عبدالمجید اعوان
انسانی زندگی کی بقاءکے لئے ہوا اور خوراک کی اہمیت سے انکار دن کو رات
کہنے کے مترادف ہے ۔اسی طرح انسان کی حقیقی فلاح وبہبود کے لئے صحیح تعلیم
وتربیت سے انکار کرنا بھی حقیقت سے منہ موڑنے کے مترادف ہے ۔کسی بھی انسان
کے لئے سب سے اہم چیز اسکا عقیدہ ا ور مذہب ہوتاہے ۔بلکہ یوں کہا جائے تو
بے جانہ ہوگا ۔کہ انسانی زندگی کی تمام تر کوششوں کا محور اسکا عقیدہ اور
اسکے ذہنی افکار ہی ہوتے ہیں۔
کسی بھی انسان کی سب سے پہلی درسگاہ اسکا گھر اور اسکا وہ ماحول ہوتاہے
جہاں وہ پرورش پارہا ہو تاہے ۔وہ ماحول اسکی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا
ہے ۔بقول شخصے ” بچپن کی عاد پچپن تک جاتی ہے “ بچہ اپنے اردگرد کے ماحول
سے غیر شعوری طور پر گہرا ثر قبول کرتاہی چلا جاتاہے جسکا اظہار چند سالوں
کے بعد اس کے اقوال وافعال سے ہونے لگتا ہے ۔حضرت غوث اعظم شیخ عبدالقادر
جیلانی ؒ کے بارے میں ٹھوس ذرائع سے یہ بات ثابت ہے کہ جب انکو دودھ چھڑا
یا گیا تو قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ انہیں حفظ یاد تھا ۔اس طرح ماضی قریب
کے ایک ہندوستانی عالم مولانا یحیٰ کاندھلوی ؒ کے بارے میں میں بھی منقول
ہے کہ جب انہیں دودھ چھڑا دیا گیا توا نہیں پاﺅ پارہ حفظ یا د تھا ۔کیونکہ
ان دونوں بزرگوں کی مائیں اکثر اوقات تلاوت کرتے ہوئے گزارتیں تھیں ۔
ان دومثالوں سے یہ بات بخوبی سمجھی جاسکتی ہے کہ بچپن کے وہ ایام جوغیر
شعوری کہلاتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر گود مادر کی زندگی میں بھی انسان کے
اندر اپنے ماحول کا اثر قبول کرنے کی صلاحیت اور مادہ کتنا زیادہ ہوتاہے ۔
غیر شعوری ایام کو کراس کرکے جب انسان اپنی زندگی کے شعوری دور میں داخل
ہوتاہے تو اسکا مادہ ادراک او زیادہ بڑھ جاتاہے ۔اسکے اندر اپنے ماحول
اورمعاشرے سے اثر قبول کرنے کی صلاحیت سے اثر قبول کرنےکی صلاحیت میں بے
پناہ اضافہ ہوجاتاہے ۔
رفتہ رفتہ جب وہ حد بلوغت کو پہنچ جاتاہے تو وہ اپنے بچپن میں بنی ہوئی
ذہنیت کو بنیا د بنا کر خود ہی اس پر عمار ت کھڑی کرنا شروع کردیتاہے ۔اگر
اسکی بنیاد مثبت جیت کی ہو تو اسی پہلو سے وہ مزید ترقی کر تا چلا جا تاہے
اور اگر خدانخواستہ بنیاد منفی جیت کی ہے تو اس پر کھڑی ہونے والی عمارت
بھی منفی رخ ہی کی ہوتی ہے ۔
اگر کوئی شخص منفی جیت کو مثبت میں تبدیل کرنا چاہے تو یہ کہنا تو شاید
حقیقت کے خلاف ہو کہ یہ ناممکن ہے ۔لیکن اتنی بات واضح ہے کہ یہ مشکل سے
مشکل تو ضرور ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کس نہج پر کر رہے ہیں ۔جن ہاتھوں میں
اور جن گودوں میں وہ بچے تربیت پارہے ہیں ان کی اپنی معاشرت اور اخلاقیات
کا کیا حال ہے؟ نونہالان قوم اپنے ارد گرد کے ماحول میں جو کچھ دیکھ رہے
ہیں اور سن رہے ہیں اسکا معیا رکیا ہے ؟کیا ہم اپنے بچوں کو قابل اطمینان
رخ پر ڈال رہے ہیں یا نہیں ؟ کیا یہ محض ایک سرسری مسئلہ ہے یا اسکی طرف
گہری توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے ؟
فیصلہ ہم سب نے کرنا ہے اور فیصلہ کرنے میں دیر ہرگز نہ کیجئے ورنہ بقول
اقبال مرحوم
فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف |