سوال یہ کیا گیا کہ ذات کے
Survival کےلئے ، حیات کی بقا ءکےلئے جہاں ہوا ، پانی اور خوارک ، وٹامنز
اور منرلز اوتر دیگر ضروری اشیاءکا عمل دخل ہے ، وہاں حیات یا زندگی کےلئے
کس اہم بات کا احساس ضروری ہے ؟۔ جواب دیا گیا کہ" احساس تحفظ"سب سے پہلے
دیکھنا یہ ہے کہ احساس کیا ہے ؟۔ احسا س، انسان کی ایک ایسی سوچ ہے کہ وہ
کوئی بھی بات سوچے ، وہ اس میں ان ہی نتائج پر پہنچے گا جو اس کے حق میں
مفید ہوں یا اس کی ثقافت کے حق یں وارثتی طور پر لے ہوں یا اس کے حیاتیاتی
میلانات کی تائید کرتے ہوں ۔ عقل اپنے فیصلے آزادنہ نہیں کرسکتی اس کا کام
جذبات و احساسات کےلئے سامان و ذرائع فراہم کرنا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ہی
جبلی جذبات تمام انسانی اعمال کے محرک ہوتے ہیں ، نفس انسان کی تمام پیچیدہ
تیرہ افعال ان ہی جبلی جذبات کی تسکین کے لئے اسباب بہم پہنچانے کے ذرائع
ہیں ۔ اگر ان جبلی جذبات کو الگ کردیا جائے تو انسانی جسم یکسر معطل ہوکر
رہ جائے گا ۔ اسی طرح سو سائٹی یا مملکت کا قیام عقل پر نہیں ہوتا ۔ اس لئے
کہ انسانی اعمال کی محرک عقل نہیں بلکہ جذبات و احساس ہوتے ہیں اور ان ہی
جبلی جذبات (INSTINCTS)میں سب سے بنیادی جذبہ تحفظ ذات Proservation of
self کا ہوتا ہے ۔ جیسے چیونٹی کا راستہ روک کر تجربہ کریں تو اپنی چھوٹی
سی جان بچانے کےلئے کس مضطرب و بے قرار دیکھائی دیتی ہے ۔ بلا شبہ ہر
جاندار اپنی جان بچانے کےلئے آخری حربہ استعمال کرتا ہے جیسے آپ حکمت عملی
یا طاقتور کے سامنے کمزور کی خاموشی بھی کہ سکتے ہیں۔جیسے یوں سمجھا جائے
کہ صحن میں بلی کو " چھی"کیجئے تو وہ بھاگ جاتی ہے ، لیکن اسی بلی کو کمرے
میں بند کیجئے ، جیہاں اسے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہو ، پھر دیکھئے کہ وہی
بلی کس طرح شیر بن کر چھپٹتی ہے ۔ یہی جبلت ہے جو ہر حیوان سے انسان میں
آتی ہے یعنی "تحفظ خویش"کا جذبہ ۔ عقل یہی ہے کہ تحفظ خویش کےلئے ہر ممکن
ذریعہ اور فراہم کا احساس پیدا کرے چونکہ عقل افرادی ہوتی ہے اس لئے عقل کا
فریضہ صرف اُس شخص کی جان کی حفاظت ہوتا ہے جس کی وہ عقل ہوتی ہے ، حیوان
اور انسان میں یہی فرق ہے کہ وہ ایک گائے ، جب اپنا پیٹ بھر کر آرام سے
جگالی کرنے بیٹھ جاتی ہے تو اسے اس کی قطعی پرواہ نہیں ہوتی کہ باقی ماندہ
چارہ کون لے جائے گا جس کا جی چاہیے لے جائے ۔ اُیسے اس بات کی فکر نہیں
ہوتی کہ شام کو کیا ہوگا اور کل کا کیا ہوگا ۔ جبکہ انسان کے ساتھ ایسا
نہیں ہے ۔ اس کی سوچ حیوان سے بڑھ کر ہے اپنے مستقبل پر ہوتی ہے اس کا پیٹ
بھر جانے کے باوجود ،ا ُیسے شام کی فکر ہوتی ، دن سے رات ، اور رات سے پھر
صبح کی فکر لاحق ہوتی ہے۔اب اگر اس تصور کو بہت سے انسانوں پر محیط کریں تو
سامان معیشت اکھٹا کریں ، ایسے عقل کی عقل سے لڑائی کہا جائے ، یعنی Battle
of wits۔ جس کی عقل زیادہ کام کرے گی وہ سب کچھ سمیٹ لے گا ، جب یہ عقل کا
تقاضا ہو تو اخلاقیات کا معیار کیا ہوگا ، ایسے سمجھنا مشکل نہی ہے ، یہیں
اخلاقیات کا معیار تقاحا سب و نہب ، اخلاقیات ایثار و قربانی چاہتے ہیں۔اور
عقل تحفظ خویش۔اخلاقیات ہمدردی کی جانب راغب کرتے ہیں تو عقل ، خود غرضی ،
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عقل کوئی قابل مذمت اور باعث نفرت شے ہے ۔ رب
ذی کائنات ، عقل استعمال نہ کرنے والوں کو تمام ذی حیات سے بدتر قرار دیتا
ہے تو دوسری جانب مومنین کی شان بھی یہی قرار دیتا ہے کہ آیات قرآنی پر بھی
اندھے بن کر نہیں گرتے۔بلکہ غور و فکر کرتے ہیں۔کائنات میں ہر شے اپنے ایک
فریضے کے تحت ہے ، جیسے آگ کا کام حرات بہم پہنچانا ، اگر ہم پانی کے اوپر
