”بابا جی کہانا یہاں پیسوں کے بغیر کام
نہیں ہوتے !بیٹا غریب ہوں ،دو وقت کی روٹی کے لیے پیسے نہیں اس کام کے لیے
پیسے کہاں سے لاﺅں؟بابا یہ حساس معاملات ہیں، روٹی نہیں کہ مانگے مل جائے
اور جو چاہے مفت میں دیدے ،ایسے معاملات کے لیے تو لاکھوں لگانے کے
باوجودبھی دھکے کھانے پڑتے ہیں،سالوں سالوں مشقتیں جھیلنا پڑتی ہیں،پھر بھی
کام ہوجائے تو غنیمت ورنہ ایسے کاموں کے لیے تو زندگیاں بیت جاتی ہیں،نسلیں
گزرجاتی ہیں،آس لگائے امیدیں ختم ہوجاتی ہیں“۔”ایس ایچ او “ابھی بات مکمل
ہی کررہا تھا کہ اللہ بخش پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا۔60سالہ بوڑھے میاں کی
ہچکیاں پورے تھانہ میں گونج رہی تھیں ۔تھانہ کے تمام اہلکار بلک بلک کر
رونے والے بوڑھے میاں کی طرف لپکے ،مگر افسوس! کسی نے بڑھ کر بوڑھے میاں کے
آنسو پونچھے ،نہ کسی نے تھپکی دے کر تسلی دی ۔
اللہ بخش گاﺅں کا رہنا والا تھا ۔وہ بے چارہ اپنی زندگی کے قیمتی سرمایہ کی
خاطر انصاف کی بھیک مانگنے تھانے آیاتھا۔تیس سال تک تپتی دھوپ میں دوڑ دھو
پ کرکے ،سر پر منوں بوجھ لاد کر،روزانہ بے رحم مالکوں کی ڈانٹ ڈپٹ سن کراس
نے اپنی اولاد کو چلنے پھرنے کے قابل بنایا تھا۔اس کی چار بیٹیاں اور ایک
بیٹا تھا ۔دو بیٹیوں کی شادی اس نے بڑی جان مارکر کی تھی ،باقی دو بیٹیوں
کے ہاتھوں کو حنا سے رنگین دیکھنا اس کا ایک خواب تھا جس کی تعبیر کے لیے
وہ روز تدبیریں کرتا تھا۔اس کا بیٹامحمد اکرم بہنوں سے چھوٹا تھا ۔وہ اپنے
بوڑھے باپ کا سہار ابننا چاہتاتھا،اس نے میٹرک تک سکول کے اخراجات اپنی مدد
آپ کے تحت پورے کیے تھے ۔ چھٹی کے ٹائم وہ سکول کے باہر گول گپے کی ریڑھی
لگاتا تھا اور اتوار کے دن باپ کے ساتھ دیہاڑی پر جاتا،یوں وہ اپنے اور
اپنی دو چھوٹی بہنوں کے سکول کے اخراجات پورے کرتا۔محمد اکرم نے ان
آزمائشوں سے گزر کرمیٹرک تو مکمل کرلیا ۔میٹرک کے بعد وہ اپنی تعلیم جاری
رکھناچاہتاتھا لیکن حالات کی تیزدھاری دھار تلوار ہر وقت اس کی گردن پرلٹکی
رہتی ،جس سے اس کی امیدیں دم توڑنے لگ جاتیں۔ایک دن وہ یوں ہی پریشان بیٹھا
گہری سوچوں میں گم تھا کہ اس کا بہت اچھا دوست نوید خلیل اس کے گھر آیا،
نوید نے اس کی پریشانی معلوم کرنے کی کوشش کی تو محمد اکرم کے آنسوپانی کی
طرح بہنے لگ گئے۔ نوید نے حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا :”یار! اکرم غربت اللہ کی
آزمائشی نعمت ہے ،اس پر رونے کی بجائے صبر کرنا چاہیے ،ان آزمائشوں کے بعد
ضرور راحتیںتمہار امقدر بنیں گی۔اگر تمہاری قسمت میں آگے پڑھنا نہیں تو
کیاہوا ؟اللہ نے بے شمار راستے تمہارے لیے رکھے ہیں، کسب ِحلال کے ذریعہ اب
تمہیں اپنے بوڑھے والدین اور بہنوں کا سہار ابننا چاہیے“۔
