آج کے کل نہ جانے کیا ہو گیا ہے
ہر شخص دانشور بننے کی تگ و دو میں ہے اس کے لیے چا ہے اسے کسی چاپلوسی
کیوں نہ کرنی پڑے ۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دانشور بننے کی جستجو میں وہ عقل
سے پر ے کی باتیں کرنے لگتا ہے ۔یا پھر ایسے خیالات پیش کر تا ہے جن کا نفس
الامر میں کو ئی وجود نہیں ہوتا ۔ایسا ہی ایک کارنامہ دہلی یونیورسٹی کے
صدر شعبہ اردو پرو فیسر توقیر احمد خان نے کیا جنھیں ’’ماہر اقبالیات ‘‘ہو
نے کا زعم ہے چنانچہ اس کی تصدیق لیے وہ علامہ کے مصرع کو اپنی تسکین کا
موضوع بنا کر پیش کر تے ہیں اور عام قارئین کو بے وقوف بناتے ہیں ۔اس سلسلے
میں ‘میں روزنامہ انقلاب ‘23جون2013میں ان کے نام سے شائع ہو ئے مضمون کا
حوالہ دوں گا جس میں انھوں نے ’’دہلی یونیورسٹی کے چارسالہ گریجویشن منصوبے
کو ’’وقت کا اہم تقاضا ‘ضرورت ‘ناگزیر اور نہ جانے کیا کیا کہنے کے لیے
علامہ کے مصرع’’اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے‘‘ کا غیر محل
استعمال کیا ہے ۔حالانکہ یونیورسٹی انتظامیہ کا یہ فیصلہ ایک غیر مناسب اور
طلبا کے حق میں سم قاتل فیصلہ ہے ۔بالخصوص اردو طلبا کے حق میں تو کسی بھی
طرح مناسب نہیں ہے مگر موصوف پر وفیسر نے یہ سب شیخ الجامعہ کی چاپلوسی اور
قربت کے لیے کیا حالانکہ ایسے وقت میں انھیں چاہیے تھا کہ وہ شیخ الجامعہ
سے ملاقات کر کے اس غیر مناسب فیصلے پر اعتراض کر تے اور انھیں اردو طلبا
کی پر یشانیوں سے آگاہ کر تے۔انھیں بتلا تے کہ آپ کا فیصلہ بالعموم اور
بالخصوص اردو طلبا کے حق میں کسی طرح مناسب نہیں ہے ۔اس سے انکا خرچ بڑھے
گا اور ایسے والدین کی مشکلات میں اضافہ ہوگا جو خون پسینہ ایک کر کے چند
پیسے کماتے ہیں اور انھیں اپنے بچوں کے لیے بھیجتے ہیں․․․․․مگر انھوں نے
ایسا نہیں کیا ۔کرتے بھی کیسے ‘خود ان کے دل میں چور چھپا ہے ۔وہ نہیں
چاہتے کہ دہلی یونیورسٹی اور اس سے ملحقہ کالجوں کے اردو طلبا پڑھ لکھ کر
کچھ بنیں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تمام کالجوں میں اردو آنرس کو ختم کر نا
شروع کر دیا ہے۔صدر شعبہ اردو نہیں چاہتے کہ مسلمان بچے اردو پڑھ کر آگے
آئیں اور اردو کی خدمت کر یں ۔ شاید ان کا گمان ہے کہ اردو کا سلسلہ ہم پر
ہی ختم ہو گا ‘ہم ہی اردو جانتے ہیں ۔ہمیں ہی اردو جاننے کا حق ہے وغیرہ۔
’’اٹھ کہ اب بز م جہاں کا اور ہی انداز ہے‘‘کے ذریعے ڈاکٹر توقیر احمد خاں
کہنا چاہتے ہیں کہ ہر چیز بدل رہی ہے ۔دنیا بدل رہی ہے ۔نظام بدل رہے ہیں۔
تین سالہ گریجویشن نظام تعلیم بوسیدہ ہو چکا ہے۔اب نیا عہد ہے اور نیا نظام
ہے یعنی چارسالہ گریجویشن نظام ۔یہاں سے ایک نئے دور کاآغاز ہوگا جس کا
طلبا کا کو استقبال کر نا چاہیے اور اس پر معترضین کی باتوں پرع دھیان نہ
دے کر اپنے مقصد میں لگ جانا چاہیے۔ یہ سب جو کیا گیا ہے طلبا کی خاطر ہی
کیا گیا ہیجو ان کے حق میں مفید بھی ہے وغیرہ۔گویا علامہ اقبال نے بھی ایسے
ہی وقت یہ کہاتھا ۔․․․․․․اس سے انداز لگایا جاسکتا ہے کہ پر و فیسر صاحب کس
قدر ماہر اقبالیات ہیں ۔میں پوچھنا چاہتا ہوں !کیا اقبال کے اس مصرع کی یہی
تشریح ہے۔کیا اقبال نے ایسے ہی حالات میں نوجوانان ہندکو یہ پیغام دیا تھا
‘کیا اقبال نے ایسے ہی غیر مناسب فیصلوں کے تناظر کہا تھاکہ ’’اٹھ کہ بزم
جہاں کا اور ہی انداز ہے؟‘‘مگر افسوس !اپنے غلط مشن کی تکمیل کے لیے لوگ
کیسے بزرگوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں۔
’’دہلی یونیورسٹی میں نافذ ہونے والے چار سالہ گریجویشن کورس پر اس لیے بھی
منظور نہیں کہیہ اردو کے حق میں سم قاتل ہے ۔اس سے اردو زبان و ادب پر سخت
اثر پڑے گا ۔ چنانچہ ڈاکٹر مولا بخش کہتے ہیں :
چارسالہ کورس کو یہ کہہ کر متعارف کریا گیا کہ اس سے طلبا اور طالبات بین
العلومی تعلیم حاصل کر یں گے اور اس سے ان کی صلاحیت میں ہمہ جہتی پیدا
ہوگی ‘مگر اس کے منفی اثرات یہ پڑیں گے کہ جو اقلیتی زبانیں ہیں‘ان کی
بقا اب دہلی یونیورسٹی میں خطرے میں پڑ گئی ہے۔۔‘‘
اسی طرح سینئر استاذ شعبہ اردوپرو فیسر ابن کنول کہتے ہیں:’’دہلی یو
