فکر دینی کی تثلیث

اقبال، مولانا علی میاں ندوی اور قاضی محمد عدیل عباسی

قاضی عدیل عباسی ایک وکیل، مجاہد آزادی، صحافی، صاحب طرز ادیب، سیاستداں اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے معروف ہیں۔وہ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی بنیادی اور صالح تعلیم کی فکر کرنے والی چندہستیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی ایک دوسری حیثیت اقبال شناس کی بھی ہے جنہوں نے عالم اسلام کی ایک عبقری شخصیت اور اقبال شناس علامہ سیدابوالحسن علی ندوی (علی میاں ) کی فکرسے روشنی حاصل کی اوربڑے کارنامے انجام دیئے۔ دینی تعلیمی قونسل کی بنیاد اسی صائب فکر کا نتیجہ ہے۔ جس کے مقاصد مسلمانوں میں دینی ادارے قائم کرنا اور اردو تعلیم کے ذریعہ ایسے نصاب تیار کرنا جو دین وایمان کی بقا اور ترویج واشاعت کا حامل ہو او ر ساتھ ہی جدید تقاضوں سے بھی آشنا رہے۔

ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد مسلمان دھیرے دھیرے سماجی ومعاشی اورتعلیمی سطح پر کمزور سے کمزور ترہوتاچلاگیا۔ جہاں ایک طرف مسلم دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ نقل مکانی کرکے پاکستان جابساتھا وہیں بعض اہل علم ایسے بھی تھے جنہوں نے ملک کی سالمیت ، اس کی بقا کو اپنا نصب العین بنائے رکھا اور دیگرقدروں کے ساتھ حسن سلوک ، آپسی بھائی چارہ اورتعلیم کو فروغ دینے میں تعاون کیا۔ لیکن ہندوستان کے ایک سیکولر اسٹیٹ بن جانے کے بعد مسلمانوں کی نئی نسل کے لئے اسلام کے بنیادی عقائد اور اپنے قدیم ملی تشخص اور امتیاز کے ساتھ زندگی گذارنا ایک اہم مسئلہ تھا۔

وہیں دوسری طرف حکومت کی مشنری کے مو ثرافراد کی وجہ سے فطرتاً اس میں سارے فرقوں کے ساتھ یکساں اور مساویانہ طرز عمل کا باقی رہنا نہایت دشوار تھا۔ ماضی کی تلخیاں، پاکستان کے قیام اور ہندو احیائیت اور غیر مذہبی نصاب کے واضعین کی فرقہ وارانہ ذہنیت بھی کارفرما تھی ۔ بنیادی نصاب تعلیم میں ہندو دیومالا کی باتیں او غیر سیکولر کہانیاں صاف طور پر شامل کئے جانے لگے۔

بعض صاحب بصیرت جن میں قاضی عدیل عباسی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی پیش پیش ہیںیہ سوچنے پرمجبورہوئے کہ کس طرح ملک کا بنیادی نصاب جن میں اخلاقیات اورسبق آموز قصے کہانیوں پر مشتمل ہو تاکہ ملک کے سیکولر کردار کو بحال رکھا جائے اور کسی خاص مذہب یا فرقے کی تلقین و تبلیغ سرکاری پلیٹ فارم سے نہ ہو۔

اس تعلق سے ایک پیش رفت یہ ہوئی کہ مسلمان بیسک اوربنیادی تعلیم کا انتظام اپنے بچوں کے لیے خود کریں۔ اس کے لیے مدارس اورمکاتب قائم کئے جائیں جن مسلمان گھرانوں کے بچوں کی ابتدائی تعلیم اردوعقائد اور مذہب و دینیات کے مطابق ہو۔جس سے اپنے بچوں کی ذہن سازی ہو سکے۔

اس مقصد کے لیے قاضی عدیل عباسی نے اپنی پوری توانائی اور اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں صرف کیں۔جس کے لئے 1955سے ہی بلکہ انجمن ترقی اردوہند میں 1950میں بستی میں شاخ کے قیام سے شروع کردی تھی۔ قاضی صاحب نے دینی ادارے قائم کرنے اور ابتدائی دینی تعلیم کے لےے ایک منصوبہ بنانے کے بعد ضلعی سطح پر انجمن تعلیمات دین قائم کی۔جس میں مدارس کو خودکفیل بنانے کے لےے انہوں نے چٹکی اور کھلیانی وصول کرنے کا طریقہ رائج کیا۔ اس تحریک کی کامیابی پردینی تعلیمی کونسل کے قیام کا منصوبہ بنا کر دانشوروں کی ایک کانفرنس بلائی اور دینی تعلیمی کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ اس منصوبے کے پس پشت عالمی شہرت یافتہ عالم دین مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کاوش شامل تھی۔ جنہوں نے قاضی صاحب سے اصرار کیا کہ اپنے دائرہ سے باہر نکل کر ضلعی سطح کے بجائے صوبائی سطح پر کام کریں۔