دیگچی رکھ دیں تو وہ کبھی بھی آگ کاکام سرانجام نہیں دے سکتی ۔ تحفظ احساس
میں اگر ہم دیکھیں تو اسے اس طرح سمجھنا ہوگا کہ اگر ڈاکو آئے اور چھاتی پر
پستول رکھ دے کر تجوری کی چابی مانگے تو اُیسے جھٹ سے چابیاں دے دےگا، لیکن
جب بات آبرو پر آئے تو عزت بچانے کےلئے جان دینے کو فوقیت دی جاتی ہے جبکہ
اکثر ہم نے دیکھا ہوگا کہ کسی نے غیرت کے نام پر کسی کو قتل کردیا اور پھر
تھانے جاکر اقبال جرم بھی کرلیا اور خوشی خوشی پھانسی کے تختے پر بھی چڑھ
گیا، اسی طرح اپنے خلاف ظلم پر چاہے سامنے والا کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو
۔ ایک چھوٹی چیونٹی بھی اپنی جان بچانے کےلئے ہزار ہاتھ پاﺅں مارنے کی کوشش
کی جاتی ہے۔یہی مثال پاکستان میں آباد مختلف قومیتوں اور مذاہب کی ہے جو
اپنی بقا کےلئے اب اسلام کے نام کے بجائے ، فرقہ ، فقہ ، مسلک ، قومیت اور
لسانیت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنے سے بڑے دشمن کے مقابلے کےلئے
ان کی کوششیں اسی ہی ہیں جیسے کسی ہاتھی کے سامنے ایک چیونٹی رکھ دی جائے
کہ وہ اُس کے کان میں جا کر اُسے ہلاک کردے گی۔ پاکستان میں پاکستانیت کا
تصور ختم ہوچکا ہے ۔اسی طرح مختلف شہروں میں رہنے والی مختلف قومیتں اپنی
زباں و اقدار کو بچانے کےلئے اپنے تئیں ہاتھ پاﺅں مار رہی ہیں۔ لیکن ان سب
کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ان کا احساس تحفظ اس نظریہ کے تحت ہے کہ
لسانیت یا وطنیت کے نام پر اپنی قوم کو تو بچا لیا جائے اور فسطائیت کے
نظرئےے کے تحت دوسری قوم کو فنا کے درجے پر پہنچا دیا جائے توپھر اسی سوچ
کا کوئی تصور کامیابی حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ کسی مرغی نے کسی دوسرے
پرندے کو بچانے کے لئے کبھی اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈالا ، کبھی شیر نے
بکری کی حفاظت نہیں کی ، کبھی کسی جانور نے دوسرے جانور کی طاقت کی وجہ سے
خوفزدہ ہوکر اس کا ساتھ نہیں دیا ۔ یہ شرف صرف انسان کو حاصل ہے کہ وہ طاقت
ور ہو کر کمزوروں کا ساتھ دیتا ہے۔کمزورں کو ساتھ ملا کر خود اسی ایک طاقت
بن جاتا ہے اور فرعونوں اور شداد کی قوتوں کو قوم ثمود و قوم عاد کی طرح
مسمار کردےتا ہے۔ اگر مظلوم ہیں اور مظلوم بن کر طاقت ور کے خلاف صف آرا
ہونا ہے تو پھر نظریہ انسانیت اخوت بھائی چارے ، اور ایثار کو اپنانا ہوگا
۔ لسانیت ، وطنیت ، قومیت کا صرف ایک تشخص سامنے رکھنا ہوگا ۔ صوبائیت اور
فرقہ وارےت کی نفی کرنا ہوگی ، مسالک اور لسانیت کے بجائے ملی اخوت کا
مقابلہ کرنا ہوگا ۔ یہ احساس اگر کمزور میں پیدا ہوگا تو طاقت کے محوروں کو
فرعون بننے سے روکا جا سکتا ہے ۔ ورنہ لسانیت ، صوبائیت یا فروعی مفادات کے
ہاتھوں وقتی کامیابی تو ممکن ہے لیکن ملی اتحاد اور ایک قوم کے تصور کے
بغیر عالمی فرعونوں کا مقابلہ کرنا ناممکن ہوگا ۔ عالمی فرعونوں کے ملکی
غلاموں سے تحفظ احساس کے لئے ایک ملک ، ایک قوم ایک ملت کا تصور دینا
ہوگا۔اگر ہم سب اپنے اپنے گرد اپنا ئیں خود حفاظتی کا حصار بنا کر سمجھیں
گے کہ ہم کسی بیرونی خطرے سے محفوظ ہوگئے ہیں تو یہ عقل خرد کہلائی گی ۔
احساس تحفظ کے لئے تمام قومیتوں کو انسانیت کے نام پر اکھٹا ہونے کی خروت
ہے۔ مظلوموں کی ترجمانی کے لئے صرف اپنی قوم کو دوسری قوموں کے مظلوموں پر
فوقےت دے کر کامیابی نہیں بلکہ دائمی نا کامی مقدر بنے کی ۔ اس عقل سے عقل
کی لڑائی میں ہمیں صرف یہی دیکھنا ہے کہ عقل ہمیں انسانیت کے نزدیک لے جاتی
ہے یا گروہ در گروہ میںتقسیم کرکے طاقت ور کے سامنے مزید کمزور بنا رہی ہے
۔ جب اس بات کا فیصلہ یقین بن جائے تو تحفظ کا احساس کامیاب ہوجائے گا- |