دینی مدارس ۔۔تصویر کا دوسرا رخ

فرد اور معاشرے کے اصلاح اور تعمیر میں مسجد اور مدرسے کا کردار ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ، اس کردار ہی کی بدولت مسلم معاشرے میں اورمسلمان گھرانوں میں عموما ًعلما اور دینی تعلیمی اداروں کو عزت احترام کی نظرسے دیکھا جاتاہے ، ان کی توہین اور تحقیر کو خطرناک اور باعث نقصان وخسران تصور کیا جاتاہے، اس واسطے اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ غالباً مدارس اور اہل مدارس میں پائے جانے والی کمزوریوں کو بھی نہیں چھیڑتے ،کہ معاشرے پر کوئی اچھا اثر پڑنے کی بجائے اس سے اس کار خیر کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ محسوس کیاجاتاہے او رمذھب بیزار طبقے کی تخریبی سوچ اور منفی پروپیگنڈے کو تقویت ملتی ہے، محلے کی مسجد ہی میں قوم کے معصوم بچے جاکر قاری صاحب اور امام صاحب سے جوکلمے نماز فرائض وواجبات اور ضروری احکام سیکھتے ہیں ، ناظرہ وحفظ قرآن کریم یا ترجمہ وتفسیر کا سبق لیتے ہیں ، اسکوزیاد ہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے، مگر اسلامی معاشرے اور صالح مسلم گھرانے کی تشکیل میں اسکابڑا بنیادی کردار ہوتاہے ،کیونکہ بچے کے شفاف اور سپاٹ لوح ذہن پر نقش ہونے والے وہ الفاظ اور بنیادی اسلامی تعلیمات تادیر بلکہ اکثر تاحیات موجود رہتے ہیں اورزندگی کے ہر موڑ پر ضمیر کو جھنجھوڑتی ہیں ۔

اسی طرح مدرسے کا پڑھا ہوا نوجوان مسجد کے امام وعلاقے میں دینی رہنما کی حیثیت سے اور دار الافتاء کے مفتی کے طورپر آج بھی حلال ،حرام ، جائز ناجائز اور دینی مسائل کے عمل کے سلسلے میں بلاشرکت غیرے مرجع الخلائق ہے اور عامۃ المسلمین اپنے ذاتی دینی احکام عائلی مسائل، کا روباری مسائل ، تنازعات ومعاھدات و دیگر ضروریات کے سلسلے میں علما ہی پراعتماد وانحصار کے قائل ہیں ، عملًابھی وہ مولوی ہی سے اپنے یہ مسائل حل کراتے ہیں، یہ ایک بڑی حوصلہ افزاصورت ہے ،تاہم مدارس کے ناقدین میں کچھ رایسے بھی ہیں، جوجارحیت ، مذمت یابد خواہی وناپسندید گی نہیں تعمیر کی تنقید کے انداز میں مدارس اور اہل مدارس کے اصلاح احوال کیلئے فکرمند اورہم دردی وبہی خواہی کے ساتھ کوشاں ہیں۔

معاشرے کی زبوں حالی اور اخلاقی زوال کے شکار کسی بھی قوم وملت کا اگر جائزہ لیا جائے تو لامحالہ اسکے مختلف طبقوں اور تمام اداروں میں کمزوریاں اور نے بے عملیاں ں نظرآئینگی، مسلمان جب بھی من حیث القوم زوال وانحطاط کے راستے پر پڑتے ہیں بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ان میں مسجد ومدرسے کے کردار کا فقدان یا ضعف واضمحلال ضرور نظر آئے گا، پھر اگر اس اضمحلال وانتشار کو محسوس بھی نہیں کیا جاتا ،یا اسکے اظہار پرنا گواری کا اظہار کیاجاتا ہے ،تو یہ مزیدنقصان کا سبب بنتاہے،بہی خواہانہ تنقید میں بجاطور پر جوبات زیادہ زور وشور سے کہی جاتی ہے ،وہ یہ ہے کہ مدارس و مساجد کا کردار محدود سے محدودتر ہوتاجارہاہے ،بلکہ انسانی دنیا کی تیز ترین اور ہمہ جہت ترقی کی بنا پر اسلامی معاشرے کی ضروریات ومشکلات اور مسلمانوں کو درپیش چیلنجز میں مسلسل اضافہ ہورہاہے،جس کا تقاضایہ تھا کہ مسجد ومدرسے کی فعالیت اور کردار کی وسعت بھی اسی رفتار سے بڑھتی رہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہورہا ہے، چناں چہ مدارس دینیہ میں نئی آمدہ قومی زبانوں کو سکھانے ، مسلم اور غیر مسلم ورلڈ کی تفصیلات اور مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے اپنے فضلاء کو روشناس کرنے کا کوئی معقول ومربوط نظام نہیں ہے ، اسی کا نتیجہ ہے پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں اسلامی تعلیمات کے اور یجنل اور پیور قسم کے حاملین نا پیدیا نہ ہونے کے برابر ہیں، تعلیم وتبلیغ اسلام کے ذمہ داروں کو سوسائٹی کے ایک محدود ومغلوب حصے پر قناعت کی ایسی لت پڑی ہے کہ کبھی ان کی نگاہ خوشحال اور پوش طبقے کی طرف غلطی سے بھی نہیں اٹھتی اور اسمیں جہاں علماکی دنیا میں عدم دلچسپی کا رفرماہے ،اتنی ہی کچھ کی نااھلی اور عدم استعداد بھی اسکا سبب ہے، مسجد ومدرسے والوں کو تصویر کے دونوں رخ سامنے رکھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے اور ہر تنقید کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے اورپائے حقارت سے ٹھکرانے کی تباہ کن روش سے اجتناب کرنا چاہئے ۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816571 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More