عام رواج ہے کہ کسی کی موت پر
سہارہ دینے والے جاکر حاضرین سے ہاتھ ملاتے ہیں اور پھر کچھ دیر خاموشی کے
بعد ہاتھ اٹھا کر کہتے ہیں کہ دعا مانگیں۔اکثر یہ دعا بھی خاموش ہی ہوتی ہے
اور حاضرین ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھتے رہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی
جلدی سے منہ پر ہاتھ پھیر کر اس رسم کو اختتام پذیر کرے۔منہ پر ہاتھ پھیر
نے کے بعد اکثر کہا جاتا کہ جی بندے کا کیا ہے بس سب نے ٹر جانا ہے کوئی
آگے اور کوئی پیچھے۔پھر مرحوم کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں ،چائے پانی کا
دور چلتا ہے اور محفل برخاست ہوتی ہے۔بزرگوں سے پتہ چلا ہے کہ تقسیم سے
پہلے ہندو اور سکھ بھی مسلمانوں سے باقائدہ تعزیت کرتے تھے ۔جنازے کے ساتھ
بھی چلتے تھے اور نماز جنازہ کے وقت الگ ہو کر کھڑے رہتے تھے۔بعض ہندو
گھرانے خشک راشن اور زندہ بکرے بھی ماتم والوں کے گھر پہنچاتے تھے تاکہ
تعزیت کے لئے آنے والوں کی روٹی کا مرحومین کے لواحقین پر بوجھ نہ پڑے۔ایسا
ہی برتاﺅ مسلمانوں کا بھی تھا۔مرنے والے کا کریا کرم کرنے کیلئے مسلمان خشک
لکڑی،گھی،تیل اور دوسری اشیاءشمشان گھاٹ چھوڑ آتے اور رسومات کے وقت وہاں
سے ہٹ جاتے۔یہ رواداری اور بھائی چارہ 1947ءسے پہلے تھا جسکا علم ہمارے
نوجوان اینکروں،جذباتی صحافیوں اور کرائے پر دستیاب دانشوروں کو نہیں۔
ٍراجیش کھنہ مشہور بھارتی اداکار اور مسلمان دشمن ہندو تھا۔راجیش کھنہ اور
منوج کمار اسقدر متعصب اور کٹر ہندو تھے کہ انھوں نے فلمی دنیا میں ایک
تنظیم بنائی جو مسلمان اداکاروں،گلوکاروں اور فنکاروں کی حوصلہ شکنی کرتی
اور ان کی تذلیل کے لئے نت نئے حربے استعمال کرتی۔راجیش کھنہ اور منوج کمار
نے محمد رفیع کے گانوں کا بائیکاٹ کیا اور وہ کسی ایسی فلم میں کام نہ کرتے
تھے جس میں محمد رفیع کا کوئی گیت شامل ہو۔راجیش کھنہ مرا تو پتہ چلا کہ
کھنہ کے رشتہ داروں سے پاکستان بھرا پڑا ہے۔ایک مشہور ٹیلیویژن چینل کی
نیوز کاسٹر پر کھنہ کی موت کا ایسا بھوت سوار ہوا کہ وہ خود بھوتنی بن گئی
اور ہواس کھو بیٹھی۔کھنے کی موت پر وہ اسقدر ہواس باختہ ہوئی کہ جذبات میں
الفاظ کا خیال بھی بھول گئی۔موصوفہ بار بار بھارت میں مقیم اپنے نمائندے کو
لائن پر لیکر پوچھتی کہ راجیش کھنہ کا جنازہ کب ہوگا اور اسے کہاں دفنایا
جائے گا۔ خاتون نیوز کاسٹر کے اس بہودہ اور جاہلانہ سوال پر بھارتی نمائندہ
جواب دیتا کہ کھنہ کے داماد کی آمد پر فیصلہ ہوگا کہ مرنے والے کا کریا کرم
کہاں اور کتنے بجے ہوگا۔ہندو نمائندے نے جان بوجھ کر بات کو کلیئر نہ کی
تاکہ پاکستانی اور مسلمان نام کی حامل اینکرکا دنیا بھر میں مذاق اڑے اور
لوگ پاکستانی صحافیوں پر تھو تھو کریں۔ہر منٹ بعد محترمہ یہی سوال کرتی کہ
ان کا جنازہ کتنے بجے ہوگا اور کہاں دفنایا جائے گا۔ہندو نمائندہ پھر کہتا
کہ اکشے کمار کی آمد پر فیصلہ ہوگا کہ کتنے بجے انھیں شمشان گھاٹ لیجایا
جائے اور وہیں پر ان کا کریا کرم ہوگا۔حیرت کی بات کہ اس مشہور چینل کے کسی
سینئر نمائندے ،کارندے،اینکر یا صحافی نے اپنی جیالی کو نہ روکا کہ بی بی
ہندو کو جلاتے ہیں دفناتے نہیں اور نہ ہی جنازہ ہوتا ہے۔
پاکستان کا مائیہ ناز سپوت اور ہیرو جسکی بہادری،جرات دلیری،وطن سے محبت