نوید خلیل کی باتوں سے محمد اکرم کے جذبات کو مہمیز ملی۔ گھر کاچراغ جلانے
کے لیے اس نے روشنیوں کے شہرکا انتخاب کیا ۔والدین نے امن وامان کی مکدر
صورتحال کے پیش نظر اپنے اکلوتے لخت جگر کو کراچی نہ جانے کا مشورہ
دیا،لیکن حالات کی ستم ظریفیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے محمد اکرم نے جانے
پراصرار کیا۔ بوڑھے ماں باپ نے کسمپرسی کی زندگی سے نجات پانے اور دو
بیٹیوں کے معصوم ہاتھوں میں مہندی رچانے کی خاطرمحمد اکرم کو آنسوﺅں کے
سمندرکے ساتھ الوداع کہا ۔ 25جون 2012 کومحمد اکرم ماں باپ کی امیدوں
،بہنوں کی خواہشوں اور اپنے گھر کی خوشحالی کی خاطر کراچی روانہ ہوا۔یہاں
آکر ا س نے ایک ہوٹل پر ملازمت اختیارکرلی ۔ چار ماہ تک وہ غموں کو بھلا کر
دل لگی اور امانت داری سے ملازمت کرتارہا۔اس کی امانت ،خوش اخلاقی ،اور کام
سے محبت اور لگن دیکھ کر ہوٹل مالکان نے اسے مستقل ملازمت دیدی اور اس کی
تنخواہ میں بھی اضافہ کردیاتھا۔ محمد اکرم ہر ماہ اپنی پوری تنخواہ اپنے
والدین کے پاس بھیجتااور والدین سے زندگی میں برکت اور کامیابی کی دعائیں
لیتا۔ اس کی زندگی کی گاڑی وقت کی رفتاراور بہاﺅ کے ساتھ پانچ ماہ تک یوں
ہی چلتی رہی ۔پھرایک دن محمد اکرم کی گاڑی کو حادثہ لاحق ہوا ۔چاربہنوں
اورساٹھ سالہ بوڑھے والدین کے اکلوتے سہارے کو گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے آرام
کی نیند سلادیاگیا۔محمداکرم کے والدین کے لیے یہ حادثہ صرف صدمہ ہی نہیں
تھا بلکہ جان لیواواقعہ تھا۔چنانچہ اپنے بے گناہ لخت جگر کی نعش دیکھ کر
محمد اکرم کی بوڑھی ماں دم توڑگئی ۔اس کا بوڑھا باپ سکتے میں آکر بیہوش ہو
گیا ،بہنیں ہوش وحواس کھو بیٹھیں ،گھر میں کہرام مچ گیا ،پورے علاقے کی فضا
ءسوگوار ہوگئی ۔
اس طرح کی اندوہناک مظالم صرف ایک بوڑھے اللہ بخش پر نہیں ٹوٹتے بلکہ ملک
کے بیسیوں اللہ بخش ان مظالم کی چکیوں میں پِس رہے ہیں۔طرفہ تماشا حکمرانوں
کی غفلت کا ہے جو بجائے اللہ بخش جیسے مظلوموں کے سروں پر ہاتھ رکھنے کے
ظالموں کی طرفداری کرتے ہیںاور بڑی ڈھٹائی سے سرحد پا ر دشمنوں کے سروں
پرمحمد اکرم جیسے بے گناہوں کے ناحق خون کا الزام تھوپتے ہیں۔ حیرت اور
تعجب ہوتاہے ملک میں قانون نافذکرنے والے اداروں پر جو قوم کے اربوںروپیے
کھانے کے باوجود بھی قوم کی جیبوں پر نظر رکھتے ہیںاور ایک رپٹ بھی پیسوں
کے بغیر درج نہیں کرتے ۔تعجب بالائے تعجب کچہریوں اور عدالتوں میں بیٹھے
منصفین پر ہوتاہے جو ان مظلوموں کے زخموں پرفوری مرہم رکھنے کی بجائے سالہا
سال تک انہیں بستر مرگ پر علیل رکھتے ہیں۔گزشتہ دنوں پنجاب کے وزیر اعلی
میاں محمد شہباز شریف کی طرف سے پولیس کے نظام میں بہتری لانے کے لیے دبئی
اور لندن طرز پر کمانڈاینڈکنٹرول سسٹم بنانے کا عندیہ دیاگیا،جو یقیناقابل
