میڈیا کا محاذ اور وقت کی پکار

''صحافت'' عربی زبان کا لفظ ہے' جو'' صحیفہ ''سے ماخوذ ہے اور ''صحیفہ'' اس تحریری مواد کو کہتے ہیں جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتا ہے' مثلاً اخبارات… پھر اخبارات میں روزنامے' تین روزے ' ہفت روزے اور پندرہ روزہ اخبارات' اسی طرح رسائل و جرائد خواہ وہ پندرہ روزہ ہوں یا ہفت روزہ یا ماہنامہ یا تین یا چھہ مہینے بعد جاری کیے جاتے ہوں ' غرض یہ کہ لغت میں صحافت کا تعلق تحریری مواد سے ہے ،لیکن اب اس کا اطلاق صرف تحریری مواد کے ساتھ خاص نہیںرہا بلکہ ہر قسم کے میڈیا پر ،خواہ وہ پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات 'رسائل و جرائد وغیرہ ہوں یا الیکٹرونک میڈیا یعنی ٹی وی چینلز ' ریڈیو ' انٹرنیٹ و کیبل وغیرہ ہوں یاسوشل میڈیایعنی ٹویٹر،ویب سائٹس اورفیس بک وغیرہ،سب پراس کااطلاق کیاجاتاہے۔اس تحریرمیں بھی صحافت اورمیڈیاکے الفاظ کے مصداق میں یہ تمام ذرائع ابلاغ داخل ہیں۔

صحافت یا میڈیا اپنے ماضی الضمیر کے اظہار ہی کا نہیں بلکہ اپنے قارئین و مخاطبین کے اذہان کو اپنے ماضی الضمیر کے مطابق ہموار کرنے کا ایک بہترین اور موثر ترین ذریعہ ہے، اسے عرف عام میں پروپیگنڈہ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتاہے ۔یہی میڈیا ہے جو چاہے تو کسی فرد 'ادارہ یا جماعت کے قبول عام کی معراج پر پہنچا دے اور یہی میڈیا ہے جو اگر چاہے تو کسی فرد، ادارہ یا جماعت کو ناپسندیدگی کے تحت الثریٰ میں گرادے' ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنانا میڈیا کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ میڈیا کا معاشرے پر اس قدر اثرورسوخ ہے کہ لوگوں نے غیرمحسوس طورپر اپنے اذہان کو میڈیا کے تابع کردیا ہے، دوسرے لفظوں میں لوگوں نے میڈیا کے ذہن سے سوچنا' میڈیا کی آنکھ سے دیکھنا اور میڈیا کے پیمانوں سے جانچنا اور پرکھنا شروع کردیا ہے۔

تاریخ کا طالب علم اس حقیقت سے بخوبی واقف و آگاہ ہے کہ 'گوکہ میڈیا صحافت' جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن کی اصطلاحات بہت بعد میں ایجاد ہوئی ہیں' تاہم اس کا استعمال بہت پہلے سے بلکہ ابتدائے آفرنیش سے تھا۔اس کے آغازکے حوالے سے کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ 1897ء میں دنیابھرکے تین سویہودی مفکرین ،دانشوراورعقلاجمع ہوکرجب پوری دنیاپراپنے ''پایہ ٔ استبداد ''کے قیام کے لیے سرجوڑکربیٹھے توانہوں نے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے جہاں سونے اورتیل کے ذخائرپرقبضہ کوضروری قراردیا،وہیں میڈیاکی ضرورت کوبھی بنیادی اہمیت دی۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس دن سے لے کر آج تک میڈیا بالخصوص الیکڑونک میڈیا پر چند یہودی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے جو رجال کی راہ ہموار کرنے کلیے رجال مقاصد و اہداف کو سامنے رکھ کر برسرپیکار ہیں۔

یہ میڈیاوارکادورہے۔نائن الیون کے بعدسے بالخصوص اب جنگیںتیروتفنگ اور ہتھیارواسلحے کی بجائے میڈیا کے محاذپرلڑی جارہی ہیں' اب مقابلے حرب و ضرب کے میدانوں کے ذریعے نہیں بلکہ میڈیا و صحافت کے میدانوں میں ہو رہے ہیں۔ اب مقابلے میں ہار جیت کا مدار جنگی مہارت پر اتنا نہیں ' جتنا میڈیا کے پروپیگنڈے پر ہے۔ یہی میڈیا ہے ' جو ایک بزدل قوت کو شیرنر اور ایک شیر کو گیدڑ ثابت کرنے کا ہنر رکھتا ہے۔ یہی میڈیا ہے جو پل بھر میں فاتح کو مفتوح اور مفتوح کو فاتح ثابت کردکھاتا ہے۔دورحاضرمیں تومستثنیات کے علاوہ وہ اندھیرمچی ہوئی ہے کہ الامان والحفیظ! دورِ حاضرکے مفاد پرست صحافی اورمیڈیامالکان وکارندے اپنے جائز وناجائز مفادات کی خاطر اپنے قلم اور میڈیا کی طاقت سے جب چاہیں مجرم کو محرم اور محرم کو مجرم بناسکتے ہیں۔

اسلام اس قسم کی صحافت کی آڑمیں بلیک میلنگ کی توکسی طوراجازت نہیں دیتا،تاہم اس کے باوجوداسلام نے کبھی بھی صحافت اور میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا ۔اسلام میڈیا کی ضرورت کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا اور اس کے درست طریقے سے درست سمت میں استعمال کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔یہ بات'' دوجمع دوچار''کی طرح واضح ہے کہ اسلام کا بنیادی مقصداعلائے کلمة اﷲ ہے' جس کے دو جز ہیں 1…احقاق الحق اور 2… ابطال باطل' اور اسلام ان دونوں محاذوں پر میڈیا کے استعمال کی ترغیب دیتا ہے۔