اور دین اسلام سے عشق کی حد تک لگاﺅ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور جس کی جرات
اور دلیری کی دشمن بھی تعریف کرتے ہیں جب اس دنیا سے رخصت ہوا تو کسی چینل
کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ غازی ایم ایم عالم پر کوئی خصوصی پروگرام کرتا اور
اسے خراج تحسین پیش کرنے کی جرات کرتا۔ظاہر ہے کہ امن کی آشا کے شیدائیوں
اور مجیب الرحمٰن کی بیٹی سے تمغہ غدارت وصولنے والوں میں ایسی جرات نہیں
ہوسکتی کہ وہ ایک ایسے غازی مرد پر کوئی پروگرام نشر کریں جس سے بھارت اور
اسرائیل ناراض ہوجائیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جب پاکستانی شاہین ایم ایم عالم
اردن اور شام کی فضاﺅں میں اڑان لیتا تو جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس
اسرائیلی ہوا باز خوف سے اپنے جہازوں کا رخ موڑ لیتے اور پرواز کا لیول
نیچے کر لیتے۔
جس غازی مرد کی موجودگی ہی دشمن کیلئے خوف کا باعث ہو اسکا نام لینے کیلئے
بھی زبان پاک ہونا شرط ہے۔وہ لوگ جو راجیش کھنے کا چالیس روزہ سوگ مناتے
رہے ہوں ان کی ناپاک زبان پر اسلام کے مجاہد اور مبلغ محمد محمود عالم کا
نام کیسے آسکتا ہے۔ایم ایم عالم نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ اس روز
اگر سو بھارتی جہاز بھی میرے سامنے آتے تو سب کے پرخچے اڑا دیتا۔ایم ایم
عالم نے بھارتی طیاروں کو مار کر اپنا ریکارڈ بنایا تھا جو بھارت نوازوں
کیلئے بھی اتنا ہی پریشان کن ہے جتنا بھارتیوں کیلئے ہے۔اب اگر یہ لوگ ایم
ایم عالم کا ذکر کرینگے تو نہ صرف بھارت بلکہ بنگلہ دیش بھی ناراض ہوجائے
گا۔اور آئیندہ ڈھاکا اور دہلی کے دعوت نامے،ٹرافیاں،تمغے اور لفافے نہیں
ملینگے۔بہرحال بندہ بندہ ہے۔بندے کا کیا آج ہے اور کل نہیں ہوگا۔بندہ بندگی
پر آئے تو خدا کا بندہ بن جاتا ہے اور بندگی سے ہٹ جائے تو بھارت سمیت کسی
بھی شیطانی طاقت کا نمائندہ اور کارندہ بنکر بھی شرمندہ نہیں
ہوتا۔شرمندگی،درندگی اور نمائندگی ہم آواز ہیں درندہ کبھی شرمندہ نہیں ہوتا
اور نمائندہ کبھی بندہ نہیں بنتا۔وہ اس کی بندگی کرتا ہے جسکا وہ نمائندہ
ہوتا ہے۔پاکستان میں بیٹھے بھارتی میڈیا کے نمائندے بھارت ہی کے بندے ہیں
اور بھارت میں بیٹھے پاکستانی میڈیا کے نمائندے بھارتی ایجنسیوں کے کارندے
زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔
ہمارے کچھ چینلوں،اینکروں،اینکرنیوں،صحافیوں،صحافنیوں،دانشوروں اور
دانشورنیوں کو راجیش کھنہ کی موت کا غم نہیں بھولا تھا سربجیت سنگھ بھی
مرگیا۔درندہ صفت بھارتیوں کے ایک نمائندے نے شیخ رشید سے سوال کیا کہ
سربجیت سنگھ پر ہونے والے ظلم کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں۔جناب شیخ رشید نے
تو اس صحافی کو اچھا جواب دیا مگر وہ شرمندہ نہ ہوا چونکہ وہ جسکا نمائندہ
ہے اسکی نمائندگی اسکا دھندہ ہے۔ ایسے صحافیوں کو شائد علم نہیں یا پھر عقل
ہی نہیں یا پھر دونوں ہی نہیں۔اگر علم اور عقل ان کے قریب سے گزرتی تو
انھیں پتہ ہوتا کہ بھارتی پاکستانیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں بھارتی
ایجنسیوں کے کارندے پاکستانیوں کی زبانیں کاٹتے ہیں اعضاءکچل کر مفلوج
