لذتِ آشنائی ۔،۔،۔ (آخری قسط)

چہرے کی زیارت سے لذت آشنائی کے ایک ایسے سفر کا منظر میری نگاہوں میں گھوم رہا ہے جو تاریخِ انسانی میں بالکل منفرد بھی ہے اور جس کی دوسری نظیر اور مثیل ملنا بھی ممکن نہیں ہے۔ سرکارِ دو عالمﷺ کے دل میں جب مشرکینِ مکہ کی ا یذا رسانیوں کے بعد خدا کے دیدار کی خو اہش شدید تر ہوگئی اور آپﷺ نے اپنے رب سے اس کا بر ملا اظہار بھی کر دیا تو پھر ما لکِ ارض و سما کے پاس اس در خو است کو قبول کرنے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا تبھی تو ربِ کائنات نے ا پنے محبوب کی درخواست کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے انھیں لا مکاں کے سفر کا حکم صادر فرما دیا تھا۔ سدرة المنتہی جہاں جبرائیل کے بھی پر جلتے ہیں اور جہاں سے پرے کسی ذی روح کو جانے کی اجازت نہیں ہے ربِ ذولجلالال نے اپنے محبوب کے ا ستقبال کی خا طرساری حد بندیوں کو توڑ نے اور سارے پردوں کو ہٹا دینے کا حکم جاری کر دیا ۔کن فا یَکون اپنا رنگ دکھاتا ہے ِنا ممکنات ممکنات میں بدل جاتی ہیں اور سفرِ معراج حقیقت کا جامہ پہنتا ہے جس میں وقت کی طنابیں کھینچ لی جاتی ہیں اور زمان و مکان کی حرکت روک لی جاتی ہے۔ ہزار ہا سالوں کا سفر ایک رات کے معمولی حصے میں تکمیل پذیر ہوتا ہے جسکی کواہی گرم بستر اور دروازے کی ہلتی ہوئی کنڈی دیتی ہے ۔ سَرِ لامکاں میں محب اور محبوب ایک دوسرے کے اتنے قرب ہو جاتے ہیں جتنا دو کمانوں میں فاصلہ ۔ لیکن کعبہ قوسین و ادنی کے اس منفرد اور اچھوتے منظر کو دنیا آج بھی سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ یہ اس کے فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ عقل اور عشق میں یہی بنیادی فرق ہے کہ جہاں عقل کی حدیں ختم ہو جاتی ہیں وہی سے مقامِ عشق کا آغاز ہوتا ہے۔ عشق تشکیک نہیں یقین کا نام ہے لہذا عشاق سفرِ معراج کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں اور اس پر صدقِ دل سے یقین رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ خالقِ کائنات اور محبوبِ خدا کے درمیان معاملہ ہے لہذا بہتر ہے کہ محب اور محبوب کے اس معاملے کو پردوں میں ہی رہنے دیا جائے کہ یہی اسکا تقاضہ ہے۔ خدائے بزر گ و بر تر نے اسی سفر ِ مبارک میں اپنے محبوب کو آنے والے زمانوں کے سارے مناظر دکھائے۔ جنت و دوزخ کا مشاہدہ بھی کروایا اور امت کی بخشش کا وعدہ بھی فرمایا ۔اسی سفرِ لامکاں سے واپسی پر حضرت موسی کی تاجدارِ کائنات سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے نمازوں کے زیادہ ہونے کا حسین عذر تراش کر سرکارِ دو عالمﷺ کو کئی بار خدا کے پاس واپس بھیجا ۔اس سارے عمل کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ جب آقائے دوجہاں اپنے خدا کے دیدار کے بعد واپس لو ٹیں تو حضرت موسی سررِ دوعالم ر ﷺکے چہرہِ پر نور کی زیارت سے فیضیاب ہوتے رہیں ۔ دیدارِ خدا کی حسرت اب بھی حضرت موسی کے دل میں جوان تھی او روہ اسی مخصوص رنگ کو سرکارِ دو عالمﷺ کے چہرہِ مبارک پر دیکھنے سے دیدار ِ خدا کی اپنی تشنہ آرزو کی تکمیل چاہتے تھے اور اس رنگ کو بار بار دیکھنے کےلئے ہی سرکارِ دو عالمﷺ کو بار گاہِ خداوندی میں واپس بھیجنے کا انداز اپنا رہے تھے ۔ جس تجلی کے نتیجے میں کوہِ طور بھی جلا تھا اور جسے حضرت موسی خود بھی خود برداشت نہ کر پائے تھے، اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھے تھے اور بے ہوش ہو گئے تھے وہ اب بھی اسی طرح جوان تھی بالکل ویسے ہی جیسے حسنِ یوسف کی تجلی کے سامنے زلیخا کی سہیلیاں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی تھیں اور پھلوں کی بجائے اپنے ہی ہاتھوں کا کاٹ لیاتھا۔تجلی کبھی کبھی جلا بھی دیا کرتی ہے کوہِ طور اس کی علامت بنا کھڑا ہے مگر ہم غور نہیں کرتے ۔مجھے قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے اگر حضرت موسی کے بس میں ہوتا تو وہ قیامت تک محبوبِ خدا کے رخِ روشن کی کی زیا رت کا یہ انداز دہراتے رہتے اور اپنی تشنہ آرزوﺅں کی تکمیل کرتے رہتے لیکن انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ محبوبِ خدا کے دیدار کا انعام یوں ہی نہیں ملا کرتا ۔علامہ اقبال نے لذتِ آشنائی کے اس روح پرور منظر کو بڑے ہی منفرد اور دلکش انداز میں شعر کے قالب میں ڈھالا ہے ۔سنئے اور اور وجد میں آ جائیے۔۔۔۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو ۔۔۔عجب چیز ہے لذ تِ آشنائی

عزیزانِ من اگر ہم تاریخِ انسانی کا بغور مطالعہ کریں تو یہ ھقیقت اظہر من الشمس نظر آتی ہے کہ دنیا کی موجودہ صورت گری مڈل کلاس کے ذہین و فطین افراد کی مرہونِ منت ہے۔اسی کلاس سے وہ گوہرِ تا بدار پیدا ہوئے جھنوں نے لاجواب ادب،حیرت انگیز سائینسی کرشموں اور جدید کمپیوٹر کی ایجاد سے اس کرہِ ارض کا پورا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔پردے کی چلمن سے کبھی ابنِ ہیتھم نمودار ہو تے ہیں ،کبھی ابنِ سینا اپنے کمالات دکھاتے ہیں۔کبھی آئزک نیوٹن اور پھرکبھی آئن سٹائن سائنسی انکشافات سے اس دھرتی کی قسمت بدل دیتے ہیں ۔یہی پر عطا ر،مولانا روم، امام رازی، امام غزالی،خوارزمی ،ابنِ خلدون ، عمرِخیام ، حافظ۔فردوسی،سعدی، اور ابنِ تیمیہ اپنی دنیا سجاتے ہیں ۔یہی سے اولیائے اللہ کا ایک سلسلہ ابھرتا ہے جو پوری دنیا میں خدا کے نام کو بلند کرتا اور اس کی عظمتوں کے گیت گاتا ہے۔جو انسانوں کو بے راہروی کی بجائے راستی کی راہ پر پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور یوں ان کی دنیا و آخرت کو سنوارنے اور بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اسی مڈل کلاس میں دنیائے ادب کی عظیم ترین شخصیت اقبال کا جنم ہوتا ہے۔یہی سے قائدِ اعظم محمد علی جناح نمودار ہو کر تخلیقِ پاکستان کا معجزہ سر انجام دیتے ہیں۔ یہی سے چین کے ماﺅزے تنگ اورروس کے لینن سر ابھارتے او ر سوشلٹ معاشرے کی بنیادیں استوار کرتے ہیں۔