بالآخر 3130 دسمبر1959، یکم جنوری 1960کی تاریخوں میں صوبائی دینی کانفرنس بلائی۔ جس میں ملک کے کونے کونے سے اہل علم ودانش حضرات اور دانشوروں کو دعوت دی گئی اورمشورے لیے گئے۔ اس کے صدر بھی مولانا علی میاں ندوی کو ہی بنایاگیا۔مولانا ابوالحسن علی ندوی کا خیال ہے:
ہندوستانی مسلمانوں کی ملی تشخص اور ان کے بنیادی مسائل کی تاریخ لکھنے والا اس کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ تقسیم ہند کے بعد مشکل سے دوایک تحریکیں ہوں گی جو دینی تعلیمی کونسل کی طرح ٹھوس بنیادی اوروقت کے اہم ترین مسئلہ پر شروع کی گئی ہوں۔“ (۱)

قاضی صاحب شروع سے ہی اقبال سے دیرینہ الفت ومحبت کرتے تھے اورزندگی بھر ان کے فکروخیال کامجسم آئینہ بنے رہے۔ قاضی صاحب کی ہم جہت شخصیت سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ قوم کا سچا د رد رکھتے تھے اوراس کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال کے روزانہ بلا چند سواشعار پڑھے مجھے چین نہ آتا تھا۔ اخبار زمیندار کی عظیم مشغولیت کے زمانے میں بھی جسے جہادسمجھ کر ہم لوگ نکال رہے تھے۔ میرا یہ مشغلہ بند نہیں ہوا۔(۲)

اقبال سے ذہنی ہم آہنگی اور ان کے فکر وخیال کے مطالعہ سے جو تاثر قاضی صاحب کے دل پر قائم ہوا وہ یہ کہ اقبال نے اپنی نظموں میں جن تعلیمات کی شرح کی ہیں وہ اسلامی فکر سے متاثر ہیں۔ اور جیسے جیسے اقبال کی شاعری مزید سامنے آتی گئی یقین میں پختگی آتی گئی۔ قاضی صاحب کی نظرمیں اقبال کے تئیں عقیدت واحترام کا یہ عالم تھا کہ گفتگو کے دوران کسی کے نزدیک جہاں کوئی کسر نظر آتی تھی پیمانہ صبر لبریز ہوجاتا تھا اورقوت برداشت جواب دے دیتی تھی۔

زمیندار کی ادارت سے سبکدوشی پر لاہور سے واپسی کے بعد مجنوںگورکھپوری کا مضمون بعنوان ”اقبال“ منظرعام پرآیا جس میں اقبال کو کمتر شاعر بتایاگیاتھا۔ اس وقت جواب میں قاضی صاحب نے چندمضامین قلمبند کےے تھے جس میں سے صرف دو شائع ہوسکے باقی بعد میں نظرثانی کے بعد ”اقبال کا فلسفہ حیات وشاعری“ کے عنوان سے شائع ہوا اور ہرخاص وعام میں مقبول ہوا۔ جس سے قاضی عدیل عباسی شخصیت کے جہاں دیگر جہات کے حامل تھے وہیں اقبال شناس کی حیثیت کے متحمل ہوئے۔

قاضی صاحب اقبال کے فلسفے اورفکری سرچشمے کو قران وحدیث کی دین تصور کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ
”اس کے موضوعات گفتگو اسلامی اس کے افکار اسلامی اس نوعیت بحث اسلامی چنانچہ ان سب کی شرح میں اقبال کے اشعار اسلامی اور صرف اسلامی۔“(۳)

اس سلسلے میں مولانا ندوی کی رائے بے محل نہیں کہ اقبال کا یقین عقیدہ و محبت کا ایسا حسین امتزاج ہے جو اس کے قلب و وجدان، اسکی عقل و فکر، اس کے ادارہ تصرف، اس کی دوستی و دشمنی غرض کی اسکی ساری زندگی پر چھایا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں راسخ الایمان تھے۔(۴)