بناتے ہیں،جسم کی ہڈیاں توڑتے ہیں اور کبھی کبھی ان نیم مردہ اور مفلوج
جسموں کو پاکستان کے حوالے کرکے پیغام دیتے ہیں کہ ہم انسان نہیں درندے
ہیں۔یہ ہمارے سیکو لزم کی مثال ہے اور اگر موقع ملا تو تمہاری ساری قوم کے
ساتھ یہی سلوک کرینگے ۔آزاد کشمیر رجمنٹ کے سپائی کی کٹی زبان اور ذہنی
معذوری ایسی صحافت اور دانشوری کے منہ پر طمانچہ ہے جو بھارتیوں کے گیت
گاتے اور امن کی آشا کے راگ الاپتے ہیں۔ایسے دانشوروں کو شرم سے ڈوب مرنا
چاہیئے جو بھارتی پیسے،شراب اور دیگر عیاشیوں کے عوض قومی غیرت کا سودا
کرتے ہیں کیا بھارتی درندوں کے ان نمائندوںکو کلر سیداں کے شہید سپائی
اخلاق احمد کے شہادت بھول گئی ہے کہ انھیں سولہ معصوم اور غریب پاکستانیوں
کے قاتل اور دہشت گرد سربجیت سنگھ پر ہونے والا ظلم رات کو سونے نہیں
دیتا۔انسانی ہمدری کا ڈھونگ رچانے والوں کو سمجھوتہ ایکسپریس میں زندہ جلنے
والے پاکستانیوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔کیا ان صحافیوں،اینکروں اور چند ٹکوں
کے عوض بکنے والے دانشوروں اور انسانی حقوق کے علمبردار کو مقبول بٹ
اورافضل گرو یاد نہیں رہے۔کیا کشمیر کو شہ رگ کہنے والے نام نہاد دانشوروں
کو کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کا علم نہیں۔مگر کیا کریں بندہ پھر بندہ
ہے بندے کا کیا کبھی درندہ بن جاتا ہے مگر شرمندہ نہیں ہوتا اور کبھی زندہ
نظر آتا ہے مگر اندر سے مردہ ہوتا ہے۔میرے خیال میں زرد صحافت کے بعد اب
مردہ اور درندہ صحافت کا بھی رواج چل نکلا ہے۔مردہ ضمیر صحافی ہی درندہ صفت
اقوام اور ایجنسیوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور شرمندہ نہیں ہوتے۔زندہ
پاکستانی قوم کو چاہیے کہان مردوں کو شمشان گھاٹ تک چھوڑ آئیں تاکہ قوم ان
کی درندگی سے بچ جائے۔مشہور چینل کی مشہور نیوز کاسٹر کیلئے اطلاع ہے کہ
ہندوﺅں،سکھوں اور بدھ مت والوں سمیت کچھ یہودیوں کوبھی جلایا جاتا ہے۔جبکہ
پارسیوں کو ٹاور آف سائلنس پر رکھا جاتا ہے۔ویسے ایک مسلمان،پاکستانی
دانشور،سفارتکار اور شاعر کو بھی ایران میں جلایا گیا تھا۔وجہ کیا تھی
معلوم نہیں،شائد موصوف آتش پرست ہوگئے ہوں یا پھر مرنے کے بعد مشہوری کیلئے
وصیعت کر دی ہو۔مشہور بھارتی صحافی،دانشو ر اور مصنف خشونت سنگھ نے بھی
وصیعت کر چھوڑی ہے کہ مرنے کے بعد اسے جلایا نہ جائے بلکہ دفنایا
جائے۔خشونت سنگھ نے اپنی قبر کی جگہ بھی خرید رکھی ہے اسلیے اگر موصوفہ کی
زندگی میں کبھی خشونت سنگھ مرگیا تو وہ اپنے دہلی والے نمائندے سے خشونت کی
تدفین کا وقت پوچھ سکتی ہیں۔خشونت نے بہائی مذہب کے قبرستان میں دفن ہونا
ہے جو اسکی وصیعت میں درج ہے جسکا ذکر اس نے اپنی آٹو بائیو گرافی میں لکھا
ہے۔خشونت بوڑھا سردار ہے مگر زندہ دل اور دل پھینک بھی ہے مجھے اس
کتاب”سمندر میں تدفین“پسند ہے چونکہ اس تحریر میں میں خشونت نے نہرو خاندان
کی اصلیت اور حقیقت پیش کی ہے۔وہ لوگ خاص کر پاکستانی قلمکار جن پر امن کی
آشا کا بھوت سوار ہے اور جو قائد اعظمؒ کا نہرو سے مقابلہ کرتے ہیں،خشونت
سنگھ نے سمندر میں تدفین لکھ کر ان کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے۔ جسے ان
دانشوروں کو ایک نظر ضرور پڑھنا چاہیے تا کہ ان کی عقل کے بند خانے کھل
سکیں۔ |