وقت کی آہٹ میں طوفان پنہاں ہے شاید؟
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
پاکستان بننے سے پہلے بھی اور آج بھی
انگریزوں کا یہ اصول رہاہے کہ مسلمان ملکوں کو لڑاﺅ اور حکومت کرو ۔پاکستان
بننے کے بعد وہ چلے توگئے لیکن اپنا یہ زریں اصول چھوڑ گئے جسے آج بھی
ہمارے محترم سیاستدانوں نے اپنے سینے میں تعویز بناکر ڈالا ہواہے ۔ چنانچہ
یہ لوگ آج بھی اپنے پیشرﺅں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قوم و ملک میں لڑاﺅ
اور حکومت کرو کی حکمتِ عملی پر ہی گامزن دکھائی دیتے ہیں۔(واللہ اعلم)اور
تمام لڑانے والی کاروائیوں کا مظاہرہ آئے دن آپ ملک بھر میں دیکھتے ہی رہتے
ہیں۔جیسا کہ آپ نے کل کی خبر سنی ہوگی کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی
جناح ؒ کے زیارت ریذیڈینسی کو بھی نہیں بخشاگیایعنی کے ان کے دشمن آج بھی
موجود ہیں جو ان کی یادگاروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ایسے میں حکومت کہاں
ہے ۔محکمہ ثقافت کہاں ناپیدہو گئی ہے کہ جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخی
ورثوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کریں۔مگر افسوس کہ دشمن بانی پاکستان قائد
اعظم محمد علی جناح ؒ کے نشانات مٹا رہے ہیں اور اربابِ اختیار کان میں
روئی اور آنکھوں پر پٹی باندھے بیٹھے ہیں۔ہمارے معزز (معذرت کے ساتھ) سیاسی
لوگ انتخابی موسم کے دوران رنگ بدلنے والے کی طرح اپنا رنگ بدلتے ہیں اور
خربوزوں کی مثال اپناتے پائے جاتے ہیں ،بے پیندی کے لوٹوں کی طرح عوام کی
طرف لڑھکتے ہیں ،یہ اپنے اس فن میں اس قدر ماہر مانے جاتے ہیں کہ اچھے سے
اچھا تجزیہ نگار بھی ان کے پکائے ہوئے پلاﺅ کی نذر ہوکر رہ جاتاہے۔ یہ
صورتحال تو ہر انتخاب کے دوران نظر آتی ہے۔اور اب تو یہ بات بھی ہر خاص و
عام میں سیلاب کی روانی کی طرح پھیل چکی ہے کہ انتخابی موسم کے دوران ان کے
دفتروں و شیش محلوں کی کھڑکیاں ہرکس و ناکس کے لئے کھل جاتی ہیں اور ہر بڑی
پارٹی کا سیاستدان عاشق نامراد کی طرح تاک جھانک شروع کر دیتا ہے،کہ کسی
طرح بس ووٹ ان کے کھاتے میں ڈَل جائیں۔ان حالات میں عوام سے سیاستدانوں کے
تمام شکوے گلے یک لخت سرد پانی کی طرح جم جاتے ہیں اور سب کی مشترکہ سوچ کا
منبہ حصولِ اقتدار اور اپنی سیاسی پشتوں تک بندوبست کر لینا ہی قرار
پاتاہے۔موروثی سیاست بھی کیا خوب گل کھلاتی ہے ہمارے ملک میں تویہ معاملہ
کچھ زیادہ ہی پروان چڑھ چکا ہے۔اکثر پارٹیوں میں موروثی سیاست کا اثر دیکھا
جا سکتاہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ پرندے موسم تبدیل ہونے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر
کرنے میں ہی اپنی عافیت گردانتے ہیں اسی طرح انتخابات بھی ہمارے سیاسی
پرندوں کے لئے سازگار ثابت ہوتے ہیں۔ہاں پرندوں اور سیاست کے مکینوں میں
نمایاں فرق دیکھا جا سکتاہے کیونکہ پرندے اپنے پیٹ کی حد تک ہی سفر کرتے
ہیں اور سیاستدان اپنی کئی پشتوں تک کے لئے محو پرواز رہتے ہیں اسی لئے یہ
عوام کو کچھ دے نہیں پاتے۔کیونکہ ان سے کچھ بچے گا تو عوام تک ثمرات
پہنچائیں گے۔کسی نے ایک بزرگ سیاستدان سے سوال کیاتھا کہ آپ لوگ وفاداریاں
کیوں تبدیل کرتے رہتے ہیں تو ان کا جواب تھاکہ آپ کا سوال غلط ہے،میں
پارٹیاں نہیں بدلتا، میری پارٹی تو خود حکومت ہے،بے وفا تو حکومت ہے جو
بدلتی رہتی ہے۔اس وقت ملک ایک بار پھر انتخابی داﺅ پیچ کے دوراہے سے گزر کر
نئی حکومت کو عوام نے راج پاٹ کا راجہ بنا دیاہے مگر ابھی تک کسی بھی سطح
پر عوامی خدمت کہیں نظر نہیں آ رہا۔نہ سرکاری ملازمین کو خاطر خواہ اضافہ
ملا ،نہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی آئی،نہ امن و امان کی حالت بہتر نظر آتی
ہے،اب دیکھئے کہ بجٹ کے بعد روزگار کا مسئلہ عوامی سطح تک پہنچتا ہے یا صرف
سیاسی کارکنوں تک ہی محدود رہتا ہے۔
