بچپن میں ایک بات مذاق میں کہی جاتی تھی کہ
ایک کھائی میں کچھ لوگ گر گئے جن میں امریکی جاپانی اور پاکستانی تھے ،
امریکیوں نے جاپانی لوگوں کو ساتھ ملایا انکے کندھوں پر سوار ہو کر باہر
نکلنے میں کامیاب ہو گئے اسکے بعدجاپانی ایک دوسرے کی مدد سے اس کھائی سے
باہر نکل آئے ، اور پھرباہر آ کر پاکستانیوں پر ہنسنے لگے کیونکہ جب بھی
کوئی پاکستانی اس گڑھے سے نکلنے کی کوشش کرتاتو دوسرے ساتھی اسے ٹانگوں سے
کھینچ کرواپس ا سی گڑھے میں واپس گرا لیتے اور پھر اسے کہتے تم اکیلے کہاں
جا رہے ہو، نکلیں گے تو ایک ساتھ نہیں تو اسی گڑھے میں ایک ساتھ مریں گے۔
آج بھی ہم اگر غور کریں تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم خود اپنے سب سے
بڑے دشمن ہیں ،اگر ہم ڈوب رہیں تو ساتھ ضرور کسی ناں کسی کو لیکر ڈوبتے ہیں
اوریوں ہم ناں اپنا فائدہ کرتے ہیں ناں دوسروں کا۔پچھلے کچھ سالوں سے
پاکستان میں بارشوں اورسیلابوں کے پانی نے تباہی مچارکھی ہے لیکن بدقسمتی
سے ہم اس پانی سے ڈوب مرنا پسند کرتے ہیں لیکن اس سے کالا باغ یا کوئی اور
ڈیم نہیں بننے دینا چاہتے کیونکہ اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچ جائے
گا۔ہمارے حکمران بجٹ پیش کرتے ہیں تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ
نہیں ہوتا تو سب سڑکوں پر ننگے ہو کر لیٹنیاں لینے لگ پڑتے حالانکہ پاکستان
میں ایک سرکاری کلرک بھی بادشاہ ہوتا ہے اسے ہر ماہ وقت پر تنخواہ تو مل
جاتی ہے مرتا تو غریب ہے جس کی کبھی دہاڑی لگی کبھی ناں لگی لیکن نہیں
خزانہ خالی ہویا ملک مقروض ہو لیکن سرکاری ملازموں کو تنخواہوں میں اضافہ
چاہیے ،چاہے ملک کا کچھ ناں بچے، پھر یہی نہیں ہر سرکاری اداروں پی آئی اے
ریلوے وغیرہ کا حال اس بیڑے جیسا ہے جس میں گنجائش 100،لوگوں کی ہو اور
بھرے 500 سے بھی زیادہ لوگ ہوںتو وہ بیڑہ تو غرق ہی ہو گا ہم پی آئی اے اور
ریلوے سے اترناں نہیں چاہتے انہیں کیساتھ ڈوب مرنا چاہتے ہیں افسوس ہم جس
شاخ پہ بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں، اپنے مفاد کے لئے اپنی ہی جڑیں کاٹنے
میں لگے ہیں اور ہمیں خبرہی نہیں۔ |