اسی کلاس سے ابراہم لنکن دنیائے سیاست میں نمودار ہو کر غلامی کو تذلیلِ انسانی کہہ کر اس کو ممنوع قرار دے کر اس کے خا تمے کا اعلان کرتے ہیں۔ جنوبی افریکہ کے نیلسن منڈیلا نسلی امتیاز کے بت کو پاش پاش کر تے ہیں اور پھر ایران میں اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا سلسلہ آئیت اللہ روح اللہ امام خمینی کی ضربِ حیدری سے قصہ پارینہ بن جاتاہے اور اس کا آخری شہنشاہ انتہائی کس مپرسی کے عالم میں نشانِ عبرت بن کر اس جہانِ فانی سے ر خصت ہو جاتا ہے ۔عزیزانِ من میں بھی اسی مڈل کلاس قبیلے کے لشکر کا ایک سپاہی ہوں اور اس کلاس کا نمائندہ ہوں جو سیم و زر سے نہیںعلم و فن اور انسانیت سے محبت کی دعوی دار ہے یہ الگ بات کہ مجھے آسمانِ علم و حکمت پر کسی درخشاں ستارے کا روپ عطا نہیں ہو سکا ۔ لیکن یہ کیا کم ہے کہ میرے دل میں پرورش پانے والے علم و حکمت سے محبت کے منہ زور اور تند خو جذ بوں کو چھینا نہیںجا سکتا کہ یہی میری کل متاع ہے۔سچ تو یہی ہے کہ ا پنی تہی دامنی کے باوجود بھی اس مخصوص کلاس کا ہر ذی شعور فرد اپنی محبت کی دنیا پر ضعف نہیں آنے دیتا بلکہ مشکل ترین لمحات میں بھی علم وفن کی ترویج اور انسانیت کی سر بلندی کا علم اٹھائے رکھتا ہے۔ وہ لذتِ آشنائی کی رمز کو بھی سمجھتا ہے،اس کی شیرینی سے بھی آگاہ ہوتا ہے ،وہ اس کی نزاکتوں کا ا حساس بھی رکھتا ہے اور دنیا کی نئی صورت گری میں اپنے کردار،عزم اور جذبوں کا مکمل ادراک بھی رکھتا ہے۔اسے علم ہے کہ اس کی محنت اور جستجو کے بغیر یہ دنیا ایک با نجھ عورت کی مانند ہے۔اس دنیا کی ساری دلچسپیوں کا محور اس کی وہ وجدانی قوت ہے جو اس دنیا میں رنگینیوں اور کشش کے بیج بوتی ہے اور اس کی دلکشی اور جاذبیت میں چار چاند لگا دیتی ہے۔اسے دنیا کی ان ساری عطا کردہ سہولیات سے ذاتی طور پر بہرہ ور ہونے کی فکر دامن گیر نہیں ہوتی بلکہ وہ اسے انسانیت کی فلا ح اس کی بہبود اور اس کے ارتقا کے پیشِ نظر اپنی ساری خداداد صلاحیتوں کا برملا اظہار کرتا ہے ۔اس کی ذا تی خوشی انسانیت کی خوشی سے بڑی نہیں ہوتی کیونکہ ذاتی خوشی اس کا مطمعِ نظر نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کےلئے وہ غیر اخلاقی راہوں کا مسافر بنتا ہے۔ وہ انسانی قدروں کے احیا اور اس کی سر بلندی کےلئے ہمہ وقت مستعد رہتا ہے۔لذتِ آشنائی کی قوت اس میں عزم و ہمت کے جذ بوں کی آبیا ری کرتی ہے،وہ دنیا و مافہیہا سے بے خبراپنی ہی دھن میں مگن رہتا ہے۔ اسے اپنے محبوب کی خوشنودی بہت عزیزز ہوتی ہے لیکن وہ اپنی خودی اور انا کو بھی جھکنے نہیں دیتا تبھی تو وہ بے پناہ یقین اور اعتماد کی بدولت ہر فورم اور ہر پلیٹ فارم پر ببانگِ دہل اعلان کرتا رہتا ہے۔۔
۔۔۔۔انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آﺅ۔۔۔۔۔۔میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے ۔۔۔۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 620 Articles with 454499 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.