یہ افسوس کا مقام ہے۔ یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے یا کوئی
اور بات یہ ہم آپ کو اسی تحریر میں بتا دیں گے۔ اسی میں ایک نیا اعتراف بھی
شامل ہوگا۔ ہم اپنے محسنوں اور ان کی نشانیوں سے کتنی محبت کرتے ہیں یہ کسی
ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے آخری
ایام میں ہم نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ ہماری قوم تاریخ کا ایسا داغ
ہے جو کبھی نہیں دھویا جا سکتا۔ ہم نے اپنے محسنوں کی نشانیوں کے ساتھ اپنی
محبت ختم نہیں کی بلکہ جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس بات کاثبوت بھی ہم آپ کو اسی
تحریر میں آگے چل کر دیں گے کہ کس طرح ہم اپنے محسنوں کی نشانیوں سے اپنی
محبت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پندرہ جون کو ہم یاد رکھیں گے یا اور دنوں کی طرح
بھول جائیں گے۔ یہ خود سوچتے رہیں۔ کیونکہ اسی دن زیارت میں قائد اعظم محمد
علی جناح کی ریذیڈنسی کی تاریخی عمارت پر رات کے وقت دہشت گردوں نے راکٹ
فائر کیے ۔ جس سے عمارت میں آگ لگ گئی۔ حملے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق
اور ایک زخمی ہوگیا۔ پولیس کے مطابق راکٹ قریبی پہاڑیوں سے نامعلوم افراد
نے فائر کیے۔ ڈی پی او زیارت نے کہا ہے کہ چار مسلح افراد نے ریذیڈنسی میں
داخل ہو کر کاروائی کی۔ انہوں نے عمارت میں دھماکہ خیزمواد اور بم نصب کر
دیئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ چاربم ناکارہ بنائے گئے۔ اس کے باوجود ریموٹ
کنٹرول بموں سے عمارت کو تباہ کر دیا گیا۔ جس سے عمارت میں موجود قائد اعظم
کے زیر استعمال فرنیچر اور دیگر سامان جل کر خاکستر ہوگیا۔ چاردن گھنٹے بعد
آگ پر قابو پایا گیا۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک نے متعلقہ
حکام کو دہشت گردوں کے خلاف سخت کاروائی کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے انتظامیہ
کو حکم دیا کہ لوگوں کے جان ومال کو محفوظ بنایا جائے۔ اس تاریخی عمارت کی
اہمیت جاننے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ہمارے قائد اعظم محمد علی جناح کی
رہائش گاہ ہے۔ یہ عمارت 1892ء میں تعمیر کی گئی۔ جس کو برطانیہ کے افسران
زیارت کے دورہ کے دوران اپنی رہائش کیلئے استعمال کیا کرتے تھے۔ قیام
پاکستان کے بعد1948ء میں طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے بانیء پاکستان قائد
اعظم محمد علی جناح یہاں تشریف لائے اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام
اسی عمارت میں گزارے۔ہم نے اپنے قومی محسن کی زندگی کے آخری لمحات میں ان
کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا یہ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایسا داغ ہے جو کبھی
نہیں دھویا جاسکتا۔اب ان کی نشانی کو بھی تباہ کراچکے ہیں۔ یہ عمارت نہ صرف
ہمارا قومی ورثہ اور اثاثہ تھی۔ بلکہ اس بات کی علامت بھی تھی کہ بلوچستان
