عورت کی زندگی میں سکون کیوں نہیں؟

آج کے دور کی باطل قوتوں نے مسلمان عورتوں کو اپنے جال میں پھنسانے کیلئے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر گھروں سے باہر نہ نکلیں تو معاشرے میں ترقی نہیں ہوسکتی ہوس کے پجاری مردوں نے ہر دور میں استحصال کیا ہے۔ جیسے جیسے خواتین ان کے نعروں‘ منصوبوں اور سازشوں پر عمل پیرا ہونگی اتنی ہی تکالیف و پریشانیاں ان کو اٹھانی پڑیں گی۔ اس بارے میں قرآن و حدیث میں تو اتنا کچھ ہے کہ عقل والوں کو کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں ۔

ہر دور اور دنیا کے ہر مذہب میں جب تک عورت گھر کی چار دیواری میں رہ کر اپنے فرائض بخوبی انجام دیتی رہی معاشرے میں سکون ہی سکون رہا۔ مرد گھر کی ساری ذمہ داریوں کو عورت کے سپرد کرکے اطمینان کے ساتھ باہر کی دنیا میں کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہوتا رہا اور ترقی اس کے قدم چومتی رہی۔ ماں کی شفیق گود میں پروان چڑھ کر بچہ اپنے وطن کا جانباز سپاہی‘ اپنی قوم کا خادم اور اپنے دین و دھرم کا علمبردار اور مجاہد بنا رہا۔

آج کی عورت کیا گل کھلا رہی ہے؟ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید میں اپنے اعلیٰ و ارفع فرائض کو بھول چکی ہے۔ تقریباً ہر دوسری عورت مردوں کی برابری کے چکر میں اپنی بربادی کی طرف رواں دواں ہے۔ بغیر ضرورت کے بھی ہر کالج زدہ تعلیم یافتہ لڑکی کی خواہش جاب ہے جسے وہ موٹی ویشن سمجھ رہی ہے کہ باہر نکل کر کچھ کرنا چاہیے۔ حالانکہ عورت کیلئے ”کچھ کرنے کا“ مقام گھر ہی ہے اور اسی دائرے سے نکل کر وہ متعدد روحانی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتی ہے۔

کمائو عورت کی حالت دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہے لیکن افسوس اسے ہوش نہیں۔ اس کی کمائی سے” معیار زندگی“ ضرور بڑھ گیا ہے لیکن فیملی لائف اور ازدواجی زندگی منتشر ہورہی ہے۔

مشہور مفکر ڈاکٹر الیکسس کیرل اپنی عالمی شہرت یافتہ کتاب "Man The Unknown" میں لکھتا ہے۔
”ہم مغربی لوگ اخلاقی طور پر انتہائی پست سطح پر گرچکے ہیں ہم گھٹیا اور بدقسمت لوگ ہیں“

یورپ اور امریکہ کا نام نہاد مہذب معاشرہ جس نے انسانی تہذیب کو کب کا خیرآباد کہہ دیا اب ایک حیوانی معاشرہ بن چکا ہے۔ جاہلی تہذیب نے ان کو انسانیت کے مقام سے گرا کر پستیوں کی کھائیوں میں دھکیلا ہے اور پھر حیرت یہ ہے کہ وہ اس تہذیب کو جدید تہذیب کہتے ہیں حالانکہ یہ کوئی جدید تہذیب نہیں بلکہ اس تہذیب کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ ابلیس کی ابلیسیت اور شیطانیت کی تاریخ پرانی ہے۔ ۔

