اتراکھنڈ میں سانحہ در سانحہ

اتراکھنڈ کے دشوارگزار پہاڑی علاقوں میں 17جون کی صبح تباہی کا جو ہولناک واقعہ پیش آیا اس کو قہر خداوندی لکھتے ہوئے کلیجہ کانپتا ہے۔ اس خطے میں ہزاروں مندر ہیں، انہی مندروں کی وجہ اس خطے کو ’دیوبھومی‘ یعنی دیوتاﺅں کی بھومی بھی کہا جاتا ہے ،مگر خاص مندر چارہیں۔ سب سے اہم اور قدیم کیدارناتھ مندرہے جو مندانکنی دریا کے کنارے ہے۔ اس میں شِو کی پوجا ہوتی ہے۔ دوسرا بدری ناتھ ہے جس کے دیوتا وشنو ہیں ۔ دریائے گنگا کے منبع پر گنگوتری مندرہے جو گنگا دیوی کو مخصوص ہے اور جمنا کے منبع پر جمنوتری ہے جو جمنا دیوی کے نام ہے۔ایک زمانہ وہ تھا جب دنیا و مافہیا سے بے نیاز جوگی اور سادھولوگ عبادت وریاضت کے لئے یہاں آتے۔ زمانہ بدلا ، راستے بنے تو ملک بھر سے بڑی تعداد میں عقیدت مند ’چار دھام ‘کی یاتراکرنے یہاں آنے لگے۔ اسی خطے میں ایک گرودوارہ ’ہیم کنڈصاحب‘ بھی ہے جہاں دسویں سکھ گرو نے ریاضت کی تھی۔ صرف گرمیوں میں اس کا راستہ کھلتا ہے اور سکھوں کی اہم زیارت گاہ ہے۔

یہ خطہ ہمالیہ کی گود میں ہے اور برف پوش پہاڑیوں کا نظارہ خصوصاً طلوع اور غروف آفتاب کے وقت بڑا ہی پرکشش ہوتا ہے ۔ کچھ پہاڑیاں ایسی بھی ہیںجن پر شائقین کوہ پیمائی کرتے ہیں۔ گویا یہ مذہبی اور تفریحی دونوں طرح کی سیاحتوں کا خطہ ہے۔گرمیوں میںبھی ٹھنڈا رہتا ہے اور خوب ہرابھرا ہے ۔چنانچہ مئی جون میںآنے والوں کاہجوم خوب ہوتا۔ وسط جون میں سیاحوں کی آمد شباب پرہوتی ہے چنانچہ 17 جون کو جب یہ قہر آسمانی نازل ہوا، ایک لاکھ سے زیادہ یاتری اس خطے میں موجود تھے۔

سیاحت ہی یہاں باشندوں کی آمدنی کا خاص زریعہ ہے۔ بڑی تعداد میں ہوٹل اورموٹل بن گئے ہیں۔لوگ اپنے گھروں کو مہمان خانوں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ دوردور تک دھابے، ہوٹل چائے خانے بن گئے ہیں، بازار سج گئے ہیں اور خوب کمائی ہوتی ہے۔ خچر پر یاتریوںکو لانے لیجانے کا معاوضہ ہزاروں میں وصول کیا جاتا ہے۔ ایک نجی ہیلی کاپٹر سروس بھی کامیابی سے چل رہی تھی۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھئے اور دیکھئے یہ جو تباہی آئی ہے اس کامطلب کیا ہے؟

اس خطے میں مانسون کے پورے موسم میں اوسطاً 5.6 سینٹی میٹربارش ہوتی ہے برسات کا موسم جون کے آخر میں شروع میں ہوتا ہے۔ وسط جون میں ہلکی پھلکی بارش کا تو امکان رہتا ہے مگر ایسی بارش کہ چندگھنٹوں تقریباً 34 سنٹی میٹر پانی گرگیاجو پورے سال کی کل بارش سے چھ گنازیادہ ہے، تصور سے باہر ہے۔17جون کو علی الصبح بلند پہاڑیوں سے یخ بستہ پانی کا جو ریلہ آیا وہ اپنے ساتھ ہزاروں ٹن مٹی اورپتھر بھی بہا لایا۔ بعض پتھر تو کار کے سائز سے بھی بڑے تھے اور پانی کے آگے اس طرح بہہ رہے تھے جیسے پتھر نہ ہوں، روئی کے گالے ہوں۔ ساتھ برف کے بڑے بڑے تودے بھی تھے جو گلیشیر کے پھٹ پڑنے سے بہہ نکلے تھے۔پانی کی تیز رفتار ی نے دیکھتے ہی دیکھتے دریاﺅں کے کناروں کو کاٹ دیا اور سمنٹ کنکریٹ سے تعمیر کم سے کم365 کثیر منزلہ عمارتوں کو یوںلڑھکاکر پانی میں بہادیا جیسے گارے مٹی کے بنے ہوں ۔ہزاروں مکان ناقابل رہائش ہوگئے۔ نیچے کی منزلیں تقریبا پوری کیچڑ سے بھر گئیں۔پارکنگ میں کھڑی ہوئی کاریں اور بسیں اس طرح دریا میںبہتی ہوئی دکھائی دیں گویا کاغذکے کھلونے ہوں۔
 