پاکستان کا حصہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ بانیء
پاکستان ملک کے دیگرصوبوں کی طرح بلوچستان کی عوام کے بھی قائد ہیں اور ان
کے دلوں بھی بستے ہیں۔ دنیا بھر میں قومی اثاثوں اور ورثوں کی حفاظت کی
جاتی ہے۔ ہم نے وہاں قلیل سیکیورٹی تعینات کر رکھی ہے۔ یہی عمارت بھارت
برطانیہ ، امریکہ یا کسی اور ملک میں ہوتی اور ان کے قومی رہنما کی نشانی
ہوتی اور اس پر اس طرح حملہ ہوتا تو ان کے حالات ہی کچھ اور ہوتے۔ ایک ہم
ہیں کہ اس تاریخی عمارت کی تباہی پر ایسے محسوس کرارہے ہیں جیسے کسی اسی
نوے سالہ بڑھیا کی جھونپڑی کو آگ لگی ہو۔ یہ راکٹ جو زیارت میں قائداعظم
ریذیڈنسی پر گرے ہیں یہ قائد اعظم ریذیڈنسی پر نہیں گرے پوری قوم پر گرے
ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ ریذیڈنسی پر آگ لگ گئی جس سے وہ تباہ ہوگئی۔اور قوم
پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ جس قائد نے ہمیں الگ وطن دیا ہم اس کی نشانی
کو نہ بچا سکے۔ہم سے بڑا نااہل کسی دور میں نہ تھا اور نہ ہی کسی دور میں
آئے گا۔ ایبٹ آبادآپریشن کے بعد یہ تیسرا موقع ہے جس نے ہمارے مضبوط دفاع
کی قلعی کھول دی ہے۔ اگر ہمارے مضبوط دفاع اور سیکیورٹی کا یہ عالم رہا تو
پھر مستقبل میں کسی اور عمارت کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ہم پھر اسی
طرح اپنے موقف کا اظہار کر رہے ہوں گے جس طرح اب قائد اعظم ریذیڈنسی کی
تباہی پر کر رہے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ راکٹ فائر ہوئے ان کو
روکا نہیں جاسکتا تھا۔ تاہم اس کا کھوج تو لگایا جاسکتا تھا ۔ وہ کسی نے
لگایا یا نہیں اور لگایا تو کسی کو بتایا بھی ہوگا ۔ جس کو بتایا اس نے کیا
کاروائی کی ۔ ان سب باتوں کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ اس کے ذمہ داروں کے خلاف
سخت کاروائی کی جائے۔ یہ ریذیڈنسی اس بات کی یاد گار بھی ہے کہ بانیء
پاکستان نے اپنی زندگی کے آخری ایام اسی جگہ گزارے۔ ایک وزیر کی سیکیورٹی
کیلئے تو ہم درجنوں سیکیورٹی گارڈ تعینات کر دیتے ہیں۔ مگر کتنے افسوس کی
بات ہے کہ اپنے قائد کی نشانی کی حفاظت کیلئے ہمارے پاس قلیل سیکیورٹی ہے۔
اورجس طرح آگ بجھائی گئی یہ بھی ہماری اہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فائر
بریگیڈ وہاں بھی لیٹ پہنچا۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ پنجاب کے فائر بریگیڈ سست
ہیں بلوچستان کے فائر بریگیڈ پنجاب سے بھی زیادہ سست نکلے۔ پنجاب میں ٹی
ایم اے کے پاس جو فائر بریگیڈ ہیں وہ ایک گھنٹہ لیٹ پہنچتے ہیں ۔ وہاں کا
فائر بریگیڈ تو چار گھنٹے تاخیر سے پہنچا۔ ہم سکول دیر سے جاتے تھے تو ہم
پر جرمانہ لگا دیا جاتا تھا کہ تم دیر سے آئے ہو اس کا جرمانہ دو۔ اب اس
فائر بریگیڈ پر بھی تو جرمانہ لگنا چاہیے۔ بلکہ اب تو ڈبل سے ڈبل جرمانہ
لگانا چاہیے کہ یہ قائد کی نشانی کو لگی آگ بجھانے کیلئے بھی جلدی نہیں
پہنچا۔ ڈی پی اوزیارت نے کہا کہ چار مسلح افراد نے ریذیڈنسی میں داخل ہو کر
