ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستان کے تعلیمی
اداروں میں مقامی ہندو طلباءکی جانب سے افغان طلباءپر پُرتشدد واقعات میں
روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جو نہ صرف افغان عوام کے لئے تشویش کا باعث ہیں
بلکہ دونوں ممالک کی حکومتوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ مئی 2013ءکے اوائل
میں شاردہ یونیورسٹی کیمپس (گریٹر نوائڈہ) میں ایک ایسا ہی ناخوشگوار واقعہ
پیش آیا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ذرائع کے مطابق چند اوباش
مقامی طلباءکی جانب سے ایک افغان طالبہ کو چھیڑنے اور اسے اغواءکرنے کی
کوشش کی گئی جس کے ردعمل میں یونیورسٹی میں موجود افغان طلباءمشتعل ہو گئے۔
چنانچہ شاردہ یونیورسٹی کیمپس ایک لمحے میں میدان جنگ بن گیا۔ عینی شاہدین
کے مطابق ہندوستانی طلباءکی جانب سے افغان طلباءپر فائرنگ بھی کی گئی۔ بعد
میں پولیس کی ایک بھاری نفری نے یونیورسٹی کیمپس سے افغان طلباءکو نامعلوم
مقام کی طرف منتقل کردیا کیونکہ مقامی ہندو طلباءکی جانب سے انہیں جان سے
مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ اس جھڑپ کے دوران تین درجن سے زائد
طلباءاور کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
ذرائع کے مطابق ہندوستانی طلباءکی جانب سے افغان طلباءسے نفرت اور تعصب کی
بناءپر گزشتہ دو برسوں میں تشدد کے کءیواقعات رونماءہو چکے ہیں جس کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی نوعیت کا ایک واقعہ فروری
2013ءمیں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی رورکیلہ کے سالانہ ثقافتی تقریب کے
موقع پر بھی پیش آیا تھا جہاں تقریب کے اختتام پر افغان طلباءکو ایک آٹو
رکشہ سے ہندوستانی طلباءنے زبردستی اتارنے کی کوشش کی تھی۔ اس جھڑپ میں بھی
کئی طلباءزخمی ہوئے تھے جن میں سے بیشتر کا تعلق افغانستان سے تھا۔
اسی طرح 24 جنوری 2011ءکو روین شاہ یونیورسٹی میں بھی مقامی طلباءکے ساتھ
ہونے والی جھڑپ میں کئی افغان طلباءزخمی ہوئے تھے جن میں کرزئی حکومت کے
ایک وزیر کا بیٹا بھی شامل تھا اور کم و بیش 58 افغان طلباءجن میں دو
طالبات بھی شامل تھیں، نے اپنی زندگیاں بچانے کے لئے نئی دہلی میں پناہ لی
تھی کیونکہ انہیں ہندوستانی طلباءکی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی
جارہی تھیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس واقعے کے بعد بیشتر افغان
طلباءنے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر افغانستان واپس آنے کو ترجیح دی۔
ہندوستان کے تعلیمی اداروں میں مقامی ہندو طلباءکی جانب سے افغان طلباءکے
خلاف نفرت میں اضافے اور نامناسب رویے کی وجہ سے افغان عوام بالخصوص
طلباءکے والدین میں بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ لہٰذا انہوں نے افغان
حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ افغان بچوں کی حفاظت کے لئے فوری اقدامات کریں۔
ذرائع کے مطابق بیشتر والدین کا یہ بھی موقف تھا کہ افغان طلباءہندوستان کے
علاوہ یورپی ممالک، پاکستان اور ایران کے تعلیمی اداروں میں بھی تعلیم حاصل
کررہے ہیں مگر ان تمام ممالک میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں افغان
طلباءمحفوظ ہیں اور انہیں مقامی طلباءجیسی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ صرف
یہی نہیں بلکہ پاکستان میں رہتے ہوئے ان کے بچے مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے
بھی گمراہ نہیں ہوتے کیونکہ دونوں ممالک میں مذہبی اور ثقافتی اقدار ایک
جیسی ہیں۔ |