image
تصویر: گنیش پور گاﺅں کی پشپا چوہان اپنی ہم جولی سماجی کارکن کے ساتھ بائک پر سیلاب متاثرین کے لنگر کے لئے آلو لیجاتے ہوئے۔

پانی کا یہ ریلہ دریائے مندانکنی کی گہری وادی میں جدھر سے بھی گزرا تباہی مچاتا ہوا گزرا اور اپنے پیچھے ملبے کی سات آٹھ فٹ موٹی تہہ چھوڑ گیا۔کیدارناتھ مندر کا اونچا چبوترہ اور چاردیواری گویا تھی ہی نہیں ۔ مندر کے اندر بھی اتنی کیچڑ بھری ہوئی ہے کہ شولنگ ا س میں دب گیا۔ احاطے میں درجنوں لاشیں پڑی ملیں۔ کیدارناتھ مندر کے 18میں سے ایک بھی پجاری کا سراغ نہیں ملا۔ مختلف مقامات سے تقریباً ایک ہزار لاشوں کو اٹھایا جاچکاہے۔ اندیشہ ہے کہ بیشمارلاشیں کیچڑمیں دبی ہونگیںیا دریامیں بہہ گئی ہونگی۔ بہت سی لاشیں پانی پر تیرتی ہوئی دیکھی گئیں۔ تقریبا 5ہزار افراد جو لاپتہ ہیں اندیشہ ہے کہ زندہ نہیں بچے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے وہ کچھ لوگ جو جان بچانے کے لئے بلندپہاڑیوںپر چڑھ گئے تھے ابھی زندہ ہوں۔ ان کی تلاش بغیر پائلٹ کے ننھے ننھے جہازوں کے زریعہ کی جارہی ہے جن میں کیمرے لگے ہیں اور تصویریں نیچے اسکرین پر نظرآتی ہیں۔یہ تباہی اتنی بڑی ہے جس کا پورا اندازہ لگانا محال ہے۔ تاہم جس مستعدی سے ہمارے فوجی اور نیم فوجی دستوں نے اور نیشنل ڈساسٹرمنجمنٹ اتھارٹی کے کارکنوںنے اپنی جان پر کھیل کر وہاں سے ایک لاکھ سے زیادہ یاتریوں کو موت کے منھ سے نکالاوہ ایک بڑا کارنامہ ہے ۔ہم قوم کی طرف سے ان کو اس کامیاب مہم پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان کا شکریہ اداکرتے ہیں۔اس مہم میں ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہوجانے سے 20 کارکن مارے بھی گئے۔ ہم ان کے لواحقین کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔ بیشک یہ بچاﺅ مہم کسی معرکہ سے کم نہیں۔اب یہ مہم تقریباً پوری ہونے والی ہے۔