کاروائی کی انہوں نے عمارت میں دھماکہ خیز مواد اور بم نصب کر دیئے تھے۔
چار بم ناکارہ بنائے گئے۔ یہ دہشت گرد عمارت کے اندر داخل ہوئے۔ وہاں پر
تعینات سیکورٹی اس وقت کہاں تھی۔ ویسے قلیل سیکیورٹی کر ہی کیا سکتی تھی
ریذیڈنسی کے اٹھائیس دروازے اور ایک سیکیورٹی گارڈ ہم اپنے قومی اثاثوں کی
ایسے ہی حفاظت کیا کرتے ہیں۔ اس عمارت میں بم رکھے جانے سے یہ بات تو واضح
ہوتی ہے کہ ہمارے اس قومی ورثہ کو تباہ کرنے کیلئے منظم منصوبہ بندی سے
سازش تیار کی گئی۔ کہ اگر ایک حربہ ناکام ہوجائے تو دوسرا آپشن استعمال کیا
جائے۔ پہلا آپشن بم سے اڑانے کا تھا وہ سیکیورٹی اداروں نے ناکام بنا
دیئے۔پھر راکٹ فائر کیے گئے۔ یہ بات تو طے ہے کہ قائداعظم ریذیڈنسی پر حملہ
کرنے والے ملک وقوم کے خیر خواہ نہیں ہیں۔یہ پاکستان کے استحکام اور سالمیت
کے بھی دشمن ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان کے کسی علاقہ سے ہے یا کسی اور ملک سے
ہے۔ یہ مذہبی تنظیموں کی کاروائی ہے یا طالبان ہیں۔یہ بلوچ قوم پرستوں کی
کاروائی ہے یا کسی اور کی۔ ان میں سے جو بھی ہے وہ پاکستان کا پاکستانی قوم
کا اور ہمارے قومی اثاثوں کا بدترین دشمن ہے۔ پاکستان میں کسی گروہ کسی
سیاسی مذہبی لسانی پارٹی کو کوئی شکایت ہے کوئی رنج و غم ہے کوئی غصہ ہے تو
وہ کسی اور پارٹی سے ہے۔ کسی صوبہ سے ہے۔ حکومتوں سے ہے۔ بلوچوں کو شکایت
تھی کہ ان کوحکومت شامل نہیں کیا جاسکتا۔ اب تو مسلم لیگ ن نے بلوچ کو ہی
وزیر اعلیٰ بلوچستان بنایا ہے۔ اس کے علاوہ اگران میں سے کسی کو شکایت ہے
کسی پرغصہ ہے تو وہ کسی سیاسی پارٹی یا کسی سیاستدان سے ہے۔ ان سب کو قائد
اعظم ریذیڈنسی سے کیا شکایت تھی۔ قائد اعظم کی رہائش گاہ پر ان کو کیا غصہ
تھا۔ ایک پاکستانی چاہے وہ کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو وہ اپنے قائد کی
نشانی کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرسکتا۔ ہمارے قائد کی نشانی پر جس نے بھی حملہ
کیا ہے اور جوجو بھی اس میں ملوث ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم
یہاں یہ بات اپنے قارئین اور حکومت پاکستان کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ خبر
یہ آئی ہے کہ قائد اعظم ریذیڈنسی پر راکٹ فائر کیے گئے ۔ وہ دیکھنے میں اور
گرنے میں تو راکٹ ہی تھے۔ دراصل وہ راکٹ نہیں ڈرون تھے۔ اگر اصلی ڈرون
گرایا جاتا تو قوم اس سے سوال کرتی کہ یہاں کون سا اسامہ یا ولی الرحمان
چھپا ہوا تھا۔ اس عمارت میں کون کون سے دہشت گرد نے پناہ لی ہوئی تھی۔
امریکہ جو سمجھتا ہے کہ ابھی تک کسی کو علم نہیں کہ وہ اصل میں پاکستان میں
کیا کررہا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ابھی بھی پاکستان کیلئے آستین کا سانپ سمجھتا
ہے۔ وہ اس عمارت پر ڈرون گراتا تو بے نقاب ہوجاتا ۔ حالانکہ وہ بے نقاب تو
کب کا ہوچکا ہے۔ امریکہ پاکستان کے کسی بھی شہر یاکسی بھی علاقے میں ڈرون
