بس اب بہت ہوگیا

پشتو زبان کی ایک مثل ہے کہ اگر کوئی آپ کے گھر آتا ہے تو پہلے دن وہ مہمان ہوتا ہے اور اس کی مہمانداری صرف تین دن ہوتی ہیں تاہم اگر وہ اس کا قیام چوتھے روز میں شامل ہو جائے تو پھر وہ مہمان نہیں رہتا بلکہ وہ کوربہ یعنی میزبان بن جاتا ہے اور پھر اس کے ساتھ میزبانوں والا سلوک کیا جاتا ہے- یہ مثل آج پشاور یونیورسٹی میں بیس جون پر افغان مہاجرین کی عالمی دن کی مناسبت سے منعقد ہونیوالے پروگرام میں شرکت کے دوران یاد آئی- اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے ان افغان مہاجرین کے نام پر کیا کھا رہے ہیں اور کتنا کھا رہے ہیں اس کا حساب تو دینے والا ہی جانتا ہے یا اللہ ہی جانتا ہے لیکن پاکستان اور خصوصا خیبر پختونخواہ کے دھماکوں ‘ بیروزگاری ‘ مہنگائی سے ابتر ہونیوالے کمی کمین یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کب تک افغان بھائی بھائی کے چکر میں ہمارے منہ کا نوالہ انہیں دینے کا سلسلہ جاری رکھا جائیگا اور کب تک یہاں کے مقامی پختون خوار ہوتے رہیں گے -1979 ء میں افغانستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے افغان مہاجرین میں اس وقت 17 ملین رجسٹرڈ اور 10 ملین غیر رجسٹرڈ پورے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں جن میں اکثریت نے گھر خرید لئے ہیں اور باقاعدہ تجارت بھی شروع کردی ہیں بلکہ بعض علاقوں میں انہوں نے اپنے آپ کو قبائل ظاہر کرکے قومی کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بھی بنا دئیے ہیں لیکن ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں-

80 فیصد سے زائد افغان مہاجرین اس وقت خیبر پختونخواہ میں رہائش پذیر ہیں کچھ لوگ اسے ضیاء الحق کا کیا دھرا کہتے ہیں غلطی جس کی بھی ہو اس سزا بہر حال پختون قوم اور ان کے معصوم بچے بھگت رہے ہیں 80 کی دہائی میں انہوں نے کلاشنکوف کلچر ‘ ہیروئن اور چرس کلچر بھی متعارف کروا دیا-یہاں کے پختون ویسے تو اتنے معصوم بھی نہیں لیکن ان افغان مہاجرین کی آمد کی وجہ سے یہاں اخلاقی بداعمالی کی انتہا دیکھئے کہ اب بھی پشاور کے مختلف علاقوں میں قحبہ خانے انہی کے حوالے سے جانے جاتے ہیںیہ بات ریکارڈ پر ہے کہ صوبہ بھر خصوصا پشاور میں ہونیوالے جرائم میں 75 فیصد افغان مہاجرین ہی ملوث ہیں اور اس بارے میں عدالت عالیہ پشاور کے چیف جسٹس جسٹس دوست محمد خان بھی بارہا کہہ چکے ہیں لیکن جن کے ہاتھوں میں کچھ کرنے کی طاقت ہے ہے انہی افغان مہاجرین کی بدولت ڈالر ‘ بوتل اور زن کی چکر میں پڑے ہوئے ہیں اور کوئی ان سے غیر قانونی کاروبار کے بارے میں پوچھنے کی ہمت بھی نہیں کرسکتا کہ بھائی کس کھاتے میں یہاں پر بس گئے ہو ‘ اب یہاں پر کیا رہ گیا ہے جاکر اپنے ملک کو آباد کرو لیکن نہ تو یہاں پر لاکھوں کے کاروبار کرنے والے افغان مہاجرین واپس جانا چاہتے ہیں حالانکہ اس بدحال اور ٹوٹے پھوٹے پاکستان سے تو افغانستان کی معاشی حالت بہت بہتر ہے اور تو اور موجودہ دور میں لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوتی لیکن جس طرح انہیں پیسے کا مزہ پڑ گیا ہے اسی طرح ان کے نام پر کام کرنے والے غیر سرکاری و سماجی ادارے بھی فنڈز کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں اور انکی خواہش ہے کہ افغان مہاجرین یہاں پر رہیں تاکہ ان افغان مہاجرین کے نام پر یورپ ‘ امریکہ اور دیگر ممالک سے خیرات ‘ زکواۃ آنے کا سلسلہ جاری رہے اور ان کی سیونگ اکاؤنٹس بھی چلتی رہی اور برائے نام کام بھی چلتا رہے حرام کی اس کمائی میں ایلیٹ کلاس کے بیگمات تو ایک طرف اب ہماری بیورو کریسی بھی ان کی مددگار ہے-کیونکہ ان کیلئے سرکار کی طرف سے بننے والی اداروں میں مخصوص سیاستدانوں کے رشتہ دار بھی بھرتی ہوتے ہیں اور انکی پیداگیری کا سلسلہ بھی جاری ہے سو انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ افغان مہاجرین کی بوجھ تلے مقامی افراد کتنے دبے ہوئے ہیں او ر کتنا خوار ہورہے ہیں بس اتنا ان کیلئے ضروری ہے کہ ان کے نام پر آنیوالے فنڈز میں انہیں ان کا حصہ مل رہا ہے -پشاور میں کئے جانیوالے ایک سروے رپورٹ کے مطابق صرف خیبر پختونخواہ کے صوبائی دارالحکومت میں پندرہ ہزار سے زائد افغان مہاجرین ایسے ہیں جن کا اپنا بڑا کاروبار ہے ان میں قالین سازی ‘ بیکری ‘ جنرل سٹور ‘ چھابڑی فروش ‘ سمیت امپورٹ ایکسپورٹ اور طب کے شعبے سے وابستگی بھی ہے غیر قانونی طور پر مقیم یہ افغان مہاجرین نہ تو کوئی سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں نہ ہی انکم ٹیکس ‘ لیکن مراعات عام پاکستانی شہریوں سے بھی زیادہ لے رہے ہیں کسی کو اندازہ نہ ہو تو افغان مہاجرین کے بڑے علاقوں بشمول حیات آباد ‘ فقیر آباد سمیت دیگر پوش علاقوں میں ان کی رہائش گاہوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس نوعیت کے یہ افغان مہاجرین ہیں ان کی حالت سے تو لگتا ہے کہ یہاں کے مقامی لوگ مہاجر ہیں اور افغانستان سے یہاں آکر کاروبار پر قابض ہونیوالے مقامی ہیں-یعنی حالات زندگی نے مقامیوں کو مہاجر بنا کر رکھ دیا ہے -