کیا کوئی مسلمان ماں یہ تصور کرسکتی ہے کہ وہ بیماری کی حالت میں چارپائی پر پڑی ہو‘ اسے ایک گلاس پانی کی ضرورت پیش آئے.... لیکن اس ”ماں“ کو ایک گلاس پانی دینے والا بھی کوئی نہ ہو۔ یہ بات نہیں کہ گھر میں کوئی نہیں یا اس کی اولاد نہیں.... گھر میں سب ہیں.... اس کے جوان بیٹے‘ اس کی بیٹیاں لیکن آزاد زندگی گزارنے والے.... ہم آزاد ہیں جو چاہے کریں کے نعرے لگانے والے.... ہر ایک کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق ہے جیسے نظریے کے علمبردار.... اپنے اپنے کمروں میں.... اپنی ذاتی مصروفیات میں مست.... شخصی زندگی جینے میں مدہوش ہیں.... اور ماں کو ایک گلاس پانی دینے کی کسی کو فرصت نہیں ماں بیماری کی حالت میں کس کو پکارے.... کوئی نہیں۔

لیکن اس ماں کو کسی سے گلہ شکوہ کرنے کا کیا حق ہے؟ سب سے پہلے اسے اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے بچوں کی تربیت پر کتنا وقت خرچ کیا؟ کیا بچے اس کے سکھائے ہوئے اصول‘ اخلاق کی تعلیم اسکرین اور کمپیوٹر پر گیم کھیلتے گزر گیا؟ اس کو اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ اس کی اولاد کی تربیت میں اس کا ہاتھ زیادہ ہے یا ان اجنبی عورتوں کا جو ٹی وی کی سکرین پر آکر ان کے بچوں کو حیوانیت کا درس دیتی رہیں اور جاہلی تہذہب کی طرف لے جاتی رہیں؟ پھر اس ماں کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جس وقت معصوم بچے کا معصوم ذہن ٹی وی پر دکھائی جانے والی گندگی اور غلاظت میں لت پت ہورہا تھا اس وقت یہ ماں کہاں تھی؟

ایسی ماں جس نے اپنی ذمہ داری کا احساس ہی نہ کیا بلکہ اپنے بچوںکو ٹی وی پر آنے والی عورتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جن کی تمام تربیت کا خلاصہ یہ تھا کہ زندگی صرف اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا نام ہے۔ اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کا‘ اس زندگی کو رنگین بنانے اور جو دل چاہے بغیر کسی روک ٹوک کے اس کو کرگزرنے کا نام ہی زندگی ہے۔ رشتے ناطے‘ پیار‘ محبت‘ماں باپ‘ بھائی بہن یہ سب وقت کا ضیاع ہے جس میں پرانے لوگوں نے خود کو پھنسائے رکھا۔ یہ نیا دور ہے.... آزادی کا دور.... روشن خیالی کا دور.... خواہشات کو پروان چڑھانے کا دور....

یقینا ایسے خیال ہی سے مشرق کی مائیں کانپ اٹھیں گی۔ اس وقت اگرباطل کی دن رات کی محنتوں اور اور نت نئے منصوبوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عورتوں کے استحصال پر قوتیں صرف کی جارہی ہیں تاکہ مسلمان معاشرے کی بنیاد اور ابتدا ہی سے بیخ کنی کی جاسکے۔

آج کی مائوں بہنوں نے اگر اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کیا تو موجودہ مغربی تہذیب کے دگرگوں حالات آپ سے بہت دور نہیں بلکہ آپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں بلکہ اگر کہا جائے کہ گھروں میں داخل ہورہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ دشمن جس کے خلاف یلغار کرے وہی اس کو اچھی طرح سے روک سکتا ہے اور مقابلہ کرسکتا ہے۔

ضروری تو نہیں کہ اپنا کردار ادا کرنے کیلئے مغربی تہذیب میں ڈوبا جائے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ مغرب کے طرز پر چل کر ان کی نقل کرکے ان کا مقابلہ کرسکیں جبکہ اللہ نے آپ کو ان سے زیادہ عزت والا بنایا ہے۔ بقول اقبال
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

بشکریہ عبقری میگزین

Jaleel Ahmed
About the Author: Jaleel Ahmed Read More Articles by Jaleel Ahmed: 383 Articles with 1218219 views Mien aik baat clear karna chahta hoon k mery zeyata tar article Ubqari.org se hoty hain mera Ubqari se koi barayrast koi taluk nahi. Ubqari se baray r.. View More