1990ءکا سال تھا جب ہم ساتویں کے طالب علم تھے۔ اندرونِ
سندھ ، ٹنڈوآدم میں واقع ہمارے جوہر اسکول کا شمار اُن دنوں شہر کے اچھے
اسکولوں میں ہوتا تھا۔ ایک دن سلیم سر نے بتایا کہ ایک ہفتے میں ہمارے
اسکول کا انسپیکشن ہونے والا ہے۔ بورڈ سے ٹیم آئے گی اس لیے سب فلاں دن
تیار ہو کر آئیں۔ پورے ہفتے اسکول میں انسپیکشن کی تیاری ہوتی رہی۔ باہر کی
دیواروں پر کلر کروایا گیا، راستوں میں چونا ڈالا گیا اورعارضی طور پر
خوبصورت گملے منگوا کر تمام کلاسوں میں رکھوائے گئے۔ تمام بچوں کے ذمہ بھی
کوئی نہ کوئی چیز لگائی گئی کہ وہ گھر سے لا کر کلاس روم کو سجائیں۔ کوئی
سینری لایا تو کوئی گھڑی۔اور تو اور رنگین جھنڈیاں اورجھاڑ فانوس تک لٹکائے
گئے۔اسکول دلہن کی طرح نہیں تو ڈبلیو گیارہ کی طرح ضرور سج گیا۔بہرحال
انسپیکشن کا دن آ پہنچا، ٹیم آئی، اسے دو تین اسپیشل کلاسوں کا دورہ کروایا
گیا، پھر لذت کام و دہن کا دور چلا اور ٹیم واپس چلی گئی۔ اللہ اللہ خیر
صلا....دوسرے ہی دن عارضی گملے ہٹا دیے گئے۔ بچوں کی چیزیں واپس گھر پہنچ
گئیں۔ جھاڑ فانوس لپیٹ کر رکھ دیے گئے۔دو تین دن میں ہی W11نے پھر سے 1Dکا
روپ دھار لیااور دوبارہ سے ہر طرف مٹی اڑنے لگی۔
اس وقت بچے تھے، حیرت ہوئی لیکن پھرمسلسل مشاہدے سے شعور میں یہ بات جم گئی
کہ ہمارے معاشرے میں الا ماشاءاللہ اچھے کام بھی اکثر ایک اعلیٰ قدر کے تحت
نہیں بلکہ کسی نہ کسی جبر کے تحت ہوتے ہیں ۔ یہ جبر کبھی مفاد کا ہوتا ہے
تو کبھی معاشرتی جبر کسی اچھے کام پرمجبور کر دیتا ہے۔ اب دیکھ لیں، ہر سال
مارچ میں واٹر ڈے منایا جاتا ہے اوراپریل میں ارتھ ڈے ، جون میں ماحولیات
کا دن بھی آتا ہے اور موسمیات کا عالمی دن بھی الگ سے منایا جاتا ہے....اتنے
سارے دنوں کے منانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنے مشترکہ گھر کا کچھ خیال
کر لیں.... وہ گھر جو اپنے ہی مکینوں کے ہاتھوں جل رہا ہے.... لیکن ہر ایسے
موقع پر سالوں سے یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ لوگ بیانات دے دیتے ہیں، ہم
جیسے لوگ کچھ مضامین لکھ دیتے ہیں، دس بیس شجر لگا دیے جاتے ہیں،کچھ ہاؤ ہو‘
ہو جاتا ہے اور پھر وہی روزوشب.... اسی طرح ہم سارے سال پانی کا ضیاع کرتے
ہیں، اسی طرح آلودگی پھیلاتے ہیں۔اور وہ گورے لوگ ! ....وہ بھی ویب سائٹس
بناتے ہیں، لاکھوںپمفلٹ چھاپتے ہیں، کتابوںپر کتابیں، تحقیق پر تحقیق....
