موت بانٹنے کے مراکز

لفظ ہسپتال انگریزی لفظ Hospitalسے ماخوذ ہے، جس کا اردو مترادف شفا خانہ ہے، یعنی ایسی جگہ جہاں مریضوں کو علاج کی سہولت مہیاکی جاتی ہے، اور انہیں شفا یاب کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح طبیب کے لیے مسیحا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، یعنی وہ شخص جو بیمار وں کی دادرسی کرے، ان کے دکھ درد کی دوا کرے اور اپنے دستِ مسیحائی سے بیماروں کو اچھا کرنے کی تگ و دو کرے، لیکن اس وقت بندہ کیا کرے، جب یہی شفاخانے موت کا مرکز بن جائیں، جب مسیحا موت بانٹنے لگ جائیں.... اس وقت آدمی کیا کرے کہ جب وہ ایک مرض کا علاج کروانے ان ’شفا خانوں‘ میں جائے اور دوسرے امراض اپنے ساتھ لگا آئے۔جی ہاںیہی کچھ ہو رہا ہے ہمارے ملک کے اکثرسرکاری شفا خانوں میں....یہ سرکاری ہسپتال شفاخانے کی بجائے امراض کا گڑھ بن چکے ہیں۔یہاں صرف فرش، بستر، درو دیوار اور واش رومز ہی گندگی میں اٹے نہیں ہوتے بلکہ وہ مشینیں جو علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں، جراثیم کی افزائش گاہ کا کام دیتی ہیں۔یہاں ملنے والی ادویہ اسی فیصد غیر معیاری یا جعلی ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کسی کو اس بات میں مبالغہ محسوس ہو لیکن یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جا رہی ہے۔ خودپچھلی حکومت کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی مارکیٹ میں پچاس فیصد تک جعلی ادویہ فروخت ہو رہی ہیں، تو سرکاری شفاخانوں میں آنے والی مفت ادویہ کا معیار کیسا ہو گا، یہ بخوبی سمجھ میں آتا ہے۔ آپ پچھلے سال لاہور میں عارضہ قلب کا علاج کروانے والے ایک سو سات مریضوں کی ہلاکت کا واقعہ نہیں بھولے ہوں گے جنہوں نے ایک سرکاری ادارے سے سرکاری دوا اس امید پر حاصل کی کہ مفت میں ا ن کے دل کا علاج ہو گا لیکن وہ دوا ان کے دل کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کا سبب بن گئی۔ بتائیے اس سے زیادہ ہولناک مذاق کیا ہو گا؟

دواؤں کے ایشو کو ایک طرف رکھیے تو بھی صفائی کے انتہائی ناقص انتظامات کی وجہ سے سرکاری ہسپتال بجائے شفا خانوں کے امراض گاہ بن چکے ہیں۔یہاں جراثیم مارے کم جاتے ہیں، پھیلائے زیادہ جاتے ہیں۔خصوصاً خون کے ذریعے منتقل ہونے والے مہلک امراض کے جراثیم عملے کی ذرا سی لاپروائی سے ایک سے دوسرے مریضوں میں منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال اور غیر اسٹریلائزڈ(جراثیم سے غیر پاک شدہ) طبی آلات ہیں۔

آلودہ آلات کے ذریعے مہلک امراض کے جراثیم کی منتقلی کی حالیہ مثال پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا ہ میں محکمہ صحت اورسول سیکریٹریٹ پشاور کے افسران پر مشتمل ٹیم کی ایک انکوائری رپورٹ ہے جس میں نہایت ہولناک انکشاف کیا گیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث گردوں کے مرض میں مبتلا کئی مریض ہیپاٹائٹس بی یا سی کے مہلک امراض میں بھی نہ صرف مبتلا ہو گئے ہیں بلکہ کئی مریض ان کی وجہ سے موت کے منہ میں بھی جا چکے ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لیڈی ریڈنگ ہپستال کے ڈائلیسس یونٹ میںجراثیم سے آلودہ آلات سے گردوں کی صفائی کے دوران تقریباًپانچ سو مریض ہیپاٹائٹس بی اور سی کے جراثیم کا شکار ہوئے ہیں،جن میں چونتیس مریضوں کے نام اور پتے بھی فراہم کیے گئے ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کا ذمہ دار ڈائلیسس یونٹ کا اسٹور کیپر ہے جس نے ذرا سا مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے سینکڑوں مریضوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔

انسانی صحت سے یوں ظالمانہ کھلواڑ کرنے والے کسی ایک شہر میں نہیں پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔اور اس میں کسی حد تک خود مریض بھی ذمہ دار ہیں۔ خون کے ذریعے جراثیم منتقلی کے جن دو طریقوں کا اوپر ذکر کیا گیا، اس میں ایک استعمال شدہ انجکشن کا دوبارہ استعمال بھی ہے۔خون میں پائے جانے والے جراثیم کی منتقلی کا پہلا واقعہ جو ریکارڈ میں آیا،غیر محفوظ انجکشن کے استعمال سے ہی پیش آیا۔ یہ واقعہ 1917ءکا ہے، جب اس وقت برطانوی سپاہیوں میں ملیریا کا مرض پھوٹ پڑا اور پتا چلا کہ جن سرنجوں اور سوئیوں سے آتشک (سفلس) کے مریضوں کو انجکشن لگائے جاتے رہے، وہ اب دوسرے مرض کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔انجکشن کے ذریعے دوا دینے کا طریقہ اس لیے اختیار کیا گیاتھا تا کہ بے ہوش مریضوں یا کسی دوسری مجبوری کی وجہ سے منہ کے ذریعے دوا استعمال کرنے سے معذورافراد کو بروقت دوا دے کر ان کی جان بچائی جا سکے، مگرہمارے ہاں انجکشن لگوانا فوری طاقت یا شفا حاصل کرنے کا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔لیکن عوام کی اکثریت نہیں جانتے کہ بہت سے مہلک امراض کا ایک مریض سے دوسرے مریض تک سفراکثر یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ یہ مہلک امراض مثلاً ایڈز، ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام اور خون سے پھیلنے والی دوسری خطرناک بیماریاں آلودہ سرنج اور غیر اسٹریلائزڈ طبی آلات کے ذریعے ایک مریض سے دوسرے مریض تک سفر کرتی ہیں۔