ستائش اور لائق صد تعریف ہے ۔اس سسٹم کے ذریعہ نہ صرف پولیس افسران کی
مانیٹرنگ کی جاسکے گے بلکہ معاشرے میں امن وامان کی فضاءکو مکدر کرنے والے
سماج دشمن عناصر کو بھی کنڑول کیا جاسکے گا۔بقول وزیراعلی ٰپنجاب یہ جدید
نظام جرائم کی روک تھا م ،مظلوموں کوفوری انصاف،انٹیلی جنس شئیرنگ اورتھانہ
کلچر کے خاتمہ میںممد ومعاون بنے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نظام اللہ بخش جیسے مظلوموں کی مرہم پٹی کے لیے کافی
وافی ہوگایانہیں؟جہاں تک جدید ٹیکنالوجی سے استفادے کی بات ہے تو اس سے کسی
کو سرِمو اختلاف نہیں،اگر بات ا للہ بخش جیسے مظلوموں کی داد رسی کی جائے
تو اس کے لیے یہ نظام اگرچہ مفیداور کارآمدہے لیکن زخم بھرنے کے لیے کافی
ہرگزنہیں ہے ۔اس لیے اس جیسے جدید نظام کوبنانے سے پہلے پرانے نظام کی
بہتری اور اس نظام کو داغدار کرنے والی’موٹی تندوں “کے خلاف ہنگامی بنیادوں
پر کام کیا جائے تو وہ بہت مفیدہوگا۔تھانہ کلچر ،کچہری اور عدالتی دھکے
کوئی چار پانچ سال کا مسئلہ نہیں کہ اس کو فی الفور ختم کیا جاسکے بلکہ یہ
تو گزشتہ کئی دہائیوں سے انصاف کی راہ میں گلے کی ہڈی بن کر اٹکا ہواہے ۔اس
نظام کو پاک صاف بنانے کے لیے سب سے پہلے جاگیرداروں،وڈیروں اور سرکاری
اہلکاروں کی اس میں بے جا مداخلت کو ختم کرناہوگا۔عوام کے زخموں پر فوری
مرہم رکھنے کے لیے خدائی قوانین پر مکمل طور پر عملدارآمد کرنا اور انہیں
بروئے کار لانا ہوگا۔فوری انصاف کی خاطر میزانِ عدل کو بے انصافی سے پاک
رکھنااور مساوات کی پالیسی کوفروغ دینا بھی ناگزیرہے۔
قرآن کی نگاہ میں بوڑھے اللہ بخش کامظلوم بیٹا محمد اکرم اور اورنگزیب خان
کا مظلوم بیٹا شاہزیب خان دونوں برابرہیں۔عدالت کے لیے جیسے ازخود نوٹس لے
کر شاہزیب کے قاتلوں کوگرفتار کرنے کے لیے آئی جی سندھ اور وزیر داخلہ کو
مہلت دینا اور پھر مفرور ملزمان کو سزائے موت سنانا لازم ہے وہیں محمداکرم
کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے آئی جی سندھ اور وزیر داخلہ کو متنبہ کرنابھی
ضروری ہے۔ تھانہ کلچرکے خاتمے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے نئے نظام
ضرور بنائے جائیں مگر خدائی نظام سے ہرگز غفلت نہ برتی جائے ۔ہماری ترقی کا
راز جدید ٹیکنالوجی کے ضمن میں ہرگز پوشیدہ نہیں یہ تو اسباب کے درجہ میں
ہیں ،اصل ترقی کا راز اسلام کے سنہری اصولوں میں مضمرہے ۔ لہذا ملک میں
اللہ بخش جیسے مظلوموں کو تھانے میںفری رپٹ درج کروانے اور فوری انصاف کی
فراہمی کی خاطر واحداسلامی سسٹم پر عمل کرنا وقت کی اور ملک کی اشد ضرورت
ہے ۔ورنہ اس ملک میں سی آئی اے ،ایف بی آئی اور دبئی اورلندن طرز کے کمانڈ
اینڈکنٹرول سسٹم ہرگزاللہ بخش جیسے مظلوموں کے زخموں پرمرہم نہیںرکھ سکتے ۔ |