جیل اور اطلاعات

 اس وقت ملک کے سبھی محکموں کی کارکردگی ناقابل بیان حد تک خراب ہو چکی ہے اور نظام زر کی وجہ سے کوئی بھی محکمہ ایسا نہیں ہے جہاں پر ایک عام پاکستانی آکر اطمینان محسوس کرتا ہوں جبکہ کچھ محکمے ایسے ہیں جہاں پر کرپشن ملازمین کی ہڈیوں میں سرایت کرچکی ہے اور ان کے نزدیک انسانیت کی توہین ہی انکا فرض منصبی رہ گیا ہے اورایسے حالات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان بگڑے ہوئے محکموں کو ٹھیک کرنا کسی کے بس کی بات نہیں اگر دیکھا جائے تو اس وقت محکمہ جیل خانہ جات کرپشن کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آئے گا کہ جسکے ملازمین نے اپنے وزیر کو بھی معاف نہیں کیا اور ان سے جیل میں رشوت لے لی ابھی کل ہی کی بات ہے کہ پنجاب کے صوبائی وزیر جیل خانہ جات عبدالوحید چوہدری جب عام شہری کے روپ میں جیل میں کسی کی ملاقات کے بہانے گئے تو پولیس اہلکاروں نے انہیں بھی معافی نہ دی میں نے متعدد بار جیلوں کی صورتحال پر لکھا کہ اس وقت پنجاب کی کوئی جیل ایسی نہیں جہاں کرپشن اور ٹھیکہ داری سسٹم کا راج نہ ہویہاں پر ایک عام وارڈر سے لیکر سپرنٹنڈنٹ اور ڈی آئی جی تک اس نظام کا باقاعدہ حصہ بنے ہوئے ہیں آپ باقی سب جیلوں کو ایک مرتبہ بھول کر صرف ڈسٹرکٹ جیل لاہور کو سامنے رکھ کر زرا سوچیے کہ خادم اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کا دفتر اس جیل سے صرف 4منٹ کی مسافت پر،سپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال کا دفتر اس جیل سے صرف 4منٹ کی مسافت پر ،وزیر جیل خانہ جات کا دفتر اس جیل سے صرف 5منٹ کی مسافت پر ،چیف سیکریٹری اورہوم سیکریٹری کادفتر اس جیل سے صرف 5منٹ کی مسافت پر، آئی جیل جیل خانہ جات کا دفتر اس جیل سے صرف 3منٹ کی پیدل مسافت پر،ڈی آئی جی جیل خانہ جات کا دفتر اس جیل سے صرف 2منٹ کی پیدل مسافت پر ہونے کے باوجود یہ جیل کرپشن کا جیتا جاگتا سرچشمہ اور ایک مثالی نمونہ ہوتو اس سے آپ پنجاب کی باقی جیلوں کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہاں پر نہ کوئی افسر قریب ہے اور نہ ہے وزیر اعلی اور کوئی وزیر ہے اس وقت پنجاب کی تمام جیلیں کمائی کا بہترین زریعہ بنی ہوئی ہیں اور پوری کی پوری جیل ملازمین نے ٹھیکہ پر سنبھالی ہوئی ہے جو خود بھی پیسہ کما رہے ہیں اور آگے بھی نوٹوں کے ڈھیر لگا کر سب کے منہ کو تالے لگارہے ہیں من پسند ڈیوٹیوں کے من پسند ریٹ مقرر کیے ہوئے ہیں پنجاب کی اکثر جیلوں میں ایک ہی ڈیوٹی پرعرصہ دراز سے تعینات ملازمین افسران کے لیے سونے کی چڑیا بن چکے ہیں جن کے بل بوتے پر ایک چھوٹی سی جیل کا سپرنٹنڈنٹ کروڑوں روپے کما چکا ہے اب اگر ان کرپٹ افسران کے خلاف کوئی کاروائی ہوتی بھی ہے تو انہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ انہوں نے اتنا کما لیا ہے کہ انکی نسلیں بھی آرام سے زندگی گذار سکتی ہیں ۔