گلوبل وارمنگ، پگھلتے گلیشئر، سمندروں کی بلند ہوتی سطح، بدلتے موسم، تباہ
کن بارشیں، سمندری طوفان اورمرتے ہوئے جنگلات، کیا کیا رپورٹس سامنے نہیں
آتیں....اسی طرح کانفرنسیں، ورکشاپس، سیمینار، دھواں دھار تقریریں....سب
ہوتا ہے لیکن نہیں ہوتاتو بڑی بڑی چمنیوں سے نکلتا ہوا دھواں کم نہیں ہوتا۔
نچلے پیمانے پر تو شاید چند سرپھرے ہمارے اس مشترکہ گھر کے لیے کچھ نہ کچھ
کرتے رہتے ہیں، لیکن اونچے پیمانے پر حکومتیں صرف بیان بازی کرتی
ہیں۔ماحولیات پر سب سے زیادہ شور ترقی یافتہ ممالک مچاتے ہیں لیکن یہ بھی
حقیقت ہے کہ ماحول کے عالمی بگاڑ کے سب سے بڑے ذمہ دار بھی یہی ممالک ہیں۔
ایٹمی تجربات، ایٹمی توانائی اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایٹمی
فضلہ سب سے زیادہ انہی ممالک میں پیدا ہوتا ہے، جو نہ صرف انسانی صحت کے
لئے مہلک ترین ہے بلکہ زمین کے لئے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس تابکار
فضلے کو عام طریقے سے ضایع نہیں کیا جا سکتا،اسی لیے انہیں مخصوص کنٹینرز
میں بند کر کے کسی دور افتادہ مقام مثلاً کسی بیابان صحرا میں دفن کر دیا
جاتا ہے یا پھر سمندر کی تہہ میں دبا دیا جاتا ہے۔ لیکن ہر وقت شدید خطرہ
موجود رہتا ہے کہ کہیں تابکار فضلہ کسی حادثے کی وجہ سے کنٹینرز سے باہر آ
جائے اوریوں زمین اور اس پر رہنے والی مخلوقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ
جائے۔
تابکار فضلہ کے علاوہ کاربن کے اخراج کے ذمہ دار بھی سب سے زیادہ ترقی
یافتہ ممالک ہیں۔ماحولیات کے حوالے سے 2009ءمیں ہونے والی کوپن ہیگن
کانفرنس اور پھر 2010ءمیں میکسیکو سٹی میںہونے والی کانفرنس میںجب یہ نکتہ
بار بار اٹھایا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک کو کاربن کے اخراج میں تیزی سے کمی
کرنی چاہیے اور اس حوالے سے ایک عالمی معاہدہ ہونا چاہیے تو یہ کانفرنسز
اختلافات کا شکار ہو گئیں۔اس موقع پر چین اور بھارت سمیت کچھ ممالک نے ترقی
یافتہ ممالک سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اپنے کارخانوں سے اُن زہریلی
گیسوںکے اخراج کو ایک مناسب سطح پہ لائیں، جس سے اوزون کی حفاظتی تہہ
کوشدید نقصان پہنچ رہا ہے اور یوں سورج کی ضرر رساں شعاعیں زمین تک پہنچ کر
فطری ماحول کو تباہ کر رہی ہیں۔لیکن ہونا کیا تھا جی، کوئی پیش رفت نہ ہو
سکی۔ یوں یہ کانفرنسیں کوئی مضبوط لائحہ عمل طے ہوئے بغیر ختم ہو گئیں۔اب
حال یہ ہے کہ 2010ءمیں ہی پاکستان میں شدید سیلاب آیا۔پھر 2011ءمیں سندھ
میں سیلاب کے ہاتھوں قیامت ٹوٹی، امریکا میں بھی دو تین سالوں کے وقفے سے
کئی بار سمندری طوفان آ چکے ہیں ، جس میں کا تازہ ترین سانحہ ابھی مئی میں
آنے والا اوکلوہاما طوفان ہے، جس میں 100سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ۔اور
تادمِ تحریر انڈیا کے شمالی علاقے بھی تباہ کن سیلاب کی زد میں ہیں، جس میں
سینکڑوں ہلاکتیںہو چکی ہیں اور ابھی بھی ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں۔ باقی دنیا
کا حال بھی ماحول،موسم اور قدرتی آفات کے اعتبار سے نہایت سنگین ہے ،لیکن
