جب مدینہ طیبہ کے اندر اسلام سے
وابستہ ہونے والوں کی تعداد خاصی بڑھ گئی قبیلہ اوس و خزرج کے لوگ جوق
درجوق اسلام قبول کرنے لگے تواہل مدینہ نے اپنے ہادی و آقا، نبی اکرم صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو اپنے وطن مدینہ مقدسہ تشریف لانے کی دعوت دی
اسکے بعد انصار کے لوگ بڑی بے چینی سے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم کے انتظار کی گھڑیاں گننے لگے۔ اس وقت انکے شوق دیدار کا عالم کیا تھا
اسے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ جس لمحہ یہ بشارت ملی کہ اب رسول اﷲ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم مدینہ کے قریب آچکے ہیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم کے عشاق و محبین استقبال کے لئے’’ ثنیۃ الوداع‘‘ تک پہنچ گئے کہ
کب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی طلعت زیبا سے انکی معراج ہونی
والی ہے اور جس وقت ان حضرات نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو
دیکھا مرحبا کی صداؤں سے پوری فضاء گونج اٹھی ،ان استقبال کرنے والوں میں
حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فدائی رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم بھی تھے یہ تو وفورِ مسرت سے بے قابو ہورہے تھے۔ یہی وہ صحابی رسول
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ہیں جنھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہٖ وسلم کے ایک اشار ے پر اسلام کے ایک بہت بڑے دشمن ابورافع سلام بن
ابوالحقیق کو اس کے قلعے کے اندر گھس کر قتل کیا تھا۔
واقعہ کی تھوڑی تفصیل یوں ہے۔سلام بن ابوالحقیق اﷲ اور اس کے رسول عزوجل و
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا سخت دشمن تھا ۔ اس نے بنونضیر کے یہودیوں
کو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے قتل پر برانگیختہ کیا تھا ۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے سامنے جب یہ صورت حال لائی گئی
تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے اس دشمن دین کو کیفرکردار تک
پہنچانے کے لئے صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی ایک جماعت منتخب کی ان میں
حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے اس دستہ کی قیادت حضرت عبداﷲ
بن عتیک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو سونپی گئی۔ یہ دستہ اس مہم کے لئے روانہ ہوا۔
رات میں چلتا اور دن میں کمین گاہوں میں چھپار ہتا ۔ تا آنکہ یہ دستہ سلام
بن ابوالحقیق کے قلعہ کے اندر داخل ہوگیا ۔ رات کا وقت تھا ، قلعہ کے سب
لوگ سوگئے ، سلام بن ابوالحقیق قلعہ کے ایک بالاخانہ پر سورہا تھا۔ نصف شب
میں یہ لوگ آہستہ آہستہ اس تک پہنچنے کے لیے چل پڑے، جب اس کے کمرے تک
پہنچے اس کی بیوی جاگ گئی ۔ ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور اس
کو ہراساں کرنے کے لئے اس پر تلوار اٹھائی کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم کی وصیت تھی کہ ابو رافع سلام کے علاوہ کسی کو یہ قتل نہ
کریں۔وہ عورت خاموش ہوگئی اور تھر تھر اتے ہوئے اپنی جگہ دبک گئی۔
دوسرے فدائی آگے بڑھے سخت تاریکی تھی ابورافع کی صحیح جگہ کا پتا نہ چلتا
تھا۔فدائیوں کی تلواریں چلنے لگیں لیکن اسکو کوئی خاص گہر ا زخم نہ لگ سکا
حضرت عبداﷲ بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے ان کے سامنے ابورافع تھاجو
کہ چیخ و پکار کررہا تھا آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے اپنی تلوار سے اس بدترین
دشمن کو کیفر کردار تک پہنچادیا۔ جب ابو رافع کی ہلاکت کا یقین ہوچکا تو
صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی یہ جماعت مسرت و شادمانی کے ساتھ مدینہ مقدسہ
کے لئے روانہ ہوئی۔صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم مدینہ کی طرف تیزی سے بڑھ