پنجاب کی جیلیں اس وقت مثالی کرپشن کا نظارہ پیش کررہی ہے جہاں پر ملازمین کے روپ میں فرعون براجمان ہیں جن کا کام آنے والی عوام کو ذلیل ورسوا کرکے پیسے بٹورنا ہے جیل کااحاطہ شروع ہوتے ہی ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ پاکستان کا علاقہ نہیں اور نہ ہی یہاں کے ملازمین پاکستانی ہیں ان کے لہجے میں خنجر کی کاٹ اور انکے رویوں میں کھردرا پن اور انکی نظروں کا لالچ اس بات کی کی کھلے عام غمازی کررہا ہوتا ہے کہ اگر انہیں کچھ نہ ڈالا گیا تو پھر یہ آپ کو کاٹ بھی سکتے ہیں بعض جیلوں کے ڈپٹی اس حد تک اپنا کمینہ پن دکھاتے ہیں کہ جیل کے اندر قیدیوں سے اپنے موبائل فون پر بیلنس کرواتے رہتے ہیں اور اگر انکی کو سدھارنے کی کوئی کوشش کرتا ہے تو پھر ایک مافیا اسکے پیچھے پرجاتا ہے اور بلاآخر اپنی جان اور عزت کسے پیاری نہیں ہوتی اسی طرح کی ایک کوشش موجودہ آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر نے اس وقت کی تھی جب وہ سپرنٹنڈنٹ سنٹرل ساہیوال جیل تھے مگر اس کوشش کے بعد جو سلوک ان کے ساتھ ہوا لگتا ہے کہ اس کے بعد انہوں نے بھی جیلوں کے نظام کو اسی کے حال پر چھوڑ دیا مگر اسکے باوجود وہ اس نظام کی اصلاح میں لگے رہتے ہیں ابھی عبدالوحید چوہدری نے جو کوششیں شروع کی ہیں امید ہے کہ وہ بھی بہت جلد ختم ہوجائیں گی کیونکہ ایک ادارہ یا ایک فرد خراب ہو تو اسکی کوئی نہ کوئی اصلاح کی صورتحال نکل ہی آتی ہے مگر یہاں پر تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے کون کس محکمے کو ٹھیک کرے گا یہاں پر تو وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی سرپرستی میں چلنے والا محکمہ تعلقات عامہ پورے کا پورا ڈوبنے والا ہے یہ وہ محکمہ ہے جہاں سے خبروں کے زریعے حکومت کے اچھے اقدامات کو عوام تک پہنچایا جاتا ہے مگر اس محکمے کا بیڑہ غرق کرنے والے کوئی اور نہیں اسی محکمے کے کاہل ،نکمے اور کم چور افسران ہیں جو اسکی تباہی کے ذمہ دار ہیں یہ محکمہ براہ راست وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے ماتحت کام کرتا ہے اور جو محکمہ خادم اعلی کی سرپرستی میں ڈوب رہا ہوتو اسکے بعد باقی محکموں کا پرسان حال کون ہوگا ۔اب آپ ذرا موجودہ سیکریٹری اطلاعات کی کارکردگی بھی ملاحظہ فرمائیں کہ حکومت پنجاب مختلف ادبی اور ثقافتی تنظیموں کو کام جاری رکھنے کے لیے سالانہ گرانٹ سیکرٹری انفارمیشن اینڈ کلچر کی وساطت سے جاری کرتی ہے جن میںمجلس ترقی ادب‘ اقبال اکیڈمی‘ادارہ ثقافت اسلامیہ‘ پنجابی ادبی بورڈ اور ایسی ہی باوقار تنظیمیں بھی شامل ہیں موجودہ سیکرٹری انفارمیشن اینڈ کلچر امجد بھٹی جن کے پاس ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کا چارج بھی ہے نے ادبی اور ثقافتی تنظیموں کو گرانٹ دینے کے لیے محکمانہ میٹنگ ہی نہیں کروائی جبکہ 21 تنظیموں کی طرف سے گرانٹ کی درخواستیں ان کے پاس موجود ہیں جبکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ گرانٹ دینے کے لیے محکمے کے پاس 63 لاکھ روپے موجود ہیں جو اب لیپس(lapse) ہو جائے گی -

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 801 Articles with 524525 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.