مردان میں نماز جنازہ پرخودکش حملہ

شیر گڑھ میں نمازہ جنازہ کے دوران خودکش حملے میں تحریک انصاف کے رکن خیبرپختونخواہ اسمبلی عمران مہمند سمیت 34افراد جاں بحق اور58کے قریب زخمی ہو گئے جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیاجارہاہے۔ ڈی آئی جی جعفر خان کے مطابق گزشتہ روز فائرنگ سے قتل ہونے والے پٹرول پمپ کے مالک حاجی عبداللہ کی نماز جنازہ کے دوران خود کش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں پی کے 27سے آزادحیثیت میں منتخب ہوکر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنیوالے رکن خیبرپختونخواہ اسمبلی عمران مہمند اپنے بھائی ملک امان اور درجنوں دیگر شرکاءسمیت شدید زخمی ہوگئے جنہیں ہسپتال منتقل کیاجارہاتھاکہ راستے میں عمران مہمند زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ ایس پی انوسٹی گیشن نے بتایاکہ خود کش حملہ آور کے اعضاءمل گئے ہیں اور ابتدائی طور پر حملہ آور، ازبک لگتاہے ،بارودی مواد میں بال بیرنگ اور چھرے استعمال کیے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ عمران مہمند کو شدت پسندوں کی جانب سے شدید خطرات لاحق تھے، انتخابات کے موقع پر ان کے الیکشن آفس پر بھی دہشتگردی ہوئی تھی، رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد ان کی سیکیورٹی کے لئے سرکاری طور پر دو پولیس اہلکار فراہم کئے تھے اس کے علاوہ انہوں نے نجی گارڈز کی خدمات بھی حاصل کی تھیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے جنازے میں دھماکے کو بہت بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں عمران خان نے کہا تھا کہ “میں مردان میں نماز جنازہ کے دوران دھماکے اور اس میں تحریک انصاف کے ایم پی اے سمیت متعدد قیمتی جانوں کے زیاں کی شدید مذمت کرتا ہوں، ہماری دعائیں شہدا کے اہلخانہ کے ساتھ ہیں۔”انہوں نے کہا کہ نماز جنازہ کو نشانہ بنانا بہت بڑا المیہ ہے۔

آج انسانیت کو دہشت گردی کے ہاتھوں شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ دہشت گردی مسلمہ طور پر ایک لعنت و ناسور ہے نیز دہشت گرد نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان۔ گذشتہ دس سالوں سے پاکستان دہشت گردی کے ایک گرداب میں بری طرح پھنس کر رہ گیا ہے اور قتل و غارت گری روزانہ کا معمول بن کر رہ گئی ہےاور ہر طرف خوف و ہراس کے گہرے سائے ہیں۔ کاروبار بند ہو چکے ہیں اور ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے۔

دہشتگرد ملک کو اقتصادی اور دفاعی طور پر غیر مستحکم اور تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ملک اور قوم کی دشمنی میں اندہے ہو گئے ہیں اور غیروں کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔ انتہا پسند داخلی اور خارجی قوتیں پاکستان میں سیاسی اور جمہوری عمل کو ڈی ریل کرنے کی کو ششیں کر رہی ہیں .خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے. خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے.

’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبان احسان بنو، بے شک اﷲ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے. ۔ البقرة، 2 : 195

اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور سینکڑوں ہزاروں بار پوری انسانیت کاقتل کرنے والے اسلام کو ماننے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟ خودکش حملوں کے تناظر میں تمام مکاتب فکر بشمول بریلوی، دیو بندی ، شیعہ ، اہل حدیث سے تعلق رکھنے والے جید علماء پاکستان میں خود کش حملوں کو حرام قرار دے چکے ہیں ۔

دہشت گرد خود ساختہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستانی عوام پر اپنا سیاسی ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کی دہشت گردوں کو اجازت نہ دی جا سکتی ہے۔معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اورپرائیوٹ، ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرناخلاف شریعہ ہے اور جہاد نہ ہے۔ کسی بھی مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے،اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔ دہشت گرد ،اسلام کے نام پر غیر اسلامی و خلاف شریعہ حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں اور اس طرح اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔

طالبان محسن کش ہیں اور سانپ اور بچھو کی مانند ہیں اور ان کی سرشت میں ڈنک مارنا لکھا ہے۔تحریک انصاف کے احسانات کا طالبان اس طرح سے بدلہ چکا رہے ہیں۔

پشتون قبائلی روایات کے مطابق دشمنی بھی اصولوں کی محتاج ہوتی ہے۔ مساجد و عبادت گاہوں میں دشمنی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتااور نہ ہی مقامی باشندے ،خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی اور مکتبہ فکر سے ہو، وہ کبھی غیر انسانی و گھناﺅنی حرکت کا تصور کر سکتے ہیں۔ مگر طالبان ملک دشمنی میں اندھے ہوکر قبائلی کلچر کی روح کو بھی تباہ کررہے ہیں اور نتائج سے بے خبر ہیں۔

پاکستانیوں کا عبادت کے لئے مساجد میں جانا ،طالبان کے حملوں کے خوف کی وجہ سے پہلے ہی بندہوچکا ،اب لوگ جنازوں میں شرکت کرنےسے بھی کتارنے لگیں گے۔ جنازوں میں شرکت کرنے کا مقصد ، مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کرنا اور موت کو یاد رکنا ہوتا ہے۔ مرحوم کے لواحقین و اعزا و اقارب سے تؑعزیت کر نا ہوتا ہے اور ہمدردی کا اظہار کر نا ہوتا ہے۔یہ فرض کفایہ اور سنت رسول ہے۔

آنحضرت صلعم خود بھی لوگوں کے ہاں جا کر تؑعزیت فرمایا کرتے تھےاور ان کو صبر کی تلقین کرتے تھے۔ فقہاء کے نزدیک فرض نماز جنازہ ، جماعت سے ادا کر نا سنت موکدہ ہے تاہم متعداد احادیث میں نماز با جماعت کی تاکید اور فضیلت کے بیان اندازہ ہو تا ہے کہ یہ ایسی سنت ہے جسے بلاعذر ترک کر نا بد نصیبی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حق المسلم علی المسلم خمس:رد السلام،وعیادۃ المریض،واتباع الجنائز، وإجابۃ الدعوۃ، وتشمیت العاطس (صحیح بخاری:۱۲۴۰ )

’’مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازہ کے لئے جانا، دعوت قبول کرنا، چھینک کا جواب دینا۔‘‘ طالبان جنازوں پر حملے کر کے لوگوں کو اسلامی شعائر کی ادائیگی سے روک رہے ہیں۔

طالبان ،لشکر جھنگوی، جندوللہ اور القائدہ ملکر پاکستان بھر میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہے ہیں ۔ ایک دہشت گرد گروپ کےطاقت کے بل بوتے پر من مانی کرنے کے بڑے دورس نتائج نکل سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پوری قوم کی جنگ ہے اور ہر شخص کو دہشت گردی کے خلاف بھرپور کردار ادا کرنا چاہئیے۔

وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء93)
Amir Nawaz Khan
About the Author: Amir Nawaz Khan Read More Articles by Amir Nawaz Khan: 32 Articles with 29791 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.