گراتا ہے تو اس پر افسوس نہیں کرتا۔ بکلہ وہ بڑی ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ ہمیں
اطلاع ملی تھی کہ جس عمارت پر ہم نے ڈرون گرایا ہے اس میں دہشت گردچھپے
ہوئے ہیں۔ ان ڈرون حملوں میں پچانوے فیصد بے گناہ پاکستانی مارے جاتے ہیں۔
وہ دہشت گردوں کے مارے جانے پر افسوس نہ کرے تو نہ کرے اس نے بے گناہ
پاکستانیوں کے مارے جانے پر بھی کبھی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ اب اس نے اس
ہمارے قومی ورثہ کی تباہی پربھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اس نے تو ایسے چپ
سادھ لی ہے جیسے اس کو کسی بات کا علم ہی نہیں۔ جو چھپ کر وار کرتے ہیں وہ
ایسے ہی انجان بن جایا کرتے ہیں جیسے اوباما ہمارے قومی اثاثہ کی تباہی پر
انجان بنے ہوئے ہیں۔ اس میں کاروائی میں ڈرون گرانے والوں نے براہ راست حصہ
نہیں لیا بلکہ انہوں نے اپنے ایجنٹوں کو آگے کیا ہے۔ اس غداری کے مرتکب جو
بھی ہیں وہ کسی رعائت کے مستحق نہیں ہیں ۔ اس حملہ کی ذمہ داری بلوچ لبریشن
آرمی نے قبول کی ہے یا کسی اور گروہ نے ۔ اس کی پشت پر ایک قوت ہے جس نے اس
سے یہ سب کچھ کرایا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بڑی مہربانی کی کہ وہ اس
صورتحال میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے ساتھ رابطے میں رہے ۔ صورتحال کو جاننے
کیلئے ان کو اسلام آباد بھی بلوا لیا۔ تاہم ان کو زیارت میں جانے کا خیال
نہیں آیا اور اگر ایسا خیال آیا تو وہ وہاں کیوں نہیں گئے۔ کیا ان کیلئے اس
قومی ورثہ کی تباہی پر اتنا ہی کافی ہے کہ وہ صوبائی وزیر اعلیٰ سے رابطے
میں رہیں۔ حب الوطنی اور قائد سے محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ صدر پاکستان
اور وزیر اعظم پاکستان دونوں اپنی تمام تر مصروفیات کو ترک کرکے قائد اعظم
ریذیڈنسی پہنچتے۔ انہوں نے اس ورثہ کی تباہی کی مذمت بھی کی ۔ وزیر اعظم نے
کہا کہ اس طرح کے قومی اثاثے اورورثے کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے
کیلئے تمام تر اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیر داخلہ نے اس کی رپورٹ
طلب کرلی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی اس ورثہ کی تباہی پر مذمتی
قراردادیں منظور ہوچکی ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ بابائے قوم
سے منسوب تاریخی عمارت پر حملہ نظریاتی دہشت گردی ہے۔ مولانا فضل الرحمن
کہتے ہیں قائد اعظم ریذیڈنسی پر حملہ قابل مذمت ہے حملے دہشت گردی کی سوچی
سمجھی سازش ہیں۔ اسی روز کوئیٹہ میں بھی دہشت گردی کی دو بڑی وارداتیں
ہوئیں۔ وویمن یونیورسٹی کی بس میں دھماکہ ہوا جس سے پندرہ طالبات جاں بحق
اور بیس زخمی ہو گئیں۔ زخمی طالبات کو بولان ہسپتال لا یا جارہا تھاتو وہاں
بھی ایمر جنسی کے باہر دھماکہ ہوگیا۔ دہشت گردوں نے ہسپتال میں موجود افراد
کو یرغمال بنا لیاجن کو آپریشن کے بعد بازیاب کرالیا گیا۔ اس کاروائی میں