رہے تھے تاکہ اپنے سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کواس دشمن کی ہلاکت
کی بشارت سنائیں۔ یہ قافلہ مسجد نبوی شریف علی صاحبہ الصلوۃ والسلام کے
قریب پہنچا تو دیکھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم صحابہ کرام رضی
اﷲ تعالیٰ عنہمسے گفتگو فرمارہے ہیں۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم
نے ان کو اس عالم میں دیکھا کہ انکے چہرے آثار خوشی سے دمک رہے ہیں ۔حضور
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے تبسم فرماتے ہوئے کہا :’’ اَفْلَحَتِ
الْوُجُوْہ ‘‘ یہ چہرے کامیاب ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم
کی زبان مبارک سے نکلنے والے یہ کلمات کتنے عظیم ہیں۔ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہم کی اس جماعت نے بھی بلاکسی تاخیر کہا : ’’ اَفْلَحَ وَجْھُکَ
یَارَسُوْلَ اللّٰہ‘‘آپ کا چہرہ مبارک کا میاب ہے ہاں ہاں آپ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلم سے ہی یہ کامرانی ہے ، اگر آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم کی ہدایت و رہنمائی نہ ہوتی تو ہم کامیاب نہ ہوتے۔
لوگ اس کامیابی سے پلٹنے والے قافلہ سے سلام بن ابو الحقیق کے قتل کی کیفیت
دریافت کرنے کے لئے ان کے گرد جمع ہوگئے سارے ہی مجاہدین کہہ رہے تھے میری
تلوار نے ابورافع کا کام تمام کیا ہے۔ حضور پاک صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم تبسم فرمارہے ہیں کہ اس شرف عظیم کو ہر شخص اپنے ہی حصے میں لینا
چاہتا ہے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کو
خاموش رہنے کا اشارہ کیا پھر فرما یا: ہر شخص اپنی تلوار میرے سامنے پیش
کرے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے سب کی تلواروں کا جائز ہ لیا
اور انکی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: عبداﷲ بن انیس کی تلوار نے اس کاکام تمام
کیا ہے، اس میں اس کا اثراَب بھی ہے۔ (السیرۃ النبویۃلابن ہشام،مقتل سلام
بن ابی الحقیق،ج۴،ص۲۳۵)
قبائل ہذیل خالدبن سفیان کی قیادت میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم سے جنگ کرنے کیلئے مقام نخلہ میں جمع ہوئے۔ نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہٖ وسلمنے رَأْسُ الْفِتْنَۃخالد کو کیفرکردار تک پہنچانے کا عزم
مصمم فرمایا۔ اس مہم کے لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے عبداﷲ
بن انیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو منتخب کیا اور فرمایا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ
ابن سفیان مجھ سے جنگ کر نے کیلئے لوگوں کو جمع کررہا ہے،اور وہ اس وقت
نخلہ میں ہے تم وہاں جاکر اس کو قتل کرو۔
سپاہی نے اپنے آقا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی آواز پرلبیک کہا لیکن
اس مہم کا سر کرنا آسان نہ تھا۔ دشمن اپنے ہزاروں سپاہیوں کے بیچ میں ہے
اور وہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اب یہاں سوائے حرب فریب کے اور کوئی چارہ
نہیں اور اس کیلئے بھی باتیں بنانی ہوں گی۔ اور یہ چیز اسلام میں روا نہیں
نا چار انھوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے اس کی اجازت
چاہی۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے ان کواس کی چھوٹ دی کہ الحرب
خدعۃ جنگ دھوکہ ہے۔
حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تلوار حمائل کئے ہوئے یہ مہم سر کرنے کے لئے
نکل پڑے اور عصر کے وقت نخلہ پہنچ گئے وہاں انھوں نے دشمنوں کی زبردست
بھیڑدیکھی پھر اپنے نشانہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ خالد کو دیکھا کہ عورتوں کے
جھنڈ میں ہے۔ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس وقت اپنا منصوبہ مکمل کرنا
چاہتے تھے مگر عصر کی نماز فوت ہونے کا بھی انھیں اندیشہ تھا۔ ایسے وقت میں
انھوں نے دشمن کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ہی اشارہ سے نماز پڑھی اور خالد