میڈیاپرغیروں کے تسلط درتسلط کے باوجوداسلام ہمیں یہ درس دیتاہے کہ اس صورتحال کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں موند لینا اور میدان غیروں کے لیے کھلا چھوڑ دینا بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس صورت حال میں ردو قبول کے خود ساختہ معیاروں اور عزت و شہرت اور نفع و ضرر کے پیمانوں کو ایک طرف رکھ کر ''قطرہ قطرہ بہم شوددریا ''کے اصول کو سامنے رکھنے اور اس یلغار کی روک تھام اور اس کا رخ موڑنے کے حوالے سے اپنے ممکنہ کردار کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے' اس منہ زورگھوڑے کے مقابلے میں میدان چھوڑنے کی بجائے اپنی بساط بھر کوشس کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل اسلام نے شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے میڈیا کے استعمال کی ہر دور میں حوصلہ افزائی کی ہے۔

اس وقت میڈیاکی لگامیں یہودونصاریٰ کے ہاتھوں میں ہیں،یہ جب بھی ،جہاں بھی،جس وقت بھی عالم اسلام پرکوئی بھی سازشی اورتخریبی یلغارکرناچاہیں تواس میڈیاکوشتربے مہارکی طرح چھوڑدیتے ہیںاوراپنی کوششوں میں تقریباًکامیابی سے ہمکناربھی ہوجاتے ہیں،توایسی صورت میں اسلامی صحافت کی ضرورت واہمیت مزیدبڑھ جاتی ہے۔موجودہ دورمیں میڈیاکے ذریعے ایساپروپیگنڈہ کیاجاتاہے کہ جس کے مقابلے میں اعلیٰ اخلاقی وثقافتی اورتہذیبی وسیاسی قدروں ،خوبیوں اورافضل ترین افکاروآراء کی ادنیٰ سی بھی اہمیت نہیں رہتی،ایسی صورت میں اسلامی صحافت سے ہی یہ امیدکی جاسکتی ہے کہ وہ اسلام کی اعلیٰ اخلاقی وثقافتی ،تہذیبی اورسیاسی قدروں اورخوبیوں کی نگہبانی کرے گااوراسلام کے خلاف ہرغلط پروپیگنڈہ کادندان شکن جواب دے گا۔ہماری سماجی اورمعاشرتی زندگی پرمیڈیاکے اثرات غیرمعمولی ،گہرے اورہمہ گیرہیں،اسلامی صحافت مغربی یلغارکامقابلہ کرتے ہوئے اسلام کی اعلیٰ بلندافکاروآرااورروشن پہلوؤں کوذکرکرکے سماجی اورمعاشرتی زندگی پراچھے اورگہرے اثرات مرتب کرسکتاہے۔فحاشی اورعریانی کے سیلاب کی تندی وتیزی میں میڈیاسب سے مؤثراوراہم کرداراداکررہاہے،جس کی وجہ سے مسلمانوں خاص طورپرنوجوان اورنئی نسل کواسلام کی عملی وفکری ،تہذیبی اوراعلیٰ اخلاقی تشخص سے تہی دست کرنے کی بھرپورکوششیں ہورہی ہیں۔ اسلامی میڈیاہی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ موجودہ میڈیاکامقابلہ کرتے ہوئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالافرمودہ گرامی کی بہترآبیاری کرے گااورفحاشی وعریانی کے سیلاب کے آگے مضبوط بندباندھے گا۔موجودہ میڈیانام نہاداسلامی اسکالرزکے ذریعے شریعت کی روح کومسخ کرنے اورسادہ لوح مسلمانوں کوگمراہ کررہاہے تواسلامی میڈیاہی ہے جوشریعت کی اصل روح کوبرقراراورمسلمانوں کے دین وایمان کی حفاظت بدرجہ ٔ اتم کرسکتاہے۔میڈیاحقائق سے چشم پوشی کاپرتکب ہورہاہے،خصوصاًان نہتے اورمظلوم مسلمانوں کی حالت زارسے غیروں کے ہاتھوں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں،اپنی آنکھیں بندکیے ہوئے ہیں تواسلامی میڈیاہی پرنگاہ انتخاب مرکوزہوکررہ جاتی ہے کہ ہرحال میں حقیقت شناسی سے کام لیکرمظلوموں کی آہوں اورسسکیوں کااپنے تئیں مداواکرے۔

اس امرسے انکارممکن نہیں کہ ابھی اس میدان میں اہل اسلام کو بہت کچھ کرنا ہے، لیکن جو کچھ اور جتنا کچھ ہورہا ہے وہ بھی بسا غنیمت ہے۔ بارش کا پہلا قطرہ بننے والے اداروں ' اخبارات و جرائد کی حوصلہ افزائی ہی مستقبل قریب میں چھم چھم برسات کی نویدثابت ہوسکتی ہے۔ہم اگرچہ ''باطل کامقابلہ اس کے ہتھیاروں سے کرنے ''کے سرسید ی نظریے کے قائل نہیں ہیں، تاہم ساحران فرعون کی طرح حصرت موسیٰ علیہ السلام جیسا جامہ وپیراہن زیب تن کرنے کے فوائد و ثمرات بھی تاریخ کی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 280246 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More