افسوس کہ کوئی بھی اپنی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چھوٹے ترقی
پذیر ممالک بھی ساری ذمہ داری بڑے ممالک کے سر پر ڈال کر خود کو بری الذمہ
قرار دے ڈالتے ہیں ، جب کہ مقامی طور پر ان کے ہاںبھی ماحولیات کا حال
انتہائی بدتر ہوتا ہے۔
حکومتوں کا رویہ عوام میں بھی باآسانی منتقل ہو جاتاہے۔ ہم دوسروں کو
چھوڑیں، اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس خود غرضی کا شکار ہم بھی ہیں۔
ہم روزانہ اپنے گھر کی صفائی کا خیال کرتے ہیںاور بھول جاتے ہیں کہ صرف یہ
چھوٹی سی چار دیواری ہمارا گھر نہیں بلکہ یہ پورا سیارہ ہمارا گھر ہے، جہاں
ہمارے بعد ہماری نسلوں نے زندگی گزارنی ہے۔ یہ زمین ہمارے پاس آنے والی
نسلوں کی امانت ہے اور صرف انسانی نسلوں کی نہیں بلکہ اس زمین پر دیگر
جانداروں کا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا ہمارا.... لیکن ہمارے کرتوتوں کی وجہ
سے دیگر جاندار وں کی نسلیں بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں
کہ کل ہماری اور جانوروں کی نسلیں اس پر ایک محفوظ زندگی گزاریں تو کوئی
کرے نہ کرے، ہمیں خود اس کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
اول ہمیں انتہائی ضرورت کے علاوہ سواری کا استعمال ترک کرنا ہو گا، کیوں کہ
سواری کا مطلب ہے ایندھن کا استعمال اور نتیجتاً کاربن کا اخراج۔یاد رکھیں،
زیادہ سے زیادہ پیدل چلنا ہمارے دل کے لیے بھی اچھاہے اور اس نیلے سیارے کے
لیے بھی!
دوم ....ہمیں کیمیکلز کا استعمال اپنی زندگی میں کم سے کم پر لانا ہو گا،
مثلاًہمیں حشرات مچھر، لال بیگ اور چیونٹیاں، کھٹمل مارنے کے لیے مختلف
کیمیکلز اور اسپرے کے استعمال سے حتی الامکان بچنا چاہیے، اسی طرح اسپرے
والے پرفیوم کی بجائے عطر پر اکتفا کرنا چاہیے، کیونکہ گھریلو سطح پر
استعمال ہونے ان اسپروں کی وجہ سے فلورو کاربن گیسز پیدا ہوکر اوزون کی سطح
کو ایسے ہی نقصان پہنچاتی ہیں جیسے کہ بڑی بڑی ملوں کی چمنیوں سے خارج ہونے
والی گیسیں....اس کے علاوہ اگر ہم کسان ہیں تو ہم کیڑے مار ادویات کا
استعمال کم سے کم کریں۔ ہم سگریٹ پینا چھوڑ دیں ، بالکل نہیں چھوڑ سکتے تو
کم کر دیں اور کم سے کم پبلک مقامات پر تو بالکل نہ پئیں۔
سوم ....ہم سودا سلف لانے کے لیے پلاسٹک شاپر کا استعمال کم ازکم اپنی حد
تک روک دیں۔ یاد کریں ہمارے بزرگ گھروں میں ایک کپڑے کا تھیلا بنا کر رکھا
کرتے تھے۔ ایسے دوچار تھیلے سلوا لیں اور انہیں ہی استعمال کریں۔ دودھ دہی
کے لیے بھی گھر سے برتن لے کر جائیں۔ یہ عام سی نظر آنے والی پلاسٹک شاپر
ماحولیات کے لیے زبردست اور مستقل خطرہ ہے۔ پھر جس طرح کی کم مائیکرون کی
تھیلیاں ہمارے ہاں بے دریغ استعمال ہو رہی ہیں، وہ تو انسانی صحت کے لیے
بھی انتہائی خطرناک ہیں۔
چہارم....کچرے کو مناسب انداز سے ٹھکانے لگائیں۔ گھریلو کچرا متعین کچرا
دانوں میں ڈالیے۔ گھر سے باہر ہیں تو ٹافیوں کا ریپر تک جیب میں ڈالیے،
ساحل پر تفریح کے لیے گئے ہیں تو وہاں کچرا پھیلانے کی بجائے ایک تھیلے میں
کچرا ڈال کر گھر لائیے اور کچرا دان میں ڈالیے۔ کسی کو کچرے میں آگ نہ