ؒ ایک ایسے وقت میں جب یہاں کے مقامی پختون مسائل کی جنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں نکالنے والا کوئی نہیں ‘ لر اور بر افغان کے نعرے لگانے والے تو اپنا پاپی پیٹ اور بہت کچھ بھروا کر چلے گئے ہیں اب تبدیلی والے آگئے ہیں لیکن تبدیلی کتنی آئی ہے اس کا اندازہ تو آنیوالے وقت میں پتہ چلے گا لیکن لر اور بر افغان کے نعرے لگانے والے لی ڈروں کونہ تو افغانوں سے کوئی مقصد تھا اور نہی کوئی مطلب ہے ہاں انہیں اس کاروبار سے غرض ہے جو ان کے نام پر یہاں سے آٹے ‘ چینی ‘ گھی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی چیزیں سمگل کرکے اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور اس کاصرف ایک طورخم بارڈر پر ملنے والی رقم پینتالیس لاکھ روپے صرف ایک روز کی بیان کی جاتی ہیں باقی سرحدوں پر جانیوالامال اور اس کی کمائی الگ ہے یعنی مزے کرے یہاں کے لی ڈر ‘ بیورو کریسی اورکمی کمینوں کے منہ کا نوالہ کاروبار اور سمگلنگ کی آڑ میں افغانستان پہنچ جائے یہ کہاں کا انصاف اور بھائی چارہ ہے ‘ اس کی آسان مثال کچھ یوں ہے کہ ایک شخص کے خاندان کے لوگ بھوکے ہوں اور اسی خاندان سے تعلق رکھنے والا اس کا بھائی اس کے حصے کا رزق باہر بیچ کر کمائی کرتا ہو ‘ ایسے میں اس بھوکے خاندان کے دل پر کیا گزرتی ہیں یہ کوئی اپنے خاندان کو ذہن میں رکھ کر سوچے تو شائد ہمیں پاکستان اور خصوصا صوبہ خیبر پختونخواہ کی عوام کی بدحالی کا اندازہو جائے-

اقوام متحدہ کے نمائندے موجودہ دور میں اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ 1.6 ملین افغان مہاجرین کو پاکستان واپس زبردستی نہیں بھجوا سکتا اور تیس جون تک نئے لائحہ عمل کا اعلان کیا جانا چاہئیے لیکن اقوام متحدہ کی بڑی گاڑیوں ‘ سیکورٹی والی گاڑیوں میں عیاشی کرنے والے ایلیٹ کلاس کے لوگوں سے یہا ں کے مقامی یہ سوال کرنا چاہ رہے ہیں کہ آخر ہمیں کس چیزکی سزا دی جارہی ہیں آخر کب تک ہم بھائی چارے کے چکر میں اپنے بچوں کو بھوکا مارتے رہینگے اقوام متحدہ کے فنڈز پر عیاشی کرنے والوں آپ کو ڈالرز میں بہت کچھ مل رہا ہے اور ان کے نام پر آپ لوگ عیاشیوں میں مصروف ہوں لیکن یہاں کے لوگ امن و امان کی ابتر صورتحال سمیت تجارت نہ ہونے ‘ سرمایہ ہونے اور بیروزگاری جیسے مسائل سے دوچار ہیں خدا کیلئے ان افغان مہاجرین سے ہماری جان چھڑاؤ نہیں تو یہ افغان مہاجرین ہمیں مہاجر بنا دینگے-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497914 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More