شروع اﷲ پاک کے بابرکت نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم
والا ہے
علم ایک روشنی کی مانند ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔پاکستان
میں ہر حکومت اس روشنی کو پھیلانے کی بھر پور کوششیں کرتی ہیں۔لیکن پھر بھی
دوسرے ممالک کے مقابلہ میں ہمارے ہاں علم کی روشنی مدم ہی پائی جاتی ہے۔جس
کی وجہ سے ہم اور ہمارے جیسے سیاسی لیڈر اندھیر نگری میں روشنی ڈھونڈنے کا
راستہ تلاش کر تے آ رہے ہیں۔جبکہ مسلمانوں کے پاس آخری نبی ﷺ کی عملی
اقدامات اور آخری کتاب قرآن پاک ہونے کے باوجود بھی ہم علم کی اہمیت اور اس
سے ہونے والے فوائد سے لاعلم ہیں۔تعلیم ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔اس
پر ہم کتنا عمل پیرا ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لئے ہمیں کسی ریسرچ کی
ضرورت نہیں بلکہ ہم آس پاس نظریں دوڑیں تو ہم کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ ہم
پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی ان پڑھ لوگوں جیسے زندگی گزار رہے ہیں اور
گزارنے پر مجبور ہیں۔کیونکہ ہم صرف علم کتاب میں سے چند لائنیں پڑھنے اور
اس کو عملی زندگی میں اپلائی کرنے کے نام کو علم کہتے ہیںیا روزگار کے حصول
کے لئے ہم یہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ہم علم کی روشنی کو پھیلانے سے ڈرتے ہیں
کہ کہیں یہ علم یعنی ہماری میراث میں کمی نہ ہو جائے اس لیے کسی چیز کے
بارے بخوبی علم ہونے کے باوجود بھی کسی کو ایک لفظ تک نہیں سکھاتے کہ کل
کلا ں کو وہ ہم پر ہمارے ہی پڑھائے ہوئے علم کی وجہ سےہماراآقا نہ بن
جائے۔بدقسمتی سے پاکستان کو انہیں پڑھے لکھے جو کہ حقیقت میں ان پڑھ لوگ
ہیں کی وجہ سے ملک پاکستان کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔غلط پالیسوں، غلط
قوانین، ذاتی مفادات، غرور و تکبر،جاگیرداراہ نظام کی خاطرملک پاکستان کی
جڑیں کمزور کرنے میں انہیں کا ہاتھ شامل ہوتا آ رہا ہے۔جس کے بدلہ میں غریب
عوام کو قربانی کا بکرا ہمیشہ بنایا گیا ہے۔تعلیمی میدان میں غلط پالیساں
بنانا کوئی نئی بات نہیں۔ایئرکنڈیشن کمروں میں بنائی گئی پالیساں زیادہ دیر
پا ثابت نہیں ہوتی۔حکمرانوں کو کیا پتہ کہ جو نئی سال کی تعلیمی پالیسی
بنانے جا رہے ہیں اس سے کتنے طالبعلموں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقعہ ملے گا،
کتنوں کو تعلیم چھوڑنا پڑھے گی،کتنوں کے والدین نئی پالیسی کے تحت اپنے
سارے بچوں کو پڑھائی دلوا سکیں گے ، کتنے کو تعلیم حاصل و مکمل کرنے بعد
روزگار مہیا ہوگا اس کے بارے میں کوئی بہتر حکمت عملی نہیں بنائی جاتی،بس
تعلیمی پالیسی بنائی جاتی کہ ہم نے اس سال تعلیمی شعبہ کے لئے اتنا بجٹ رکھ
دیا ہے۔ہمارے ہاں کے طالبعلم کو میٹرک کے بعد یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ وہ
کون سا شعبہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے سلیکٹ کرے۔آنے والے سالوں میں اس
شعبہ کا کتنا فائدہ ہوگا، مستقبل میں آسانی سے روزگار مل سکے گا یا نہیں
وغیرہ وغیرہ وہ مسائل ہیں جن کا میٹرک کے طالبعلم کو پتہ نہیں ہوتا۔ اسی
طرح اکثریت کے والدین کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہاں
تعلیمی پالیساں بنانے والوں کو چاہیے کہ وہ نصاب کی ترتیب، مکمل آگاہی اور
پاکستانی عوام کے ذہینوں کے مطابق، علاقائی کلچرز، زبانوں کو مدنظر رکھتے
ہوئے تعلیمی نصاب بنائے جو کہ دیر پا ثابت ہو۔ہمارے ہاں کے اساتذہ خود