ان آلودہ سرنجز کے دوبارہ استعمال میں بھی بالواسطہ طور پر سرکاری ہسپتال ملوث ہیں، کیوں کہ بہت کم ہسپتالوں میں استعمال شدہ سرنجیں، انجکشن اور طبی فضلہ تلف کرنے کا مو ¿ثر نظام ہے۔لہٰذا زیادہ تر استعمال شدہ سرنجیں، انجکشن اور استعمال شدہ سامان و مواد یا تو ہسپتال کا صفائی عملہ خود آگے فروخت کر دیتا ہے، یا پھرہسپتال کا یہ طبی فضلہ صحیح طرح تلف کیے بغیر پھینک دینے کی روش کی وجہ سے مفاد پرستوں کا کوئی گروہ خود اسے جمع کر کے ری سائیکل اور ری پیک کر کے مارکیٹ میں بیچ دیتا ہے۔
خون سے منتقل ہونے مہلک امراض کے پھیلاو ¿ کا ایک بڑا سبب عطائیت بھی ہے جو پاکستانی معاشرے کا ناسور ہے۔ یہ عطائی اپنے مالی فائدے کے لیے بڑے بڑے دعوے کر کے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور ان کی صحت کا کباڑا کر دیتے ہیں۔ یہ جراثیم سے بھرے آلات لیے ڈاکٹر ”چنگ شنگ دندان ساز“ کے ٹائپ بورڈ لگائے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوتے ہیں اور لوگوں کے دانتوں میں یہ آلات استعمال کر کے انہیں خون سے منتقل ہونے والے امراض ہیپاٹائٹس اور ایڈز پیسے لے کرتقسیم کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی شہر کے عوامی مقامات، بس اسٹاپ، پارک اورریلوے اسٹیشن وغیرہ دیکھ لیں، آپ کو دیواریںعطائیوں کے اشتہارات سے رنگین ملیں گی، جس میں ہر مہلک مرض کا علاج راتوں رات کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہوتا ہے، بڑے بڑے جلی حروف میں ان عطائیوں کے فون نمبرز اور ایڈریسز بھی موجود ہوں گے، لیکن کوئی ادارہ ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔

جیسا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ڈائیلسس یونٹ کی رپورٹ میں ہوا،غیر محفوظ سرنجز اور غیر اسٹیرلائزڈ طبی آلات کے بار بار استعمال سے سب سے خطرہ ہیپاٹائٹس کاہے۔ خاص طور پر ہیپاٹائٹس بی اور سی کا کیوں کہ ہیپاٹائٹس بی کے وائرس، ایڈز کے وائرس کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ موثر طور پر منتقل ہوسکتے ہیں اور ہپاٹائٹس سی کے وائرس ایڈز کے وائرس سے 10 گنا زیادہ موثر طور پر منتقل ہوتے ہیں۔اور ایک رپورٹ کے مطابق ان دونوں نامراد امراض کے علاج کامالی بوجھ دنیا میں تمام امراض سے زیادہ ہے۔ان امراض سے بچنے کے لیے ہمیں انفرادی طور پر بھی کوشش کرنی چاہیے ۔ کسی بھی باربر شاپ پر جائیں تو نئے بلیڈ پر اصرار کریں کہ یہ آپ کا حق ہے۔ ڈینٹل کلینک وغیرہ میں استعمال ہونے والے آلات کے ضمن میںبھی خاص احتیاط برتنی چاہیے ۔علاج کروانے سے پہلے اس بات کی یقین دہانی کر لینی چاہیے کہ تمام آلات اچھی طرح سے اسٹیرلائزڈ ہیں کہ نہیں۔انجکشن کا کم سے کم استعمال کریں اور ضرورت پڑنے پر ہمیشہ ایک بار استعمال ہونے والی قابل تلف نئی سرنج استعمال کریں۔ اسی طرح کسی بھی ناگہانی صورت حال میںآپ کو یا آپ کے عزیز کو خون کی ضرورت ہو تو چھوٹے چھوٹے غیر معروف بلڈ بینک کی بجائے مستند بلڈ بینک جو اسکرین شدہ خون کی ضمانت دیتے ہوں،سے خون لینا چاہیے۔ یاد رکھیے یہ چند چھوٹی چھوٹی ہدایات آپ کو مستقبل کی بڑی بڑی پریشانیوں سے بچاسکتی ہیں۔ اور ہاں ایک اوراہم ترین ہدایت تو بھول ہی گئے....اگرہو سکے تو سرکاری ہسپتالوں سے علاج کروانے سے اس وقت تک بچیے جب تک حکومتی مشینری کے تمام افراد اورتمام وزراءکے لیے سرکاری ہسپتال سے علاج کروانا لازم نہ قراردے دیا جائے۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ آپ گردوں کے مرض کے علاج کے لیے ہسپتال جائیں اور واپسی میں کالے یرقان کا تحفہ ساتھ لیتے آئیں۔دیکھیے ناںگردوں کے مرض میں مبتلا مریض اس مرض سے تو بچ جائے لیکن کالے یرقان سے مر جائے تو کتنی ستم ظریفی کی بات ہے!!

Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174618 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More