ضلع چمولی کے برف پوش خطے میں واقع گورودوارہ ’ہیم کنڈ‘ صاحب میں بھی، جو یکم جون سے پانچ اکتوبر تک کھلا رہتا ہے، ہزاروں عقیدت مند موجود تھے۔ تباہی وہاں بھی آئی ،مگر گرودوارہ انتظامیہ نے نظم وضبط کا ثبوت دیا اور ضرورتمندوں کے لئے لگاتار لنگر جاری رکھا۔ گنیش پور گاﺅں کی خواتین نے کمال کی ہمت دکھائی۔ ایک معمولی دوکاندار خاتون پشپا کی تحریک پر ان عورتوں نے گھر گھر جاکر کھانے پینے کا سامان فراہم کیا اور لگاتار کھانا بنا کر مصیبت زدگان کی مفت خدمت انجام دی۔ انہوں نے روزاوسطاً آٹھ سو افراد کو کھانا کھلایا۔ اتنا ہی نہیں موقع کا فائدہ اٹھاکر یاتریوں سے زیادہ وصولی کرنے والوں بھی تنبیہ کی اور ان کو معمول سے زیادہ پیسہ وصول نہیں کرنے دیا۔ عام طور سے پہاڑی خطے کے لوگ غریب ہونے کے باوجود شریف ہوتے ہیں اور بیرونی لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ چنانچہ عام طور سے مقامی لوگوں کا رویہ ہمدردانہ رہا، حالانکہ ان کے وسائل محدود تھے ۔ وہ خود مصیبت میں گرفتارہیں۔ گاﺅں کے گاﺅں پانی میں بہہ گئے۔ بازار اجڑ گئے۔ کاروبار ٹھپ ہوگئے۔مکان منہدم ہوگئے۔بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔ چنانچہ وہ خود اِمداد اور ہمدردی کے مستحق ہیں۔ایسی حالت میں پشپا نے جو مثال قائم کی ہے اس کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔لیکن ان خبروں کے بیچ کچھ ایسی شیطانی حرکتوں کی خبریں بھی آئی ہیں جن کو سن کرسرشرم سے جھک جاتا ہے۔زیادہ ملال کی بات یہ ہے کہ جب عوام خدمت خلق میں لگے تھے کچھ ڈھونگی بابا ہوس زر میں حیوانیت کی سرحدوں کو پار کررہے تھے۔نمونے کے طور پر چند خبروں پر غور فرمائیں۔

ایک معمر جوڑے نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ اونچی پہاڑی پر جب وہ بھوکے پیاسے بھٹک رہے تھے، کچھ لوگ آئے اورمدد کرنے کے بجائے اسلحہ دکھاکر ان کو لوٹ لیا ۔ یہاں تک کہ جوتے بھی اتروالئے ۔ایک دوسرے شخص نے بتایا کہ اس کے بھائی کو تلاش کرنے کے نام پر اس سے پانچ ہزارروپیہ ٹھگ لئے گئے۔ ایک یاتری گوپال پرجا پتی سے اس وقت پچیس ہزارروپیہ نقد اور سوئٹر کپڑے چھین لئے گئے جب وہ پہاڑی پر پناہ کی تلاش میں بھٹک رہے تھے۔غنڈوں نے عصمت دری کی نیت سے نوجوان مہلا یاتریوں کے ساتھ دست درازی بھی کی۔ ایک شخص نے بتایا کہ پانچ روپیہ والا بسکٹ کا پیکٹ دوسوروپیہ میں ایک بوتل پانی ایک سوروپیہ میںخریدا۔ ایک اور یاتری نے بتایا کہ ٹیکسی نے معمول سے پانچ گنا کرایہ طلب کیا چنانچہ ان کو کپڑے بھی بیچنے پڑے۔

یہ واقعات اگرچہ کم ہوئے مگر ہیں افسوسناک۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں ہرسماج میںکچھ نہ کچھ خودغرض اور بدقماش مل سکتے ہیں۔ مگر انتہائی شرم سارکرنے کی بات یہ ہے کہ موت کے منھ سے بچ جانے والے کچھ ’باباﺅں‘ نے مندروں کی دان پیٹیوں پر ہاتھ صاف کر ڈالا ۔ اتنا ہی نہیںنہیں بنک کے خزانے کو بھی لوٹ لیا۔ یہ بابا اس وقت پکڑے گئے جب وہاں سے نکلنے کے لئے ہیلی کاپٹر پر سوار ہونا چاہ رہے تھے۔ ایک بابا کی ڈھولک سے 62ہزار روپیہ کے نئے نوٹ برآمد ہوئے۔ دوسرے نے جس کو پرساد کا پیکٹ بتایا اس میں دس ہزار کے نئے نوٹ برآمد ہوئے۔ ایک بابا نے اپنے کپڑوں میں سوا لاکھ روپیہ کے نوٹ سی رکھے تھے۔ایک بابا نے ہرانگلی میں کئی کئی انگوٹھیاں پھنسارکھی تھیں۔ اس کی جامہ تلاشی لی گئی تو کیچڑ آلود بہت سازیور برآمد ہوا۔ پوچھ تاچھ کے دوران اس نے اعتراف کیا انگوٹھیاں نکالنے کے لئے اس نے کئی لاشوں کی انگلیاں تک کاٹ ڈالیں، کیونکہ لاشیں پھول گئی تھیں۔ان چور باباﺅں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ نئے نوٹ ایک بنک کے خزانے سے لوٹے گئے تھے ،جس کی عمارت سیلاب کی نذر ہوگئی۔ غرض ایک دو نہیں، کئی باباﺅں کی تحویل سے لوٹ کا مال برآمد ہوا۔ ایسے ’تیرتھ استھان ‘پر ان باباﺅں کا یہ مکروہ کردار اس روحانیت کے ڈھونگ کا پردہ فاش کرتا ہے جس کے شکار ہمارے ملک کی اکثریت ہے ۔ ان کی خوش عقیدگی ان کو کشاں کشاں ان کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔ ایسے کئی باباﺅں کا پردہ فاش حالیہ برسوں میں ہوا ہے جن میں سے کوئی جسم فروشی کا دھندہ چلارہا تھا، کوئی جائداد ہڑپنے کے لئے قتل کی سازش میںملوّث تھا۔ ان کے پاس بڑے بڑے آشرم ہیں، غیر محسوب دولت کے انبار ہیں اور حکومت نے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ یہ منظر نامہ جو کچھ کہتا اس کو سوچنے سے دماغ شل ہوتا ہے اور بیان کرنے سے قلم عاجز ہے ۔

