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی جائے۔
صوفی زمان مرحوم ، ماسٹر عبدالرحمن مرحوم اور دیگر بزرگوں ، دوستوں اور
ساتھیوں کے ہمراہ عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ نے جموں و کشمیر محاز رائے
شماری کی بنیاد رکھی اور پوری دنیا کے سامنے ”نظریہ ءخود مختار کشمیر“پیش
کر دیا انہیں بابائے خود مختار کشمیر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ جن دنوں
گنگا طیارہ ہائی جیکنگ کا معاملہ سامنے آیا تو ایک عجیب و غریب صورت حال
دیکھنے میں آئی کہ مقبوضہ کشمیر میں عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ ، مقبول بٹ
شہید، اشرف قریشی،ہاشم قریشی اور خود مختار کشمیر کے حامیوں کو بھارت کی
طرف سے ”پاکستانی ایجنٹ “قرار دیا جاتا تھا اور پاکستان میں ان تمام لوگوں
کو ”بھارتی ایجنٹ“ قرار دے کر پابند سلاسل کر دیا گیا۔ عبدالخالق انصاری
ایڈووکیٹ اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں کو بد نام زمانہ ٹارچر سیل دلائی کیمپ،
چونا منڈی اور شاہی قلعہ لاہور سمیت دیگر قید خانوں میں بدترین تشدد کا
نشانہ بنا یا گیا اور بعدازاں پاکستانی عدالتوں نے ان تمام لوگوں کو محب
وطن اور تحریک آزادی کا ہیرو قرار دیا۔ اگر حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ
کے الفاظ میں عبدالخالق انصاری اور ان کے دیگر انقلابی ساتھیوں کی شخصیت کو
بیان کیا جائے تو شاید کچھ یوں ہو گا کہ
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازہءصحرا!
خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا!
نہ کر تقلید اے جبریل ؑ میرے جذب و مستی کی
تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ!
قارئین عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم سے راقم استاد محترم راجہ حبیب
اللہ خان کے ہمراہ آج سے کچھ عرصہ قبل ایک خصوصی ملاقات کرنے ”آزادی ہاﺅس “
پہنچا۔ راجہ حبیب اللہ خان کا یہ خیال تھا کہ ایسی تاریخی شخصیت اور عظیم
ہستی سے کچھ یاداشتیں اکٹھی کر کے تحریری شکل میں انہیں تاریخ کا حصہ بنا
دیا جائے جو آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی فراہم کرے باوجود شدید علالت کے
عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ نے شفقت فرماتے ہوئے ہمارے ساتھ ایک طویل نشست
کی اور ماضی کے جھروکوں سے ہمیں وہ تصویریں دکھائیں جو تحریرکردہ اور بیان
کردہ تاریخ سے بہت مختلف ہیں سانحہ جموں کی وجوہات کیا تھیں، کشمیریوں کی
مہاراجہ کے دور میں کیا حالت تھی، کشمیری مسلمان اور کشمیری ہندو پنڈت کیا
خیالات رکھتے تھے، مسئلہ کشمیر کو گنجلک اور الجھی ہوئی شکل بنانے کی ذمہ
داری کس کے سر رہی اور کشمیر کا مستقبل کیا ہے اس حوالے سے ان کی یہ گفتگو
سونے کے الفاظ سے لکھنے کے لائق تھی ۔ راقم اور راجہ حبیب اللہ خان نے
عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ سے مشترکہ طور پر ایک سوال پوچھا کہ آپ ماضی کی
تمام جدوجہد کو دیکھتے ہوئے کیا سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے اس
پر 87سال سے زائد عمر رکھنے والے بزرگ رہنما کی آنکھوں میں ایک چمک آئی اور
وہ کہنے لگے کہ ماضی میں 1947سے قبل ریاست جموں کشمیر میں رہنے والے
اکثریتی طبقے یعنی مسلمانوں کے صائب الرائے رہنماﺅں کا یہ خیال تھا کہ اگر
کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کر لیتے ہیں تو ہندو
پنڈتوں اور دیگر کشمیری اقلیتوں کے ذہن میں لامحالہ عدم تحفظ جاگ اٹھتا ہے
اور اگر مہاراجہ طاقت کے زور پر بھارت سے الحاق کر لیتا ہے تو اس سے 90%سے
زائد کشمیری مسلمان زیادتی کا نشانہ بن سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ صائب الرائے
کشمیری مسلمان رہنماﺅں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتوں کے رہنما بھی یہ متفقہ
رائے رکھتے تھے کہ متحدہ جموں و کشمیر کو ایک آزاد ریاست اور ملک بنا کر نہ
صرف یہاں کے کروڑوں انسانوں کے جان و مال محفوظ بنائے جا سکتے ہیں بلکہ
برصغیر کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے بد قسمتی سے کشمیر کو دو ممالک کے درمیان
ایک ایسی جنگ میں وجہ بنایا گیا جس کی کوئی ضرورت نہ تھی اور جس کی وجہ سے
آج اس خطے کے دو ارب کے قریب انسان غربت ، بدحالی اور تباہی کی تصویر بنے
ہوئے ہیں۔عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ سے ہم نے پوچھا کہ کیا ان کے خیال میں
کشمیر آزاد ہو گا اس پر انہوں نے مضبوط اور ٹھوس آواز میں جواب دیا کہ میں
پر یقین ہوں کہ جو مشن میں ادھورا چھوڑ کر جا رہا ہوں میری نسل وہ مشن پورا
کرے گی۔ کشمیری قوم کو آزادی کا جو سبق مقبول بٹ شہید، ڈاکٹر افضل گورو
شہید اور دیگر شہیدوں نے پڑھایا ہے آنے والی کشمیری نسلیں ان تمام اسباق کو
پڑھتے ہوئے اپنی منزل ضرور حاصل کریں گی۔ استاد محترم راجہ حبیب اللہ خان
اور راقم نے عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ سے پوچھا کہ خود مختار کشمیر کیا
پاکستان کے لیے نقصان دہ نہ ہو گا اس پر عظیم رہنما نے مسکراتے ہوئے کہا کہ
اگر پاکستان اپنے تمام وسائل فوجی معاملات میں جھونکنے کی بجائے غریب عوام
پر خرچ کرے تو کیا پاکستان کے لیے یہ بہتر نہیں ہے اور دوسری بات کہ اگر
کشمیر پر بھارت یا دیگر ممالک فوج کشی کرنے کی کوشش کرتے تو لا محالہ خود
مختار کشمیر اپنی برادر ریاست پاکستان ہی سے الحاق کرتا کاش میری قوم یہ
بات سمجھ جائے کہ پاکستان سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے اور ہماری خود
مختاری کی جدوجہد دراصل پاکستان کے فائدے کی بات ہے اے کاش میری قوم یہ بات
سمجھ جائے۔ عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم اکثر یہ بات کہا کرتے تھے کہ
جو بھی قوم شہداءکے ذریعے قبرستان آباد کرتی ہے وہ اپنی آزادی کی منزل سے
قریب تر ہوتی جاتی ہے آج مقبول بٹ شہید اور دیگر ایک لاکھ سے زائد کشمیری
شہداءکا خون خطہ کشمیر کو رنگین کرنے کے ساتھ ساتھ قبرستانوں کو آباد کر
چکا ہے اور بانی نظریہ خود مختار کشمیر عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ بھی خالق
حقیقی سے جا ملے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کا نظریہ ، ان کی سوچ اور سچائی
ایک دن ضرور فتح یاب ہوں گے ۔ پوری قوم آپ کو سلام پیش کرتی ہے ۔۔۔۔رہے نام
اللہ کا۔ |