غور اور فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ انگریزوں نے لڑاﺅ اور حکومت کرو کا اصول
اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے وضع کیاتھا اور اس پر عمل کرتے ہوئے ملک پر
قابض بھی رہے،وہ غیر ملکی تھے اس لئے ملک کی رعایا کاخیال نہیں رکھتے
تھے۔پھر بھی رعایا یعنی کہ قوم یکجا ہوکر انہیں سات سمندر دور مار
بھگایا،اب سوال یہ ہے کہ ان ملکی حکمرانوں کاکیاکیاجائے جو بظاہر ایسا ہی
لگتا ہے کہ وہ انہی اصولوں پر عمل پیرا ہیں خود بھی خونخوار جانوروں کی طرح
آپس میں ٹکراتے ہیں اور پوری قوم کو آگ و خون کے کھیل میں الجھا کر اقتدار
کے مزے لوٹتے ہیں۔یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ ملک میں کون کون سی بڑی
پارٹیاں موجود ہیں لیکن لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی جڑوں سے پھوٹنے
والی شاخیں جب پھل پھول دینے کے قابل ہوئیں تو زرد پتوں کی طرح بکھر جاتی
ہیں۔ایک وقت وہ بھی آیاتھاکہ جب بڑی پارٹیاں ایک سوکھے درخت کی مانند ہوگئی
۔غور کیجئے، آج ملک میں جتنی بھی بڑی پارٹیاں جو اقتدار کے مزے لوٹ رہے
ہیںیا لوٹ چکے ہیں وہ سب کی سب ایک دوسرے پر بد اعتمادی، الزام تراشی اور
شکوک و شبہات کے گھیرے میں ہیں اور عوام محو ¿ تماشہ ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے
کہ ایسے نازک حالات میں بھی کوئی پارٹی خوش دلی یا صدق دلی سے ایک دوسرے کے
قریب نہیں،اگر ان میں الیکشن کے موقع پر کہیں گٹھ جوڑ یا کوئی پروگرام بن
بھی جاتاہے تو وہ وقتی ہی ثابت ہوتاہے اس لئے کہ آستینوں میں پلنے والے
ایسا کوئی اتحاد دل سے تسلیم نہیں کرتے۔جس کی وجہ سے خود ان کے اعتماد کو
بھی ٹھیس پہنچتا ہے ۔علامہ محمد اقبال ؒ کا قول آج کے حالات میں سچ ثابت
ہوتاہے کہ۔ ”قوم کیا چیز ہوتی ہے ، قوموں کی حقیقت کیا ہوتی ہے اس کو کیا
جانے یہ دو رکعت کے امام ۔“ اس کا اندازہ ملت کی قیادت کے تناظر میں بخوبی
لگایاجا سکتاہے۔
آج جب میں اپنی آنکھیں بند کرکے ماضی کو یاد کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ
پہلے کتنے اچھے حالات ہوا کرتے تھے ۔ہر شخص آزادی سے ہر طرف آنا جاناکر
سکتاتھا۔ایک زمانہ تھا جب لگتا تھا کہ ستارے اپنی روشنی بکھیر رہے ہیں اور
چاند کی روشنی برف سے ڈھکے پہاڑوں کو روشن کر رہی ہے۔ان سارے نظاروں کو
دیکھ کر در حقیقت زمین پر جنت کا تصور ہونے لگتاتھا۔لیکن آج تو اگر کسی شخص
کوکہیں جانا ہوتاہے تو وہ پہلے یہ پوچھتا دکھائی دیتاہے کہ علاقہ کون
ساہے۔اگر اسے ایریا مناسب لگا توٹھیک ورنہ منع کر دینا اس کی فطرت بن چکی
ہے۔ظاہر ہے کہ حالات اور ساتھ ہی امن و امان اس قدر دگر گوں ہے کہ ہر کوئی
یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ملک میں ہو کیا رہاہے۔شام کو چھٹی
کے بعد سیدھے گھر پہنچنے کو ہی ترجیح دیا جانے لگاہے۔شاید اس کی خاص وجہ
حکومت کی بے توجیہی اور لاپرواہی ہے ، مگر جس علاقے میں وہاں کے باشندوں کی
آمد ورفت اتنی مشکل ہو وہاں عیش کی زندگی کے لئے لوگ کہاں سوچ پاتے ہیں۔
درج بالا ماحول میں تشدد اور امن کے درمیان پیچیدہ رشتے کو سمجھنا از حد
ضروری ہے ۔جوں جوں وقت کاپہیہ گھوم رہاہے لوگ ایک دوسرے سے محبت کرنابھولتے
جا رہے ہیں اور نفرتیں ان کی پیشانیوں پر نظر آنے لگی ہیں۔خدا رب العزت
ہمارے ملک کے عوام کو پھر سے ایک دوسرے کے قریب کرنے کا کوئی وسیلہ فرما
دیں تو یہ ملک پھر سے محبت و اخوت کا سائبان بن سکتاہے۔اس کے لئے ضروری ہے
کہ اوپر ی سطح سے یہ کام انجام دیاجائے تاکہ نچلے طبقے یہ سب کچھ دیکھ کر
اسی ڈگر پر چلیں،ملک کی باگ دوڑ چلانے والے آپس میں دوستی اور محبت کا رشتہ
ایسا استوار کریں کہ قابلِ تقلید بن جائے۔جیسا کہ ہر قومی معاملے میں یہ سب
لوگ یکجا ہوکر بیٹھتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں۔یہی نظریہ ہماری ترقی کا
ذریعہ بھی بن سکتاہے۔ |
|