مظلوم ترین جانور

گدھا واقعی مظلوم جانور ہے۔ ایک تو اس لیے کہ وہ ہے ہی گدھا، دوسرا لوگ بھی اسے گدھا سمجھ کر ”گدھوں“ جیسا کام لیتے ہیں۔ یہ بہت محنتی ہے، اسی لیے جب کوئی بہت زیادہ کام کرے تو کہتے ہیں، دیکھو! گدھے کی طرح کام کررہا ہے۔ تماشا دیکھیے، کسی کو بے وقوف کہنا ہو تب بھی اسے گدھا قرار دے دیا جاتا ہے۔ یعنی پتا چلا بہت سے لوگ محنت کرنے والوں کو گدھا ہی سمجھتے ہیں۔ آدمی کو بس ٹی سی کا ماہر ہونا چاہیے، سب کو گدھا بناسکتا ہے۔ ہمارے ہاں گدھے سے کام تو ڈٹ کر لیا جاتا ہے لیکن کوئی اس کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھنے کو تیار نہیں، ادھر انکل سام کے دیس میں دیکھیے، گدھے کو اتنی عزت حاصل ہے کہ بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہے کاش امرےکا انہیں گدھا ہی سمجھ لیتا۔ ویسے جانوروں میں سب سے خوبصورت گدھے کا نومولود ہوتاہے۔ بات کہیں اور نکل رہی ہے، کہہ یہ رہا تھا تمام تر ظلم وستم کے باوجود گدھا مظلوم تو ہے لیکن مظلوم ترین کوئی اور ہے۔

آپ نے 8کلو کے بچے کو 15 کلو کا اسکول بیگ اٹھائے ہوئے دیکھا ہوگا، ”علم“ کے بوجھ سے بے چارے کی بچپن ہی میں کمرجھک جاتی ہے۔ یہ بھی بہت مظلوم مخلوق ہے۔ اِدھر ماں کا دودھ پینا چھوڑا، اُدھر کتابوں کی صورت میں پٹھو اس پر لاد دیا گیا۔ یہاں کراچی کی محمد علی سوسائٹی میں تو ایک ایسا اسکول بھی دیکھا جہاں بچے کی ولادت سے قبل ہی ایڈمشن کرانا پڑتا ہے۔ سنا ہے شہر میں ایسے بہت سے اسکول ہیں۔ انسان تو ویسے بھی جانوروں میں شامل ہے لیکن طلبہ تو شاید رہتے ہی چڑیا گھر میں ہیں، اس لیے انہیں الو، گدھا، بندر جیسے ”خوبصورت“ ناموں سے پکارنا عام بات ہے۔ اس طبقے کی زیادہ ”مظلومیت“ کا ذکر نہیں کروں گا، کہیں ایسا نہ ہو یہ جو سارا دن اور ساری رات پڑھتے رہتے ہیں، اسے چھوڑ کر رونے پیٹنے میں لگ جائیں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ طلبہ بھی مظلوم تو ہیں لیکن مظلوم ترین نہیں۔

لوگ سیاست دانوں کو بھی مظلوم جانور کہتے ہیں۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں، جسے دیکھو سیاست دانوں کو کوستا ہوا ملے گا۔ ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو گھر میں بھیگی بلی بنے ہوتے ہیں اور باہر ”شیر“ کو آنکھیں دکھا رہے ہوتے ہیں۔ بھیا! شیر سے مذاق اچھا نہیں ہے۔ اپنا11مئی والا شیر تو بہت بھوکا نکلا، اس نے تو پنجرے سے نکلتے ہی لوگوں کو کھانا شروع کردیا ہے۔ دنیا میں شاید سب سے زیادہ گالیاں پاکستانی سیاست دانوں کو پڑتی ہیں اور پھولوں کی پتیاں بھی سب سے زیادہ انہی پرنچھاور کی جاتی ہیں۔ بہرحال سیاست دان خود کو بہت مظلوم سمجھتے ہیں اور ہم بھی ان کے حامی ہیں لیکن معذرت، انہیں بھی مظلوم ترین جانور قرار نہیں دیا جاسکتا۔

تو پھر مظلوم ترین جانور کون سا ہے؟ میں ہوں، آپ ہیں، اس لیے کہ ہم کرایہ دار ہیں۔ ایک کرایہ دار پر کیا کچھ بیتتی ہے، اگر بیان کرنے لگوں تو آپ رو روکر دریا بہادیں گے، مگر کیا فائدہ
ہم نے رو روکر دریا بہادیے
وہ آئے اور نہاکر چل دیے

