تقلید: یعنی پیروی کرنا، کسی کے پیچھے چلنا، کسی کا طرز عمل اختیار کرنا،
عرف عام میں کسی کی نقل کرنا یا کسی سے متاثر ہو کر اس کے طرز عمل کو اپنے
ذاتی زندگی میں اختیار کرنا تقلید کہلاتا ہے تقلید کی بدولت ہی دنیا میں نت
نئے اور رنگا رنگ رواج اور تہذیب و ثقافت متعارف ہوئے ہیں کہتے ہیں کہ" نقل
کے لئے عقل ضروری ہے" اپنی عقل سے دوسروں کے عمل کی نقل کو تقلید کہتے ہیں
نقل کون نہیں کرتا ہر قوم اور ہر معاشرے کے افراد اپنی عقل کے مطابق کہیں
نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت میں، کسی نہ کسی حوالے سے، کسی نا کسی کی نقل
کرتے دکھائی دیتے ہیں
تقلید یا نقل کرنا بری بات نہیں اچھی بات ہے اگر نقل یا تقلید سے مثبت اور
اچھے نتائج برآمد ہوں تو بصورت دیگر یہ فعل درست نہیں اپنی عقل کے مطابق
کسی کے اچھے عمل کی تقلید کرنا ایک بہتر فعل ہے لیکن اس سے بھی زیادہ بہتر
بلکہ بہترین عمل تو یہ ہے کہ خود اپنے عمل میں وہ خوبیاں پیدا کی جائیں کہ
جن کے باعث دوسرے آپ کی تقلید کو اپنے لئے وجہ افتخار گردانیں تاریخ میں
بے شمار ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں کہ جن کی تقلید نے بہت سے انسانوں اور
بہت سے معاشروں کو ذلت و تحقیر کی پستی سے نکال کر عزت و وقار کی بلندی تک
پہنچایا ہے
تاریخ کے اوراق چھان کر دیکھیں تو آپ باآسانی ایسی قابل تقلید شخصیات سے
متعارف ہوں گے کہ جن کی تقلید پر عمل آپ کو کامیابی کی نئی راہیں دکھا سکتا
ہے محض تاریخ ہی نہیں بلکہ اگر آپ چاہیں تو آج کے دور میں بھی آپ کو اپنی
شخصیت نکھارنے کے لئے ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی کہ جن کی تقلید آپ کے
لئے کامیابی کی سیڑھی ثابت ہو سکتی ہے قدرت نے ہر دور میں انسانوں کی
بھلائی کے لئے دنیا میں کوئی نہ کوئی گوہر نایاب پیدا کیا ہے کہ جس کی
تقلید انسان میں ایسے مثبت افکار کو جنم دیتی ہے کہ جن پر عمل کرکے انسان
دنیا کو فتح کر گزرنے کا ہنر بھی سیکھ سکتا ہے
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر خالق کی خاص عنایت ہے کہ ہمیں تقلید و پیروی
کے لئے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات با برکات کی صورت میں
اسوہء حسنہ کا بہترین نمونہ مرحمت فرمایا ہے ہمارے پیارے نبی علیہ الصلوۃ
السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسّلم کی ذات با برکات جو کہ اعمال
صالح اور اخلاق حسنہ کا بہترین اور عمدہ ترین نمونہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا وجود نہ صرف امت مسلمہ بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کے لئے باعث
رحمت ہے دنیا کا جو انسان بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی و تقلید
کا عمل اختیار کرے گا پھر کوئی طاقت بھی اسے دنیا و آحرت کی سعادتیں سمیٹنے
سے نہیں روک سکتی اور اس کے مقدر کا ستارہ ہمیشہ جگمگاتا رہے گا
حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کی تقلید اسی صورت ممکن ہے کہ آپ
کی عقیدت و محبت حق کے ساتھ دل میں جاگزین رہے انسان کی فطرت ہے کہ وہ جس
سے محبت رکھتا ہے اس کے ہر طرز عمل کی تقلید و پیروی دل و جان سے کرنا
چاہتا ہے اور جو انسان آپ سے عقیدت و محبت کے باعث آپ کی تقلید و پیروی کو
اپنی حیات کا طرز عمل بنا لے تو پھر اس کے مقدر کی خوش بختی کا مقام علامہ
اقبال کے اس شعر سے بخوبی ظاہر ہے
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں |