میں دن بہ دن سگریٹ نوشی کرنے والوں کودیکھ کربہت زیادہ
ڈپریشن میں مبتلا ہو چکی ہوں۔مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے۔ کہ ہم خود کو تباہ
کرنے خود چل پڑے ہیں۔یہ صحیح نہیں۔اخر کیوں آج ہم ان راہوں پر ہموار ہوتے
جا رہے ہیں۔جو ہمارے لیےٹوٹلی غلط ہیں ۔مسئلوں کا حل نشہ آور مصنوعات میں
نہیں ہیں۔ بلکہ رب کے حضور جھکنے،اُس کے سجدوں میں اور قرآن کی تعلیمات میں
مخفی ہیں۔جو دلوں کا سکون پا لیتے ہیں۔اُنھیں دنیا کا کوئی نشہ مزا نہیں
دیتا۔سگریٹ نوشی کرنے والے مجھے اس کا کوئی ایکیک فائدہ تو بتائے تاکہ میں
بھی اس کا ایک کش لے کر دیکھوں۔لیکن نہیں اس کا کوئی ایک بھی فائدہ نہیں ہے
سوائے نقصان کے۔ کیوں کرتے ہوں میرے ہم وطنوں یہ سگریٹ نوشی ،شیشہ پینا
پلانا
its not our culture its not our us........ i am paskitaniz and i hve a
beautiful religion
خاص طور پر نوجوان طالب علم کو سگریٹ نوشی ، شیشہ پیتے پلاتے دیکھ کر
آنکھیں نم ہوتی ہے۔ کہ آخر کیا وجہ ہے جو نوجوان اس لت میں پڑتے جا رہے ہیں۔
ایک طالب ہونے کے باوجود با شعور ہونے کے باوجود۔۔۔۔۔۔۔
آج سگریٹ نوشی۔چوری اچکا،ڈکیتی،ہیراپھیرئ،معاشی برائیاں اور نشہ کرنے والی
مصنوعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔آج کی (پود)جنریشن سگریٹ نوشی ،شیشہ
پینا پلانے کوفیشن کے زمرے میں لیتی ہیں
اور اس سے بھرپور لُطف اُٹھاتے ہیں۔یہ کیسی تفریح ہے جو ہمیں جسمانی طور پر
نقصان پینچانے کےسوا کچھ بھی نہیں ہیں،ہم بعض اوقات اسے مذاق مذاق میں
اسٹارٹ تو کر لیتے ہیں لیکن مذاق مذاق میں اس سے چھٹکارا پانا بڑا مشکل
لگتا ہے۔سگریٹ نوشی کرنے والے اس کا کوئی ایک فائدہ تو مجھے بتائے یہ ٹوٹلی
نقصان دہ ہوتی ہے-
اس کے دھوئیں سے دوسرے بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور اس کے دھوئیں سے کئی
طرح کی بیماریاں لگنے کا موجب بھی بنتے ہیں۔
میری سمجھ مین نہیں آتا آج گنگا اُلٹی کیوں بہہ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں ہم کل معاشی بُرائیوں اور نشہ آور چیزوں سے اجتناب کرتے آرہے تھے اب
اسکو اپنی تفریح کا سامان بنائے بیٹھے ہیں؟آجر کیوں۔۔۔۔۔۔۔
ہم مزید اپنے ملک میں معاشی بُرائیاں جنم دینے میں کیوں لگ گئے ہیں کیا
ادوار اس کا موجب بنے ۔۔۔
بس یہیں سے پتا چلتا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر کتنے عمل پیرا ہیں۔ہمارا
دین ہمیں صرف قرآن شریف کی تلاوت کا اذن ہی نہیں دیتا بلکہ اسکے اندر ہمارے
لئے جو ضابطہ حیات تخلیق کیا گیا پے اسکو سمجھنے اور اسکے حساب سے زندگی
گزارنے کا حکم دیتا ہے۔ لوگ تقریریں تو زوروشور سے کرتے ہیں مگر جہاں عمل
کا معاملہ آتا ہے تو ہم زیروں پر کھڑے نظر آتے ہیں۔معاشرے سے مساوات کا
خاتمہ ہو گیا ہے-
اسی لیے جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہاہے۔ ہم جیسا اپنے لیے سوچتے ہیں،
ویسا دوسروں کے لیے کیوں نہیں سوچتے؟ چلو دوسروں کے لیےہم ویسا نہ کر سکیں
مگر اپنی استطاعت کے (مطابق)حساب سےتو کچھ کر سکتے ہیں نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرے میں فرسودہ روایات کی داغ بیل تو ڈال دی گئی ہے کئی گھروں میں
لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بیٹھی ہیں تو کوئی اپنے بچوں کی شادیوں پر
پیسہ پانی کی طرح بہا رہا ہےصرف شادی بیاہ کی سجاوٹ پر امیر لاکھوں روپے کے
پیکجز اندھا دھند ضائع کر رہا ہے۔جہاں لا کھوں روپے خرچ کر ہو رہے ہیں۔ تو
وہاں غریب کی بیٹی جہیز نا ہونے کی وجہ سے بیٹھی ہے کتنا تضاد۔۔۔۔
غیر اسلامی تہوار بڑی دھوم دھاپ سے بنائے جاتے ہیں اور تقرہبات میں دل کھول
کے پکوانوں کا ضیاع کیا جاتاہے۔تو دوسری طرف کہیں غریب ایک وقت کی پیٹ بھر
کر روٹی کھانے کے لیے ترستا ہے۔ایسے میں جب کوئی سر پھرا چوری چکاری یا
بٹوا چھیننے پر اتر آتا ہے تو اسے سب مل کر برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔میں
مجرموں کی حمایت نہیں کر رہی بلکہ میرا موقف یہ ہے کہ جرم کرنے کی وجوہات
کا سدباب ہونا چاہیے یا ہمیں کرنا چاہیے، تو مجرم بننا ختم ہوجائیں گے ۔ہر
ایک عادی یا پیدائشی مجرم نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات وقت ،حالات اور اسکے
اردگرد رہنے والوں کی بے حسی اُسے اس راہ پر گامزن کر دیتی ہے اور ہو سکتا
ہے کہ یہ اسکا پہلا جرم ہو،ایک اچھا عمل جرم کی دنیا میں پڑنے والے اسکے
پہلے قدم کو روک دے- |