ہمارے رونے پیٹنے کا مالک مکان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ الٹا وہ اسے ہمارا ناٹک سمجھیں گے۔ بھئی دیکھو، پوری دنیا میں کرائے کا نظام ہے، مگر اس کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے، پر اپنے ہاں تو مالکان تیزدھار چھری لیے پھرتے ہیں۔ کس جگہ کا کتنا کرایہ ہونا چاہیے؟ اس کے لیے کوئی اصول نہیں، جو منہ سے نکل گیا وہی کرایہ ٹھہرا۔ کرائے میں سالانہ اضافے کا باقاعدہ قانون موجود ہے لیکن مالکان اپنی ضرورت کے مطابق کرایہ بڑھادیتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب بتا رہے تھے کہ وہ ایسی عمارت میں رہتے ہیں جہاں چار فلیٹ ہیں۔ مالک نے اچانک کرائے میں 4ہزار روپے کا اضافہ کردیا، سبب پوچھا تو بولے بیٹے کا مہنگے کالج میں داخلہ کرایا ہے، اس کی فیس 4 ہزار بڑھ گئی تھی، سوچا کرایہ داروں سے تعاون لے لوں۔ ان صاحب کو کون بتائے تم نے تو کرایہ داروں پر ”تعاون“ تھوپ دیا، وہ یہ ”تعاون“ کہاں سے لائیں؟ ایک صاحب کہہ رہے تھے انہوںنے نئے کپڑے پہننا کم کردیے ہیں اور پھل وغیرہ بھی چھپ چھپاکر گھر لاتے ہیں، کیونکہ پہلے جب بھی مالک مکان مجھے زیادہ خرچ کرتے دیکھتا کرائے میں اضافے کے لیے پر تولنے لگتا۔ ہم نے اچھی خاصی ”اسامیوں“ کو محض کرائے میں اضافے کے ڈر سے مالکان کے سامنے غربت کا رونا روتے دیکھا ہے۔

ایڈوانس کا معاملہ بھی عجیب ہے، مہینے دو مہینے کا کرایہ پیشگی وصول کرنا سمجھ میں آتا ہے، یہ دس دس گنا وصول کرنا تو سیدھا سیدھا ظلم ہے۔ اس پر بس نہیں، بعض لوگ تو بعد میں بھی ایڈوانس وصول کرتے رہتے ہیں۔ ایک دوست کو مکان دلوایا، پانچ مہینے کے کرائے کے برابر رقم ایڈوانس دے دی۔ چند ماہ کے بعد پھر مالک آٹپکا، کہنے لگا بچی کی شادی ہے، ایڈوانس کی مد میں مزید 20 ہزار روپے دے دیں، ورنہ.... اب اس ورنہ کے سامنے وہ کیا کرتا، دوستوں سے مانگ تانگ کر مالک کی ضرورت پوری کردی۔ پیسوں سے ہٹ کر دوسرے معاملات کو دیکھیں، تب بھی ہمارے ہاں مالکان مکان کا کردار کوئی مثالی نہیں ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نکالنے کی دھمکیاں معمول ہے۔ ہم سیکنڈ فلور پر رہتے تھے، اگر کبھی غلطی سے بھی کوئی برتن وغیرہ گر جاتا تو نیچے سے مالکن مع بیٹیوں کے دوڑتے ہوئے اوپر آتیں، ارے خیر تو تھی، ہم تو سمجھے چھت گر گئی.... اب ان سے کون پوچھتا کہ محترمہ کیا یہ چھت سیمنٹ کی بجائے مٹی گارا لگاکر بنائی ہے اور کیا آپ کے دستِ مبارک سے کبھی کوئی چیز نہیں چھوٹتی۔ ہمارے ہاں تو بچے نہیں ہیں، جن کے ہوں وہ پھنسے رہتے ہیں، بچے کی ہلکی سی اچھل کود کو بھی مالکان 7ڈگری کے زلزلے سے کم نہیں سمجھتے۔ ہمارے سامنے والے فلیٹ میں مالک مکان اور کرایہ دار پانی پر ہی الجھتے رہتے تھے۔ مالک کا رونا تھا ”صاحب! یہ دن میں دو دو بار نہاتے ہیں، بچوں کوبھی روز نہلاتے ہیں، فرش دھونا بھی انہوںنے خود پر فرض کیا ہوا ہے۔“ اب آپ بتائیں، ان میں سے کون سی غلط بات ہے، اب کیا آدمی خود اور اپنے گھر کو صاف ستھرا نہ رکھے لیکن مالک کو کبھی یہ سمجھ میں نہےں آتی تھی، حالانکہ کرایہ دار سے پانی کی مشین کا الگ سے بل بھی لیا جاتا تھا۔

مجھے لگ رہا ہے، کرایہ داروں کی یہ داستانِ ظلم سن کر آپ کا دل نرم پڑنے لگا ہے، مزید کچھ لکھا تو آپ رو پڑیںگے، ہم آپ کو رلانا نہیں چاہتے۔ اس لیے کالم کو یہیں ختم کردیتے ہیں، باقی باتیں پھر کبھی ہوں گی، ویسے میرا مالک مکان اچھا آدمی ہے، میری تنخواہ میں ہزار روپے اضافہ ہوا ہے اور اس نے صرف 800 روپے کرایہ بڑھایا ہے!

munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 101936 views i am a working journalist ,.. View More