ان کی اس رائے سے سوفیصد اتفاق کرنا پڑے گا کہ اقبال کو فلسفی شاعر عرف عام کے معنوں میں قرار دینا سخت غلطی ہے ۔ دراصل ایک مجدد تھا اور اس نے عجمی تفصیلات اورغیر اسلامی افکارکے بجائے خالص اسلامی تصورات کوپیش کرنے کے لیے ارادتاً اشعار لکھے ہیں۔

علامہ اقبال نے اپنے گرد و پیش سے جس طرح سروکار رکھا اور جس طرح تہذیبی، سیاسی، فلسفیانہ، اور سماجی یلغار پر اپنے رد عمل کا ہر دور میں اظہار کیا اس کی کوئی دوسری مثال بر صغیر کے مسلم دانشوروں میں مشکل سے تلاش کی جا سکتی ہے۔ مولانا ندوی بھی انہیں صفات کے متحمل تھے۔ان کا خیال ہے کہ جہاں اقبال عصری نظام تعلیم پر تنقید کرتے ہین اس سے ان کی مرادجدید مغربی تعلیم کے علاوہ اور کچھ نہیں،جو لا دینیت کی طرف لے جاتی ہے۔(۵)

قاضی عدیل عباسی کی تحریک ”دینی تعلیمی“ کونسل کے پس پشت اقبال کی فکر کارفرما نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علم ایک وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس میں دیگر علوم کے ساتھ ساتھ سائنس بھی شامل ہے۔محمد نے کہا ہے کہ اطلب العلم ولوکان بالصین( علم حاصل کرو خواہ وہ چین میں ملے)لیکن بعد میں اس حدیث کی توجیہات مین علم سے مراد صرف علم دین لے لیا گیا۔اقبال کے نزدیک ترکوں کی عظمت کا رازجدید علوم تھے لیکن جب یورپ میں علم کی روشنی آئی توترکون نے اس سے اجتناب کیااسی لئے ان کی حکمرانی بھی جاتی رہی،قاضی عدیل عباسی کا خیال ہے کہ دنیائے اسلام کے مدارس بالخصوص ہندوستان میںمذہبیات کے علاوہ جن سے مراد قرآن ، حدیث اور فقہ کی تعلیم ہے اس میں صرف آرٹ کے بعض اجزاءکی تعلیم دی جاتی ہے مثلا قدیم فلسفہ، قدیم منطق وغیر۔ سائنس کی تعلیم شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے اور علوم جدیدہ سے اجتناب و اعتراض عین اسلام تصور کیا جاتا ہے۔قاضی عدیل عباسی نے شعارناالوحید الی الاسلام من جدید یعنی جدید علوم کو اسلامی روح کے ساتھ رائج کرنے کو ایک مشن کے طور پر شروع کیا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔

قاضی عدیل عباسی ایک سیاستداں بھی تھے وہ اقبال کے فکر و فن پر گہری نظر رکھتے ہیں اقبال کے نزدیک تصور وطنیت ہو یا تصور جمہوریت اگر اس میں انسانیت کی فکر اور صالح قدروں کی پاسداری نہ ہو تو یہ سب بیکار ہیں ۔ اقبال کا خیال ہے کہ عالم میں ایک ایسی حکومت قائم کرنا چاہئے جو قید وطن سے آزاد ہو اور جس کی اساس سرحدوں پر نہیں بلکہ اصول و قوانین شرع پر ہو۔اس سلسلے میں علامہ جمال الدین افغانی کے ہم خیال ہیں۔

اقبال کی فکرونظرمیں عالمگیریت اور آفاقیت اسلام اور صرف اسلام ہی میں پنہا ہے نہ کہ جیسا کہ مجنوں گورکھپوری کے مطابق اقبال کا پیام اس حیثیت سے محدود ہے کہ وہ اسلام اور حقائق اسلام کی شرح ہے۔(۶)

اقبال کی نظر میں اسلام ایک ایسا طرز زندگی ہے جس کے اندر تمام مصائب و مشکلات کا مداواکرنے کی صلاحیت ہے اور محمد انسانیت کے نجات دہندہ ہیں قاضی عدیل عباسی کی کتاب ”اقبال کا فلسفہ حیات اور شاعری“ کے اسباق مثلا اقبال اور اسلام ، خاتم النبیین، مقام نبوت،رسالت،نیابت الہی، عشق رسول، اقبال کا تصور مدینہ وغیرہ کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔اور وہ ایک طرف اس زمانے کے تمام مفکرین کی طرح اتحاد اسلام (پین اسلام ازم) کے ذریعے اسلام کا دینوی اقدار واپس لانا چاہتے تھے اور دوسری طرف ملت اسلامیہ میں جو غلط نظریات پیوست ہوگئے تھے ان کی اصلاح کرنے کے خواہش مندتھے.... اس طرح اقبال نہ صرف ایک مفکر اسلام تھا بلکہ ایک مجدد تھا اور اس نے آب سر چشمہ اسلام سے تشنگان معرفت کو سیراب کیا ہے۔ (۷)