ڈپٹی کمشنر کوئٹہ عبدالمنصورخان، چار ایف سی اہلکار اور نرسیں بھی شہید
ہوئیں۔ اس آپریشن میں چار حملہ آور مارے گئے۔ یوں ایک طرف زیارت میں ہمارے
قومی ورثے اور اثاثے پر حملہ کیا گیا ۔ دوسری طرف کوئٹہ میں ہمارے مستقبل
پر حملہ کیا گیا۔ جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوجاتا ہے ہم کہہ رہے ہوتے
ہیں۔ یہ واقعہ قابل مذمت ہے۔ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم اس واقعہ پر افسوس
کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اب قائداعظم ریذیڈنسی کی تباہی پرہم مذمت بھی کررہے
ہیں۔یہی قائد کی نشانیوں سے ہماری محبت کا ثبوت بھی ہے۔ افسوس کا اظہار بھی
کر رہے ہیں۔ہم نے اس عمارت کو دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ مذمت
اور افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور کام بھی کرتے ہیں کہ ہم
شرمندگی کا اظہار بھی کر تے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ اے قائد ہم شرمندہ ہیں۔ اب
بھی کہہ رہے ہیں کہ اے قائد ہم شرمندہ ہے۔ یہ سب زبانی باتیں اور زبانی جمع
خرچ ہیں۔ ہم میں سے کسی کو نہ تو دلی افسوس ہوتا ہے اور نہ کوئی شرمندہ
ہوتا ہے۔ جو دل سے ایک بار شرمندہ ہوجاتا ہے وہ پھر شرمندہ ہونے سے بچنے کی
کوشش ضرور کرتا ہے۔ یہ شرمندگی ایک بار ہوتی ہے دو بار ہوتی ہے تین بار
ہوتی ہے۔ بار بار تو نہیں ہوتی۔ ہم ایک بار زبان سے کہہ دیتے ہیں اے قائد
ہم شرمندہ ہیں۔ پھر ٹھیک ایک گھنٹہ بعد اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہم نے
شرمندگی کا اظہار کیا تھا۔ ہم قائد اعظم کی علالت کے وقت ان کو ایمبولینس
بروقت فراہم نہ کر سکے تو بھی ہم شرمندہ تھے۔ اب ان کی ریذیڈنسی کو لگی آگ
بجھانے کیلئے بر وقت فائر بریگیڈ فراہم نہ کر سکے تو بھی ہم شرمندہ ہیں۔ یہ
کیسی شرمندگی ہے۔ ہم میں سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی سے شرمندہ ضرور ہے۔
کوئی بی بی سے شرمندہ ہے تو قائد اعظم سے شرمندہ ہے۔ ہم شرمندہ ہیں بھی سہی
یا پچھلے ساٹھ سالوں سے ڈھونگ رچا رکھا ہے کہ ہم شرمندہ ہیں۔ ہم شرمندہ
ہوتے تو کم ازکم فائر بریگیڈ تو بروقت فراہم کر دیتے۔ جو بار بار شرمندگی
کے بعد پھر وہی کام کرے وہ شرمندہ نہیں ڈھیٹ ہوا کرتا ہے۔ ہم نے اب تک اپنے
قائد اعظم سے بھی سچ چھپائے رکھا ۔ قائد اعظم ریذیڈنسی کی تباہی شرم کا
مقام نہیں۔ چلو بھر پانی بھی بہت زیادہ ہے ۔ کھانے کے چمچ میں پانی ڈال کر
اس میں ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ اے شرمسار پاکستانی قوم کے قائد ہم اعتراف
کرتے ہیں کہ ہم شرمندہ نہیں ڈھیٹ ہیں ۔ یہی حملہ کسی سیاسی دفتر پر ہوا
ہوتا تو ملک بھر میں عوام کا جینا حرام ہوجاتا۔ اس لیے پھر اعتراف کرتے ہیں
کہ ہم شرمندہ نہیں ڈھیٹ ہیں۔ ڈھیٹ کا کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ اس کو شرم بھی
نہیں دلائی جاسکتی کیونکہ اس میں شرم بھی نہیں ہوتی۔ جو شرم کی حدیں پھلانگ
جائے وہ ہماری طرح ڈھیٹ ہوا کرتا ہے۔ |