"حشاشیین" (Assassains)

تاریخ انسانی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی طاقت ور نے اپنی طاقت کو دوائم بخشنے کےلئے غیر قانونی ہھتکنڈے استعمال نہ کئے ہوں۔ اس کے نزدیک سب سے پہلے اپنی ذات کو محفوظ اور مستحکم بنانا اور کمزوروں سے اس بات پر خائف رہنا رہا ہے کہ کہیں وہ اس قدر طاقت ور نہ بن جائیں کہ کل کو اس کا احتساب شروع کردیں۔اس لئے اس نے ہمیشہ کوشش کی کسی بھی طرح اپنے آپ کو کسی مخفی یا ظاہری دشمن کے کاری وار سے بچانے کےلئے ایسا با اعتماد افراد کا گروہ اپنے گرد اکھٹا کرلے ، جو اُس کی حفاظت کےساتھ ساتھ اُس کے مفادات کے خاطر کسی کی بھی جان لینے سے دریغ نہ کریں۔ہمیں اس سلسلے میں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ موجودہ اسلامی تاریخ میں ہمیں ٹارگٹ کلرز کا سرغنہ اور اُس کے طریقہ کار کے حوالے سے بڑی مفصل تفصیلات بہم مہیا ہوجاتی ہیں۔ ہم اس ٹارگٹ کلر کو" حسن بن صباح" کے نام سے یاد کرتے اور جانتے ہیں ۔" حسن بن صباح" نے ایران کے شمال مغربی علاقوں میں مختلف قلعوں پر قبضے کے علاوہ اپنا مرکز ایران کے شہر قزوین کے قرین "قلعة الموت"میں بنایا ۔ اسکے "حشاشیین" (Assassains)مسلمانوں کو قتل کرنے میں مشہور رہے۔ان کا کام مسلمانوں کی سیاسی اور دینی قیادت کو قتل کرنا تھا ۔ا نھوں نے بڑی تعداد میں علما ءاور مجائدین قیادت کو قتل کیا ۔ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کےخلاف صلیبوں کی مدد کرتے رہے ۔ حاجیوں کو لوٹ کر قتل کردےتے ، لیکن یہی نعرہ لگاتے کہہم پکے سچےمسلمان ہیں۔المنتظم فی تاریخ الموک کی جلد ۷ ، س ۴۶ میںمشہور و معروف واقعہ درج ہے کہ "جب حسن بن صباح کے پاس امیر کا قاصد پہنچا اسنے تسلیم کرنے کا پیغام دیا تو حسن بن صباح نے ایک فدائی کو بلایا اور حکم دیا کہ خود کو قتل کرلو ۔ اس نے اسی وقت خنجر نکالا اور شہ رگ کاٹ ڈالی اور تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ اس کے بعد دوسرے کو حکم دیا کہ قلعے کی فصیل سے نیچے چھلانگ مارو ، اس نے فورا نیچے چھلانگ مار دی ، پھر وہ قصد کی جانب متوجہ ہوا اور کہا کہ اپنے امیر کو جا کر کہو کہ میرے پاس ایسے بیس ہزار جانباز ہیں یہی میر اجواب ہے۔"۔حسن بن صباح نے اپنی ایک خود ساختہ جنت بنا کر رکھی تھی جس میں اُن فدائین کو حقیقی جنت کا نظارا کرانے کےلئے پیش کیا جاتا تھا، تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس عارضی جنت میں حسین دوشزائیں( جن کو وہ حوریں کہتا تھا)کی کثیر تعداد ایسے لبھانے کےلئے ہوتی اور فدائی کو حشیش کے نشے میں ڈوبے رکھتا تھا۔طالبان کی جانب سے جب خود کش فدائین کا استعمال بڑی تیزی بڑھا تو ان کے متعلق بھی یہی پروپیگنڈا کیا گیا کہ انھوں نے بھی کوئی حسن بن صباح کی طرح جعلی جنت بنا رکھی ہے۔لیکن بتدریج خودکش حملہ آوروں کے حوالے سے تحقیقات ہونے لگی تو اندازے غلط ثابت ہوئے ۔ بلکہ کبھی انھیں امریکی جارحیت کا ردعمل تو کبھی ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے رشتے داروں کی جانب سے انتقام کہا جانے لگا۔امریکی جارحیت جب مسلمان ممالک پر کی گئی تو اس سے پہلے پاک ،بھارت جنگ میں پاکستانی سپائیوں نے دشمن کے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر انھیں اپنے جسم میں باندھے بارودی مواد سے شدید نقصانات پہنچائے۔ اس عمل کوایک جنگی حکمت عملی کہا گیا، کیونکہ جب آمنے سامنے جنگ ہو تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے ، ایسے ہم ، زندہ بچ جانے پر غازی اور مر جانے پر شہید کے لفظ سے یاد کرتے ہیں۔اس وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ یہی عمل اس سے پہلے جاپانیوں اور جرمن کے علاوہ ویتنام کے فوجی اور شہریوں نے بھی اپنے بڑے دشمن کے خلاف کیا تھا ،جب کہ خود کش حملوں کے حوالے سے تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے مخالفین کےخلاف یہی سہل طریقہ اختیار کیا جس میں انھوں نے اپنے مخالفین سمیت بڑی بڑی شخصیات کو جانی نقصانات دئے۔