اس قومی مصیبت کی گھڑی میں وہ سیاست داں بھی گھناﺅنی اور چھچوری حرکتوں سے باز نہیں آئے جن کی طاقت کا سرچشمہ یہی نام نہاد ’سادھو سنت ‘ پریوار ہے۔ یہ ایک قومی مصیبت کا موقع تھا۔ سرکاری مشینری کو صحیح صورت حال کو سمجھنے اور حرکت میں آنے میں کچھ وقت تولگتا ہی ہے۔آفت کی اطلاع ملتے ہی ہماری فوج اور نیم فوجی دستوں نے اور دیگر ایجنسیوں نے جس طرح تقریباً ایک لاکھ افراد کو منھ سے نکال لانے کا کارنامہ انجام دیا اس کا اعتراف کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے سیاسی طالع آزما انتظامیہ کو کوس رہے ہیں۔ یہ اسی سنگھ پریوار سے وابستہ سیاست داں ہیں جو دیش کے چرتر نرمان کا دعوا کرتے ہیںاورہندتووا کا راگ الاپتے ہیں مگر اس کردار سے کوسوں دور ہیں جو ہندستانی تہذیب کی دین ہے۔ یہی وہ سیاست داں ہیں کہ جب پولیس اور سیکیورٹی عملے کی اقلیتوں پر مظالم کی بات آتی ہے تو شورمچاتے ہیں کہ اگر کسی خاطی کی سرزنش ہوگئی تو اس کے حوصلے پست ہوجائیں گے۔ لیکن خود اتنے بڑے آپریشن میںمصروف عملے کی حوصلہ شکنی کررہے ہیں۔ یہ کیسی سیاست ہے؟

ابھی اس بچاﺅ مہم کی چیدہ چیدہ خبریں آرہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کے تمام پہلوﺅں کا مطالعہ کرنے لئے باقاعدہ رسرچ گروپ مصروف ہوں جو وہاں سے بچ کر آنے والے لوگوںسے بھی انٹرویو کریں، مقامی باشندوں سے بھی بات کریں اور بچاﺅ مہم میں لگے ہوئے فوجی اور نیم فوجی عملے سے بھی ان کی رودادیں حاصل کریں۔

اس ٹریجڈی کا ایک عبرتناک پہلو یہ ہے جگہ جگہ سے سڑکیں ٹوٹ جانے اور ’عقیدت مندوں‘ پر موت کا خوف طاری ہوجانے کی وجہ سے چاردھام کی یہ رونق مستقبل قریب میں لوٹ آنے اور اس دشوار گزار خطے میں آباد لوگوں کے روزگار بحال ہونے کی کوئی امید نہیں۔ریاستی حکومت کو اس پر توجہ دینی ہوگی۔ افسوس ہمیں اس بات پر بھی ہوا کہ ایسی عظیم انسانی تباہی کے موقع پر ہماری دینی اور ملّی’قیادت‘ کو سانپ سونگھ گیا حالانکہ دینی ذمہ داری اور حکمت عملی کا تقاضا یہ تھا کہ مصیبت زدگان کی مدد کے لئے متحرک ہوتے۔ مگر خدمت خلق کی سنت نبوی کو ہم نے بھلا دیا ہے اور اپنی ساری توانائی علامتی رسومات و شخصی عبادتوں کے لئے وقف کردی ہیں۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180673 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.