قاضی صاحب اقبال کے سلسلے میں اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں زمانہ طالب علمی سے ہی اقبال کی نظم، ابوالکلام آزاد کی نثراورحسرت موہانی کے عمل کا بڑا معتقدرہا اور بڑے ذوق وشوق سے ان تینوں کا مطالعہ کرتاتھا۔

مولانا ندوی کی طرح قاضی صاحب بھی اقبال کو کوئی انسانی صفات سے اعلیٰ وارفع چیز تصور نہیں کرتے بلکہ اقبال کی صاف گوئی کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ایک دن اقبال نے مجھ سے کہا کہ آپ وسط ایشیا میں جاکر کام کیجئے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب وسط ایشیا، روس اور اسلامی اقتدار کی کشمکش میں تھا اقبال نے کہا کہ آپ دریافت کریں گے کہ میں خود وسط ایشیا کیوں نہیں جاتا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے اندر جذبہ ہے لیکن ہمت کی کمی ہے۔ شعر میں اقبال نے کہا تھا کہ
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا

لیکن بقول قاضی عدیل عباسی جن لوگوں نے کسی شاعرکے کلام کو اس کے عمل کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں بہت دوراز کار دلایل سے کام لینا پڑا ہے۔ لیکن ناقدین فن کے لےے یہ رواج سا ہوگیا ہے کہ وہ کلام شاعر کو اس کے ذاتی احوال وکوائف کا مرقع تصور کرتے ہیں۔ یہ صحیح ہے شاعر نبی یا پیغمبر نہیں ہوتا لیکن اپنے حالات اور ماحول کی فضاﺅں کو وہ عبور نہ کرسکے تو اس کا فن ناقص ہے۔ اسی لحاظ سے اقبال اپنی بعض انسانی کمزوریوں کے باوجود ملت کامسیحا، غمگسار، ہمدرد اورپیشوا تھا جس نے ایک صدی کے پورے سیاسی منظرنامے کو متاثر کرنے میں اہم کردار اداکیا اور امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار کرکے قران وسنت کی روشنی میں نئی راہوں کی تلاش وجستجو کی طرف گامزن کیا۔

قاضی عدیل عباسی کے مشن اور انکی تحریک کو اقبال کے ان اشعار سے سمجھا جا سکتا ہے۔
اے پیر حرم رسم و رہ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سحری چھوڑ
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
دے ان کو سبق خود شکنی خود نگری کا
تو ان کو سکھا خارہ شگافی کے طریقے
مغرب نے سکھایا انہیںفن شیشہ گری کا

قاضی عدیل عباسی اورمولانا ابوالحسن علی ندوی دونوں زندگی بھر اقبال کے پیغام کی ترویج واشاعت کے لیے کوشاں رہے اورعملی اقدامات کیے۔ دونوں نے اقبال کا زمانہ پایا تھا اور ان سے ملاقاتیں کی تھیں۔مولانا ابوالحسن علی ندوی نے ” نقوش اقبال“ کو اور قاضی عدیل عباسی نے”اقبال کا فلسفہ حیات اور شاعری “ کے ذریعہ ملت میں اقبال کے پیغام کو پہونچا یا جس کو ہمیشہ قدرکی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

حوالے:۔
(۱) مولانا ابوالحسن علی ندوی، کاروان زندگی، جلد اول، مکتبہ اسلام، لکھنﺅ، 1994، ص: 462
(۲)قاضی عدیل عباسی، اقبال کا فلسفہ حیات اور شاعری، بک سروس، دہلی،1971،ص:10
(۳) ایضا ، ص: ۷
(۴) مولانا ابوالحسن علی ندوی،نقوش اقبال، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنو، 2006، دسواں ایڈیشن ،ص:46
(۵) ایضا ، ص: 70
(۶)قاضی عدیل عباسی، اقبال کا فلسفہ حیات اور شاعری، بک سروس، دہلی،1971،ص:82
(۷) ایضا ، ص: 81
Arif Ishtiyaque
About the Author: Arif Ishtiyaque Read More Articles by Arif Ishtiyaque : 2 Articles with 10010 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.