اب عراق ، ایران جنگ کے بعد افغانستان اور پھر پاکستان میں جس طرح خود کش دہماکے تواتر کے ساتھ ہونے لگے تو ایسے دنیا کا مہلک ترین ہتھیار سمجھا جانے لگا ، جیسے دنیا کی کوئی جدید ٹیکنالوجی بھی روکنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔عمومی طور امریکہ مخالف جنگوں میں اب مسلمانوں کی جانب سے ایسے حملوں میں جہاں براہ راست امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو اس سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان میں ہورہا ہے جہاں دنیا کا یہ مہلک ترین ہتھیار ، مسلسل استعمال کئے جارہے ہیں اور پاکستانی ارباب و اختیار ایسے روکنے میں سو فیصد ناکام نظر آتے ہیں۔ یقینی طور پر حسن بن صباح کی طرح پاکستان یا افغانستان میں کوئی نمائشی جنت تو نہیں بنائی گئی ہے جہاں ان فدائین کی دل تسلی کےلئے نظارہ کرایا جاتا ہوگا ، لیکن یہ ضرور ہے کہ ان فدائین کو اسلام کے نام پر ، تو کبھی حرمت رسول ﷺ یا صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین کی محبت یا اہل بیت سے دلی لگاﺅ کے نام پر ، جذبات کو اس قدر مغلوب کردیا جاتا ہے کہ انھیں اس بات کا ہوش بھی نہیں رہتا کہ اس کی قیمتی جان ، سانس لینے کے قابل نہیں رہے گی۔جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ ایسے فدائین کو خاص ماحول میں رکھ کر ہپناٹز کیا جاتا ہے اور دماغ کو مفقود رکھنے کے خصوصی ادویات کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ جس کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔دنیا کے اس سب بڑے ہتھیار کو فروخت بھی کیا جا تا ہے اور یہ ثابت شدہ ہے کہ گھر سے لاپتہ معصوم بچے ،یا بے گھر بچوں کو اغوا کرکے ایسے مقامات میں خصوصی تربیت دی جاتی ہے جس کو وقت آنے پر استعمال کیا جاتا ہے۔متعدد ایسے واقعات اور ایسے خودکش نوجوان منظر عام پر آچکے ہیں ، جن کے انکشافات سے علم ہوا کہ انھیں ورغلا کر ، یا پھر پیسوں کی لالچ میں والدین سے درس و تدریس کےلئے حاصل کرکے مخصوص جگہوں میں رکھا جاتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کی طرح خود کش حملہ آوروں کی بھی اسمگلنگ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔قصہ مختصر ، دیکھنا صرف یہی ہے کہ اُن مملکت نے اپنی عوام کو ایسی سہولیات و اسباب فراہم کردئےے ہیں کہ وہ مجبور ہوکر اپنے بچوں کو یا ایسے بچے کجو سمجھ بوجھ نہ رکھنے کے باعث ایسے عمل کے لئے تیار نہ ہو۔یقینی طور پر ایسا نہیں ہے۔ غریبی اور معاشی بد حالی ڈرون حملوں سے زیادہ خطرناک ہے ، جس نے ملک کے دور درس علاقوں میں ایسے معصوم بچوں کو ، ایسے لوگوں کے حوالے کرنے کے بعد کبھی پوچھنا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ ان کی کوکھ سے جنم لینے والی زندگی ، اب کس حال میں ہے۔مزارات ، مدارس ،خانقائیں، یتیم خانے یا اس جیسے متعدد ایسی جگہیں ہیں جہاں دنیا کے یہ سب سے بڑے خطرناک بمبار با آسانی مل جاتے ہیں اور ارباب اختیار خاموش رہتے ہیں۔ حسن بن صباح آج بھی ہمارے درمیان مخلتف روپ میں اپنے ایجاد کردہ نظرئےے کے ساتھ اور اس کے پاس فدائین کی ہزاروں کی تعداد میں "حشاشیین" موجود ہیں۔ہمیں اُن محرکات اور اسباب کا خاتمہ کرنا ہے ، جس کی وجہ سے "حشاشیین" تیار ہوتے ہیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی کو بھی ناکام کردےتے ہیں۔ یہ "حشاشیین" آج کل کسی غیر اسلامی ملک میں نہیں بلکہ مسلم حکومت میں پیدا ہو رہے ہیں۔اور اُن خاص مسلم ممالک میں جو مسلمانوں کے دیرینہ دشمنوں کے ظاہری اور درپردہ غلام ہیں اور رہنا چاہتے ہیں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 664829 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.