رمضان المبارک

لیجئے جناب ‘الحمداللہ ایک بار پھر ہم ماہ صیام کے استقبال کی تیاری کررہے ہیں اور منتظر ہیں متوقع مہنگائی کے ‘کیوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس اہم دینی موقع پر مسلمانوں کو سہولیات کی فراہمی کے بجائے مہنگائی اور مسائل کے طوفان سے نبرد آزما کرانا ہی اس ملک کی روایت رہی ہے۔

ہر سال حکومت کی جانب سے رمضان المبارک کی آمد سے قبل عوام کو سہولت پہنچانے کے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں جن میں عام آدمی کو سستی اشیائے خوردونوش کی باآسانی دستیابی کی غرض سے یوٹیلٹی اسٹوروں میں سینکڑوں اشیاءکی قیمت کم کرنا اور خصوصی بچت بازار سجانا قابل ذکر ہیں ۔رمضان پیکج کے نام پر بھی ہر بازار اور مارکیٹ میںبظاہر لوگوں کی سہولت کے لئے پرکشش اسٹالز سجائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ماہ رمضان میں مہنگائی کا جن پوری طرح بوتل سے باہر آکر صارفین کا منہ چڑانا شروع کردیتا ہے یوں ماہ مبارکہ عام آدمی کے لئے پریشانی کا باعث بن کر رہ جاتا ہے اور لوگ اس اہم اسلامی مہینے کی میزبانی بجھے دل کے ساتھ کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔

رمضان شروع ہوتے ہی ماحول میں پاگیزگی رچ بس جاتی ہے یوں لگتا ہے کہ ہر طرف نیکیوں کی برسات ہورہی ہو لیکن عملی طور پر ہر شخص موقع کا فائدہ اُٹھانے کے لئے دونوں ہاتھوں سے کمائی کے چکر میں لگاہوا ہوتا ہے۔ہر طرف لوٹ مار اور دروغ گوئی کا بازار گرم ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنا رونا روتا نظر آتا ہے کسی کو غریب عوام کا دکھ نظر نہیں آتا۔

قابل مذمت امر یہ ہے کہ غیرمسلم اپنے تہواروں پر اشیاءکی قیمتوں میں کمی کردیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اُٹھاسکیں لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ہوتاہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہر آنے اور جانے والی حکومت کی عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق ہر معاملے میں بے بسی و بے حسی ہے۔ قیمتوں پر نظررکھنا اورمنافع خوروں کو لگام دینا حکومت کاکام ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت اس معاملے میں اندھی اور بہری ہے چنانچہ جو چاہتاہے‘ جس چیزکی چاہتاہے‘ قیمت بڑھادیتاہے۔

رمضان کی آمد سے قبل ہی روز مرہ کی اشیاءسے لے کر سامان تعیش تک ہر چیز کی قیمتو ں میں گوناں گو اضافہ کردیاجاتا ہے ۔ پرائس کنٹرول کمیٹی کا نام تو خوب زور و شور سے لیا جاتا ہے لیکن عملی میدان میں ایسی کوئی کمیٹی فعال نظر نہیں آتی البتہ ہم نام نہاد کمیٹی کے ممبران کو مختلف ٹی وی شوز میں میزبانوں کے ہمراہ گرانفروشوں پر جرمانے عائد کرتے ہوئے دیکھ پاتے ہیں اور شاید اُن کا کردار اسی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

امسال بھی رمضان کریم شروع ہونے سے پہلے ہی منافع خوروں اورذخیرہ اندوزوں نے حسب روایت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیاہے ۔ رمضان میں پھل‘ بیسن ‘دودھ اوردہی کی طلب بڑھ جاتی ہے اس لئے اُن اشیاءکی قیمتوں میں راتوں رات اضافہ معمول کی بات ہے ۔منافع خور جانتے ہیں کہ قیمت خواہ کتنی بھی کردو‘ معیار کتنا ہی گرا لو لوگوں کی مجبوری ہے انہیں خریداری کرنی ہی ہے۔لہٰذا اپنے مسائل کو حل کرنا ہے تو یہ بھی صارفین کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اشیائے ضروریہ کی فہرست کو جس حد تک ممکن ہو مختصر کریں ۔

حکومت کی جانب سے 18کروڑ صارفین کے لئے قائم ملک بھر میں 6012یوٹیلیٹی اسٹوروں پر کم قیمت پر سامان کی فراہمی کی نوید سناتے ہوئے 2ارب کی سبسیڈی دی ہے جو سال گزشتہ ڈھائی ارب روپے تھی۔ اولاً تو تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے بیشتر شہری ان یوٹیلیٹی اسٹوروں سے فیضیاب ہونے سے قاصر ہیں دوئم جہاں جہاں یہ یوٹیلیٹی اسٹورقائم ہیں وہ بیوہ کی مانگ کی مانند اُجڑے ہوئے ہیں ۔ ان اسٹوروںمیں دستیاب اشیاءانتہائی غیر معیاری ہے اور انہیں بھی غریب عوام قطاریں لگاکر حاصل کرتی ہے۔

رمضان المبارک میں لگائے جانے والے بچت بازاروں میں بھی غیر معیاری اور گھٹیا اشیاءفروخت کی جاتی ہیں اور یہاں بھی طے شدہ نرخ نظر نہیں آتے۔ بیچنے والے پیچھے سے مہنگا آنے کا رونا روتے ہوئے نقصان پر چیز بیچنے کے لئے تیار نظر نہیں آتے اور باقی رہی عوام تو وہ بے چاری منہ مانگے دام دینے پر مجبور نظر آتی ہے۔

ان حالات میں ضروت اس امر کی ہے کہ حکومت مارکیٹ میں اشیاءخورد و نوش پھل و سبزیوں کے ساتھ ٹرانسپورٹ کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے اداروں کو فعال کرے تا کہ عوام کو لوٹ سے نجات مل سکے‘اب جبکہ آغاز رمضان قریب ہے اور مارکیٹ میں اشیاءخورد و نوش کے ساتھ پھل و سبزیوں کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لئے انہیں ذخیرہ کیا جا رہا ہے جس کا مقصد عوام سے من مانی قیمتیں وصول کرنا ہے حکومت کو ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت اقدمات اٹھانے چاہئے تا کہ رمضان کی برکتوں اور رحمتوں سے عام آدمی بھی فائدہ اٹھا سکے۔

علاوہ ازیں اگر صارفین خود منظم ہوجائیں تو بھی صورتحال میں بہتری آسکتی ہے۔ یورپ وامریکا میں صارفین کی ایسی تنظیمیں نہایت فعال کردار ادا کرتے ہوئے قیمتوں کے بلاجواز اضافے کی راہ رکاﺅٹ بن جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسی کچھ تنظیمیں ہیں لیکن فعال نہیں ہیں جب کہ ایسی تنظیموں کو سامنے آکر عوام کو سستی اورمعیاری اشیاءکی فراہمی میں عملی کردار اداکرنا چاہئے۔ صارفین کی تنظیمیں حکومت اور عوام کے درمیان باہم رابطے کی صورت بھی ہوسکتی ہیں۔

Shazia Anwar
About the Author: Shazia Anwar Read More Articles by Shazia Anwar: 201 Articles with 307582 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.