کے پاس پہنچ گئے۔ خالد نے ان سے پوچھا تم کون ہو حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ نے فرمایا عرب ہی کا ایک آدمی ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ تم نے ان (حضور
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم )سے لڑنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے تو میں بھی
اسی کے لئے آیا ہوں۔خالد نے کہاہاں ہاں میر ابھی خیال ہے کہ اب بہت جلد ہم
مدینہ پر چڑھا ئی کرکے فتح حاصل کریں گے۔
خالد اپنی عورتوں سے صرف نظر کرکے حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہسے باتیں
کرنے لگا اور حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے ذہن میں نشانہ فٹ کرنے
لگے۔ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا طرز تکلم بڑا ہی خوب تھا۔ خالد آپ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مانوس اور مطمئن ہوگیا۔ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
خالد سے باتیں کررہے ہیں اور موقع کی تاک میں ہیں۔ چنانچہ انھیں موقع ہاتھ
آہی گیا۔تلوار نیام سے نکالی اور خالد کا سر قلم کردیا اسکا دھڑ زمین پر
جاگرا اور ایک دھمک سی ہوئی۔ خالد کی عورتیں متوجہ ہوئیں تو کیا دیکھتی ہیں
اس کا سرا سکے تن سے جدا پڑا ہے۔ اب کیا تھا وہ عورتیں چیخ پڑیں وہاں کے
سبھی لوگ خالد کی لاش کی طرف متوجہ ہوئے اورادھر حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ وہاں سے دوڑ پڑے۔ اب جب خالد کے لوگ قاتل کی تلاش کررہے ہیں تو قاتل کا
پتا نہیں۔ ابھی اسے دفنا یا بھی نہ گیا تھا کہ اس کے گرد جمع ہونے والوں کا
بادل چھٹنے لگا اور صبح تک پورا نخلہ خالی ہوگیا۔
ادھر حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دل حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم کا منشا پورا کردینے پر خوشی و مسرت سے لبریز ہے۔ دوڑتے ہوئے سرکار
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں آرہے ہیں۔ زمین سمٹ کیوں نہیں
جاتی کہ فوراً اپنے سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو ہلاکت دشمن کی
بشارت سنادوں۔ حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوۃ
والسلام میں حاضر ہوئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم صحابہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہم کے درمیان تشریف فرماتھے جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم نے ان کی آمد محسوس کی تو آپ کی طرف مسکراتے ہوئے نظر اٹھائی اور
ارشاد فرمایا: ’’ اَفْلَحَ الْوَجْہُ‘‘یہ چہرہ کامیاب ہے۔ حضرت عبداﷲ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیاآپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمکا چہرہ مبارک
کامیاب ہے۔ میں نے اس دشمن کوقتل کرڈالا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلم نے فرمایا :تم نے سچ کہا۔
اس وقت حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ اشعار سنانے لگے۔
اقول لہ والسیف یعجم رأسہ
انا ابن انیس فارساً غیر قعدد
وقلت لہ خذھا بضربۃ ماجد
حنیف علی دین النبی محمد
وکنت اذا ھم النبی لکا فر
سبقت الیہ باللسان وبالید
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ عبداللّٰہ بن انیس،ج۴،ص۵۲۱)
’’ میں اس وقت کہہ رہا تھا جب تلوار اس کا سرچاٹ رہی تھی کہ میں ابن انیس
شہسوار ہوں کوئی اپاہج نہیں ہوں۔‘‘
’’اور میں نے کہا مجھ جیسے دین محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم پر قائم
رہنے والے صاحب مجد شخص کا ایک وار ہی کافی ہے۔‘‘
’’اور میرا حال تو یہ ہے کہ جب نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کسی کافر
کو انجام تک پہنچانے کا ارادہ فرماتے ہیں تو میں اس کی طرف زبان سے اور
ہاتھ سے سبقت کرتا ہوں۔‘‘
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |