دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں مسلم خواتین کو جس طرح سے اپنے
مکروہ عزائم میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ مذموم اور نجس ہاتھ جس طرح
خواتین کو آلہ کار بنا کر اپنے غلط مقاصد میں استعمال کر رہے ہیں جس کا اثر
ہم اپنی میڈیا ، اپنے تعلیمی اداروں اور مختلف دفتروں، درسگاہوں اور یہاں
تک کہ اسپتال، غرضیکہ کوئی بھی مقام، کوئی بھی ادارہ اب محفوظ نہیں رہا ہے۔
اور ہمارے ہاں کی عورت جو خود کو ماڈرن ظاہر کرنے کے لئے جان توڑ کوشش کر
رہی ہے۔ ایسے مقام پر آ کر عورت نے خود کو کھلونا بنا دیا ہے اور وہ خود کو
بولڈ اور براڈ مائنڈڈ بھی کہتی ہے۔ اور دوسری طرف مسلمان عورت ہونے کے ناطے
اپنے حقوق کا مطالبہ بھی کرتی ہے۔ خود کو پیروِ حضرت زہرا سلام اللہ علیہ
ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اور عالم یہ ہے کہ خود فراموشی کے عالم میں زیورِ
خاتون جنت یعنی بہترین اخلاق اور تربیت ِ اولاد سے خود کو مستثنیٰ کئے بس
آگے، اور آگے بڑھنے کی دُھن میں مصروف ہیں۔
سب سے بڑی مثال ہمارا میڈیا، کسی بھی قوم کی اخلاقی اقدار اور غیرت و حمیت
و حیا کا اندازہ اس کے ہاں کی میڈیا اس سے منسلک خواتین کا کردار ہوتا ہے
جو کہ افسوس کے ساتھ ہمارے یہاں مفقود ہے۔ ٹی وی چینلز کو دیکھ کر جس قدر
غم و غصّہ سے خون کے گھونٹ پیئے جائیں کم ہیں۔ عورت نے خود کو تماشا اور
کھلونا بنا کر پیش کیا ہے۔
اس کے بعد آپ درسگاہوں اور تعلیمی اداروں کی مثال لے لیجئے کہ وہ عورت کہ
جس کے کردار کو نمونۂ عمل بن کر پیش ہونا چاہئے اور وہ معلوم ہوتا ہے کہ
کسی فیشن شو میں شرکت کرنے آئی ہے۔ تعلیمی اداروں کے منتظم کی ڈیمانڈسے
کہیں بھی یہ محسوس نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ تعلیم جیسے متبرّک کام کو عام
کر رہے ہیں۔
انسانی فطرت میں موجود ہے اور اس کی طبیعت سے مربوط ہے کہ وہ اپنی پسندیدہ
چیزوں کی حفاظت کرتا ہے ان کو ہر شخص کی نظر بد سے محفوظ رکھتا ہے۔ چونکہ
اگر خوبصورت، حسین اور نادر و نایاب چیزوں کو شوکیس میں سجا دیا جائے تو وہ
دیکھنے والی آنکھ کی دلدادہ تو ضرور ہوتی ہیں مگر وہ اپنی قدر و منزلت کھو
دیتی ہیں۔ پھر اس طرح جو شخص جس طرح چاہے ان سے استفادہ کرتا ہے۔
اگر عورت اپنے مقام و منزلت کو سمجھ لے اور جان لے کہ اس کا مقام اس کا
رتبہ ان لغویات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے تو وہ بہت جلد اس معاشرے کی صحت
یابی کے لئے قدم اٹھا سکتی ہے۔
جب عورتیں بہترین آرائش و زیبائش کے ساتھ بے حجاب حالت میں جلوہ گر ہو گی
تو یہ نہ ہی صرف اپنے لئے خرابی پیدا کریں گی بلکہ اپنے علاوہ دوسری آنے
والی نسلوں کو برباد کر دیں گی۔ اور معاشرے میں فساد کا سبب بنتی ہیں۔
ایک ایسی عورت کہ جو خود اپنی قدر و قیمت و منزلت سے آگاہ نہ ہو وہ بھلا
کیا ایک نسل کی تربیت کر سکے گی ؟؟؟؟؟؟
کسی بھی معاشرے کی اس سے بڑی مفلسی کیا ہو گی کہ وہاں کے لوگ بہترین تربیت
اور قوانین و اصول سے محروم ہوں۔ اور یہ سب جب ہی ممکن ہے کہ جب خواتین
اپنی زندگی کے اصول مرتب کریں اور وہ جو ان کے فرائض ہیں ان کو سمجھنے اور
بجا آوری کرنے کے لئے خود کو آمادہ کریں۔
خدا تعالیٰ نے عورت کو ایک بہت ہی حساس مخلوق پیدا کیا ہے۔ اور نہایت ہی
حساس اور لطیف احساسات سے اس کے وجود کو مزین کیا ہے۔ عورت بہت باہمت ہوتی
ہے اور بلند و بالا مقام پہ فائز ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ناقابل ِ انکار ہے کہ
انتہائی صبر آزما مراحل اور دشوار گزار مراحل سے گزر کر ایک نسل کو تربیت
دیتی ہے۔ مگر اپنے مقام و مرتبے کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے اس کو مصرف کرنا
نہیں جانتی ہے۔ چونکہ وہ اپنی قیمت کا اندازہ نہیں کر سکتی ہے۔ جب تک اصولی
طور پر عورت خود ان آداب و خصائل سے تربیت کے ابتدائی اصولوں سے واقف نہ ہو
اور عورت کی تربیت کو احسن طریقے سے انجام دے سکے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کا کردار و سیرت جو یہاں مومن خواتین کی
خدمت میں عرض کرتی چلوں، اسلام نے عورت کو بہت اعلیٰ اور بہترین مقام پر
فائز کیا ہے، اور اس کی یہ قدر و منزلت ہرگز کم نہیں کی جا سکتی ہے اسلام
نے خواتین کے لئے کچھ قوانین لاگو کئے ہیں جو اس گوہر نایاب کی حفاظت کے
لئے مرتب کئے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ ایران، لبنان و فلسطین کی خواتین کا کردار دیکھئے !!!!
ان تمام ممالک کی خواتین نے ملت کو شہید دیئے ہیں۔ اور ایک بہترین تربیت
یافتہ عورت ہی ملت کو شہید دے سکتی ہے۔
آخر میں میری درخواست ہے اپنی بہنوں، عزیزوں اور دوستوں سے کہ وہ اپنے مقام
و منزلت سے ہٹ کر نہ سوچیں نہ کوئی ایسا قدم اٹھائیں جو انہیں قرع ذلت میں
گرا دے۔ اور پھر وہ ساری زندگی اس میں رہنے پر مجبور ہو جائیں۔ |