نیورسٹی کے چارسالہ کورس کے بارے میں جو کہا جاتا ہے اور جو صورت حال ہے وہ
یقینا خطرے کی علامت ہے۔مجھے اندیشہ ہے اس سے مستقبل میں اردو پر تلوار لٹک
سکتی ہے۔‘‘نیز ڈاکٹر عبد العزیز بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے
کہتے ہیں:
اس کورس کے نفاذ کے بعد اردو ادب ‘اردو تحقیق ‘ اردو زبان کی بقا اور سلیس
اردو کی تعلیم کا رواج قصہ پارینہ بن جا ئے گا۔جب کورسز بنا جارہے تھے ‘اس
وقت یہ کہا گیا تھا کہ نصاب ہلکا بنا جائے ‘اتنا ہلکا کہ 9ویں جماعت کا
طالب علم آسانی سے پڑھ سکے۔مگر ایسا نہیں ہوا اور اس کے بعد جو صورت حال ہو
گی اس کی تصویر خدشات سے بھری ہوگی ۔ ‘‘وہ مزید کہتے ہیں کہا کہ اس چار
سالہ کورس میں طالب علم پہلے تین سال ہر طرح کی تعلیم حاصل کر ے گاپھر
چوتھے سال اسے تخصص کر انے بٹھادیا جائے گا ۔تو سوال یہ ہے کہ اس کے اندر
ارود کی فہم کی صلاحیت ہی نہیں آئی تو اردو پر ریسرچ کرنے کی صلاحیت کہاں
سے آئے گی؟ارود ادب کی تفہیم کیسے ہو گی؟
مذکورہ بالا آرا کے تناظر میں اس بات کا احساس کیا جاسکتا ہے کہ دہلی
یونیورسٹی میں اردو کی بقا خطرات سے دوچار ہے ۔ان کے علاوہ بھی بعض حضرات
تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ڈی یو کے چار سالہ انڈر گر یجویٹ کورس کے بہانے
دیگر اقلیتی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کو نشانہ بنا نے کی سازش کی جارہی
ہے‘یعنی اب دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیسی دانشوری ہے ؟یہ کیسی پرو فیسری ہے؟یہ کیسی
انسانیت ہے جو دوسرے انسانوں کے تباہی کے منصوبوں کی تائید کر تی ہے ۔اس
تباہی خیز نظام کو بہتر اور مناسب بتلانے پر زور دیا جارہا اور طلبا کو
مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اس نئی بلکہ تباہی خیز پیش رفت کا استقبال کر یں
اور اعتراض کر نے والوں کی باتوں پر کان نہ دھریں ۔ یہ فیصلہ کرتے وقت کسی
کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہے کہ اس تجربے سے ملک کے
معاشی نظام پر کیا اثر پڑے گا ؟ سب سے بڑا سوال تویہ ہے کہ کیا ملک کی کسی
ایک یونیورسٹی میں طلباکو گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے چار سال کی مدت
درکار ہوگی جب کہ دیگر یونیورسٹیوں میں تین سال کی مدت میں ہی یہ ڈگری مل
جائے گی؟ مطلب بالکل صاف ہے کہ دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلبا کو
گریجویٹ ہونے میں ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے مقابلے ایک سال کا زیادہ وقت
صرف کرنا ہوگا۔ظاہر ہے ایک سال کی مدت میں ان طلباکو معاشی بوجھ بھی برداشت
کرنا ہوگا۔ جاننا چاہیے کہ دہلی یونیورسٹی کا رخ کرنے والے 70فی صد طلبا
دیہی علاقوں کے متوسط طبقے کے ہوتے ہیں اور وہ معاشی طورپر بھی اتنے مستحکم
نہیں ہوتے جتنے کہ شہری طلباہوتے ہیں۔ایسے طلبا کی اکثریت ہوتی ہے جن کے
ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو دہلی بھیجتے ہیں اور ان کی خواہش یہ ہوتی
ہے کہ جلد سے جلد وہ گریجویشن کرکے ملک کے مختلف مقابلہ جاتی امتحانوں میں
شامل ہوں اور روزگار حاصل کر سکیں۔ ہمارے ملک میں جتنے بھی اعلیٰ عہدے کی
سروسز ہیں بشمول سول سروس نیز آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس اور
ایلائڈ سروسز سب کیلئے صرف گریجویشن کی ڈگری لاز می ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں
دہلی یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلباسول سروسز میں ملک کی دیگر
یونیورسٹیوں کے طلباکے مقا بلے ایک سال بعد اہلیت پا سکیں گے۔ غرض کہ ایک
ساتھ میٹریکولیشن کرنے وا لے ان کے ساتھی سول سرو سز میں اگر کامیاب ہوتے
ہیں تو وہ ان سے ایک سال سینئر بھی ہوں گے۔اس لیے نزاکتِ وقت کا تقاضہ یہ
ہے کہ ملک میں یکساں تعلیمی نظام قائم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے اور ڈگری کی
مدت کار میں بھی مساوات لازمی ہے۔یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اس لیے اس پر حکومت
اور اس سے زیادہ انتظامیہ کو سنجیدگی سے غوروفکر کرنی چاہیے۔ |