پریس کارڈ کی طاقت

حسن کو شروع دن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا زمانہ طالب علمی میں سکول ،کالج اور یونیورسٹی کے میگزین میں مختلف قومی و بین الاقوامی معاملات پر اپنا تجزیہ قارئین تک پہنچاتا رہا تھااور ہمیشہ ہی قلم کی طاقت کو پیسے کی طاقت پر فوقیت دیتا رہا، کیونکہ حسن ایک کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا شہر صوبائی دارالخلافہ اور دارالحکومت سے میلوں دور تھا تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے لاہور یا اسلام آباد جا کر میڈیاکے آفس میں کام کرنے کی بجائے اپنے علاقے کے مسائل عوام تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنے فیملی کاروبار کو ترقی دینے کا سوچا۔

اسے یقین تھا کہ پاکستان میں اب پیسے کو قابلیت پر فوقیت حاصل ہوچکی ہے۔ میڈیا کی کوششوں سے اب سیاسی جماعتوں نے اپنے عہدیداروں میں نوجوان ۔۔تعلیم یافتہ۔۔غریب گھرانوں کو بھی جگہ دینا شروع کردی تھی۔ مگر حسن کوکیا معلوم تھا؟ سیاسی جماعتوں میں شعور لانے کے بعدمیڈیا میں باشعوری کی فصل ترقی کرجائے گئی؟

کسی بھی میڈیا گروپ میں نمائندگی کیلئے درخواست دو۔ وہ تعلیمی و پیشہ وارانہ قابلیت کی بجائے پیسے کو ترجیح دیتے ، جس کی بدولت سرمایہ دار۔۔سیاست دان۔۔ جرائم پیشہ افراد چیک کے مدد سے با آسانی میڈیا گروپ کی نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے اور پریس کلبوں میں اپنی آمریت قائم کرنے میں بھی ، اور ورکنگ صحافیوں پر ممبر شپ کی پابندی عائد کردینے میں بھی۔ عوامی رائے کے سروے کے مطابق اکثرشہروں میں موجود نیوز رائیٹر پریس کلبوں کی ممبرشپ سے محروم کردیے جاتے ہےںجبکہ پریس کلب کے ممبر خبروں کے حصول کیلئے ان پر انحصار کرتے نظر آتے ہیں۔

دنیا میں ہمیشہ ہی قابل افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہی ہے جس کی بدولت تعلیم یافتہ ۔۔ایماندار ۔۔فی سبیل اللہ کام کرنے والے صحافیوں کو آجکل کوئی میڈیا گروپ نمائندگی نہیں دیتا اور پریس کارڈکے بغیرصحافی پاکستان میں کوئی صحافتی سرگرمیاں ادا نہیں کرسکتا؟

پوری دنیا میں میڈیا کو ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے، اور یہی ستون باقی ستونوں کے احتساب کا کام کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں صحافی حضرات کو اپنے فرائض سرانجام دینے کیلئے مکمل آزادی ہوتی ہے ۔ اور صدرو وزیروں کے کارنامے بغیر خوف ۔۔ڈر کے عوام تک پہنچا سکتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اگر کوئی صحافی اپنے فرائض کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بے بنیاد۔۔جھوٹے الزامات لگاتا ہے تو اسے سزاکا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں صحافی پولیس انفارمیشن کی بجائے حقیقی حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

مشرف دور میں پاکستانی میڈیا نے جس تیزی سے ترقی کی اس تیزی سے تو امریکی ڈالر بھی ترقی نہ کرسکا ہوگا؟ پاکستان میں اس وقت لاکھوں نیوز پیپر رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ اور ہر گروپ نے کارڈ فار سیل کا بورڈلگا یا ہوا ہے۔ پیسے دو اور پریس کارڈحاصل کرلو اور پھر باآسانی پر یس کلب کی ممبرشپ بھی، پھر چاہیے آپ منشیات کا کاروبار کرو۔۔ مضرصحت اشیاءکا کاروبار انتظامیہ آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتی۔ کیونکہ آپ کے پاس پریس کارڈ جو ہے-

قارئین اگر مسلم لیگ کی حکومت نے میڈیا کی کارکردگی کو درست نہ کیا تو جلد پاکستان سے ورکنگ صحافیوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور صرف اورصرف انتظامیہ کے ٹاﺅٹوںاورجرائم پیشہ افراد ہی صحافت میں نظر آیا کریں گئے۔ اور جب ریاست کا چوتھا ستون ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا تو بیرونی میڈیا باآسانی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرسکے گا۔

بیشک صحافی معاشرے کی آنکھ کا درجہ رکھتے ہیں اورعوامی رائے کو عوام تک پہنچانے کا کام سرانجام دیتے ہیں اگر اندھے صحافی ہی میدان میں رہ جائیں گے تو پھر صرف اور صرف اندھیرا ہی عوام تک منتقل ہو گاپوری دنیا میں صحافیوں کے لیئے پریس کلب موجود ہیں جہاں پر جا کر سائل اپنا مسئلہ باآسانی اعلی حکام تک پہنچاتے ہیں جس کی بدولت حکومت وقت اپنے شہریوں کے مسائل کے حل کے لئے اقدامات جاری کر تی ہے اور جن علاقوں میں پریس کلب موجود نہیں ہوتا وہاں کے مسائل بمشکل ہی لوکل انتظامیہ تک پہنچتے ہیں جس کی بدولت عوام میں بغاوت اور نفرت کا عنصر جنم لینے لگتا ہے جو کسی بھی حکومت وقت کے لیئے نقصان دہ ہو سکتا ہے -

راقم میڈیا گروپس کے مالکان ۔۔پریس کلبوں سے درخواست ہے کہ جلد ازجلد میڈیا کیلئے پالیسی سازی کریں اور صحافیوں کیلئے باقاعدہ تعلیم کا ہونا ضروری قرار دےں تاکہ انگوٹھا چھاپ صحافیوں کا خاتمہ ہو سکے اور اعلی تعلیم اور ریسرچ ذہن کے حامل صحافی میدان میں آسکیں اور مہربانی فرما کر پریس کارڈ کی بجائے صحافتی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہو ئے پریس کلب کی ممبر شپ کا رڈ کااجراکیا جائے۔ اور راقم وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلی پنجاب سے درخواست کرتا ہے کہ پورے پاکستان میں تحصیل لیول پر پریس کلبوں کی تعمیر عمل میں لائے اور ممکن ہو سکے تو لکھاری برادری کی اصلاح کے لئے بھی ضلعی سطح پر کو ئی ادبی بیٹھک کا اہتمام کر ے تاکہ ملک کا چوتھا ستون بھی مضبوطی کھڑا رہے۔

میری اﷲ سے دعا ہے کہ پاکستان کے میڈیا کو بھی امریکہ، برطانیہ ودیگر ترقی یافتہ ممالک کے میڈیا کی طرح کام کرنے کی توفیق عطا فرما (امین) -

Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 81359 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.