تعلیمی نصاب کے بارے مکمل آگاہی نہیں رکھتے تو بچارے طالبعلموں کا کیا قصور
ہو گا۔تعلیمی سال شروع ہو جاتا لیکن مارکیٹوں میں بچے اور والدین کو کتابیں
ہی میسر نہیں ہوتی۔اتنی مہنگائی میں غریب بچوں کو تعلیم دلوائے یا ان کو
زندہ رہنے کے لئے کھانے پینے کا بندوبست کرے۔اگر ہمارے حکمران خود خالی پیٹ
ہو کر، ایئر کنڈیشن کمروں سے نکل کر دھوپ میں،بروزگار ہو کر تعلیمی پالیسی
بنائیں تو یہ خود تعلیم حاصل کرنے کی بجائے زندہ رہنے کو ہی
ترجیح دیں گے۔ جہاں ہر پاکستانی بچہ بچہ مقروض ہے ہم کیسے فخر سے کہہ سکتے
کہ ہم خوشحال زندگی بسر کریں گے؟بجلی کی لوڈشیڈنگ نے بجلی کی رہی سہی روشنی
یعنی علم کی شمع کو ہی بجھا کر رکھ دیا ہے نہ دن اور نہ ہی رات کو چین نصیب
ہوتا ہے۔بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے لیپ ٹاپ، سولرانرجی سسٹم دینا اچھی
بات ہے لیکن ہم کیوں بھول جاتے کہ ہمارا ملک مقروض ہے ہم کیوں طالبعلموں پر
یہ پیسے لگا رہے جب ان کے پاس مکمل تعلیمی ماحول ہی نہیں ہو گا وہ کیا کریں
گے ان ساری اشیاءکا؟پہلے پہل کے لوگ بغیر لیپ ٹاپ کے ٹاپ کیا کرتے تھے،
سولر انرجی سسٹم تو کیا بجلی کا نام و نشاں نہیں ہوتا تھا لیکن اس دور میں
بھی لوگ ٹاپ کیا کرتے تھے۔تو ہمیں تعلیمی کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہو
کر طالبعلموں کو بنیادی تعلیمی سہولتیں دینی چاہیں۔حوصلہ افزائی کے نام پر
ہمیں ملک میں سیاست نہ کرنی ہے اور نہ ہی کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔اسی
اسکیموں کی وجہ سے ہی ملک میں سیاسی ڈرامے بنائے جاتے ہیں۔یہی پیسہ ان
سرکاری سکولوں پر لگایا جائے جہاں لیبارٹریوں کی ضرورت ہے، جہاں پنکھوں کی
ضرورت ہے، جہاں پورے سرکاری سکولوں و کالجوں کو جنریٹروں کی ضرورت ہے، جہاں
اساتذہ کو جدید تکنیکی کورسز کروانے کی ضرورت ہے تو ہم اس عوامل اور بہتر
تعلیمی پالیسوں کی وجہ سے تھوڑے عرصہ میں جلد اچھے نتائج حاصل کر سکتے
ہیں۔ہمارے نوجوانوں کے پاس اچھا ذہین، کام کرنے کی صلاحیت ، بہتر تعلیمی
ریکارڈ ہونے کے باوجود بھی وہ نوکری کے سلسلہ میں در در کی خاک چھاننے پر
مجبور ہے ۔ کیونکہ ہماری حکومت نے سرکاری ملازمتوں کا عرصہ ہی اتنا رکھا
ہوا ہے کہ سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ ہونے ہونے تک وہ نوجوان یا تو بوڑھا
ہو جاتا یا اس محکمہ میں آسامی ہی ختم ہو جاتی۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں
ریٹائرمنٹ ہونے تک سیکڑوں نوجوان تعلیم حاصل کر لیتے لیکن روزگار نہ ہونے
کی وجہ سے بے روزگار ی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔اگر حکومت سرکاری نوکریوں
کا دورانیہ کم کر دے تو جب نوجوان اپنی تعلیم حاصل کرے گا اتنی دیر تک
دوسرا بندہ اپنی نوکری پوری کر لے گا جس سے بےروزگار ی میں کمی واقعہ ہو
جائے۔ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہمارے نوجوان نسل کو ٹرانسفر کیا جا رہا کہ
میڈیا پر نت نئے فحاش اشتہارات کی بھر ما ر کی وجہ سے ہمارے نوجوان نسل
اخلاقی طور پر پست ہوتی جا رہی ہے۔حکومت ِ پاکستان کو چاہیے کہ جہاں تعلیمی
پالیساں بہتر بنائے وہاں پر وہ عوامل بھی روکے جو طالبعلم کو تعلیم حاصل
کرنے میں رکاوٹ بنیں۔ہمارا ملک اور اس کی عوام معاشی لحاظ سے کمزور ہیں اور
نت نئے اشتہارات اور فحاشی کی نمودو نمائش طالبعلموں کو اپنی طرف راغب کرتی
جس سے نوجوان اس شے کو حاصل کر نے کے لئے اپنے غریب والدین کو مقروض بنا
دیتے ہیں۔ |