لگانے دیجیے۔ یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے اور یہ ماحولیاتی
آلودگی کا باعث بنتا ہے، کیونکہ عموماً کچرے میں ہزاروں پلاسٹک شاپرز اور
پلاسٹک کی اشیاءہوتی ہیں جن کے جلنے سے فضا میں انتہائی زہریلی گیسیں
پھیلتی ہیںجو انسانی صحت کے لئے بھی بے شمار مسائل پیدا کرتی ہیں، جن میں
سر فہرست مختلف اقسام کے کینسرہیں۔جدید تحقیق کے مطابق ایندھن اور کچرا
وغیرہ جلنے سے فضا میں سیسے کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ذہنی
طور پر کمزور بچوں کی پیدائش میں اضافہ کے ساتھ دماغی امراض میںاضافہ ہوتا
ہے۔ یہ آلودگی عورتوں اور مردوں میں بانجھ پن بھی پیدا کر سکتی ہے۔ شاید
اسی لیے شہروں کی سطح پہ مردوں میں بانجھ پن بڑھ رہا ہے۔
پنجم.... ہوا کے ساتھ ساتھ پانی کو بھی آلودہ ہونے سے بچائیے۔ملک بھر میں
صنعتی فضلہ کسی صفائی کے بغیر دریاو ¿ں کے پانی میں شامل کر دیا جاتا ہے،جس
سے نہ صرف دریاؤں کا پانی آلودہ ہوتا ہے،بلکہ یہ فضلہ زمین کی اوپری سطح
کوزہریلا کرنے کے ساتھ ساتھ زمین کے نیچے موجود میٹھے پانی کے ذخائر کو بھی
آلودہ کردیتاہے۔ اس سے آبی حیات کو بھی خطرہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ فصلیں
بھی متاثر ہوتی ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مختلف اجناس اورسبزیوں کی
کاشت میں استعمال ہونے والے پانی کے نمونوں کے تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ اس
میں کیڈمیئم، کاپر، کرومیئم، آئرن، زنک، لیڈ اور میگانیز سمیت دیگر زہریلی
دھاتیں بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ان دھاتوں سے گردوں کے امراض، ہڈیوں کی
کمزوری، سرطان، ہیضہ، اسہال، پیٹ کے امراض، وزن کی کمی، دماغی امراض، بانجھ
پن اور ہائی بلڈ پریشر جیسے طبی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے سب سے
بڑے شہر اور صنعتی حب کراچی میں تویہ صورتحال تشویشناک حد تک بگڑ چکی ہے۔
شہر کے مختلف علاقوں سے پانی کے نمونے حاصل کرکے جب ان کا تجزیہ کیا گیا تو
ان میں کئی دھاتیں عالمی ادارہ صحت کے مقررہ کردہ معیار سے زائد پائی
گئیں۔ہمارے ہاں ملیر ندی اس کی واضح مثال ہے۔ اور ستم در ستم یہ ہے کہ اسی
زہریلے پانی اور زمین میں سبزیاں کاشت کر کے کراچی کی مارکیٹ میں فروخت کی
جاتی ہیں، یوں بالواسطہ طور پر یہ زہریلے کیمیکلز زمین کے ساتھ ہمارے جسم
میںبھی سرایت کر جاتے ہیں۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف کراچی شہر میں زیر
زمین میٹھے پانی میں زہریلے کیمیکلز کی شرح سات اعشاریہ صفر نو صفر تک پہنچ
گئی ہے جو ماضی کے مقابلے میں بلند ترین شرح ہے۔
باتیں تو بہت سی ہیں،لیکن اس تھوڑے کو بہت جانیں اور ان بظاہر چھوٹی چھوٹی
ہدایات پر خود عمل کرنا شروع کر یں اور دوسروں کو ترغیب دیں، کیوں کہ باتیں
توبہت ہوگئیں، اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ورنہ یاد رکھیں اگر یہ زمین ہم
سے انتقام لینے پر تل گئی توہمیں خلاؤں میں کہیں پناہ نہ ملے گی، کیوں کہ
اب تک کائنات میں پھیلے کھربوں سیاروں میں سے کوئی زمین جیسا پانی اور ہوا
سے مزین گھر دریافت ہوا، نہ ہونے کا امکان ہے۔ |