دنیاوی اور سیاسی حیثیت سے بھی
اس کی اہمیت بالکل واضح ہے، تمام عرب ممالک حجازِ مقدس ، مکہ، مدینہ ،
لبنان، شام ، مصر، طرابلس، الجزائر، تیونس، مراکش، بحرین، کویت وغیرہ وغیرہ
چھوٹی بڑی بیسیوں ریاستیں عربی قوموں کی ہیں، عربی ممالک ہیں، ان سے تعلقات
قائم رکھنے کے لئے اور ان میں اسلامی نفوذ پیدا کرنے کے لئے عربی زبان کی
کتنی شدید ضرورت ہے۔ ان ممالک میں جو عربی لٹریچر دینی اور سیاسی کتابیں
ہزاروں کی تعداد میں شائع ہورہی ہیں، رسائل واخبارات کا تو ٹھکانہ ہی نہیں،
ان ممالک کو معلموں کی ضرورت ہے، انجینئروں کی حاجت ہے، ڈاکٹروں کی ضرورت
ہے؟ ان ممالک میں تجارت کے ذرائع پیدا کرنے کے کارخانے قائم کرنا، ان ممالک
میں عربی زبان میں اپنے سیاسی مقاصد و مفادات کی اشاعت کرنا انتہائی اہم
وقتی تقاضے ہیں، ان سب کے لئے عربی زبان کی کتنی شدید ضرورت ہے۔
علاوہ ازیں ان ممالکِ عربیہ میں دنیا کی ثروت و دولت کا جو سیلاب آیا ہے اس
سے بقیہ غیر عربی ممالکِ اسلامیہ کو مستفید ہونے کے لئے بھی عربی زبان کی
کتنی اہمیت ہے، مشرقی دنیا میں انڈونیشیا جو مسلمانوں کی بڑی حکومت ہے،
وہاں عربی کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے، اسی لئے امام شافعی کے مذہب
میں تو کچھ نہ کچھ عربی سیکھنا فرضِ عین کا درجہ رکھتا ہے، بقیہ اماموں
مالک وابوحنیفہ واحمد بن حنبل کے نزدیک بھی عربی سیکھنا فرضِ کفایہ ہے،
ادبی حیثیت سے بھی عربی کی خصوصیات بے حد لطیف مگر تفصیل طلب ہیں، کاش
ہمارے ملک میں ہماری یونیورسٹیوں، کالجوں، اسکولوں اور ان کے اربابِ اقتدار
کو اس طرف توجہ ہوجائے اور اس کی اہمیت محسوس کرنے لگیں۔
ہمارے اسلافِ کرام کے علمی و فنی ذخائر علوم ومعارف کے حیرت انگیز ذخیرے
تمام کے تمام عربی زبان میں ہیں۔ عالمِ اسلام اور عالمِ عربی کے اتحاد کے
لئے عربی زبان ایک قومی رابطہ ثابت ہوسکتی ہے، ہمارے حکمران دین کے لئے
انہیں اپنی سیاسی ودنیوی اغراض کے لئے ہی عربی زبان پر توجہ دیتے تو آج
پاکستان اور عالمِ اسلام کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
بہرحال کہنا یہ ہے کہ عربی زبان کی عظمت و اہمیت دینی سیاسی ادبی ہر جہت سے
مسلَّم ہے، ہم سے تقاضا ہورہا ہے کہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ (جامعۃ العلوم
الإسلامیہ بنوری ٹاؤن) کی طرف سے کوئی عربی پرچہ بھی جاری کیاجائے۔ بہت کچھ
سوچا لیکن ہماری دینی درسگاہوں کی کم ذوقی وغفلت، ہمارے طلبہ وعلماء کی بے
حسی اور عربی زبان سے بے رغبتی یاعدمِ مہارت اس کی اجازت نہیں دیتی، تاہم
فی الوقت یہ ارادہ کرلیا ہے کہ بینات میں چار پانچ صفحے عربی مضامین کے لئے
مخصوص کئے جائیں لیکن ساتھ ساتھ اس کا اردو ترجمہ بھی ہو، تاکہ عربی اور
ادبی ذوق کے مالک حضرات عربی سے لطف اندوز ہوں اور عام قارئینِ کرام اس کے
ترجمہ سے محظوظ ہوں، اﷲ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔[بینات عربی زبان
میں ڈاکٹر حبیب اﷲ مختار شہید کے دور سے شائع ہورہا ہے]․ (بصائر
وعبر:۲۹۶/۱)۔
عربی زبان سے نابلد مفسرین ومفکرین پر تنقید فرماتے ہیں:
بہرحال جب انتہائی علمی قابلیت والے انتہائی ذکاوت والے فتنوں میں مبتلا
ہوسکتے ہیں تو ایسے حضرات کہ جن میں علمی قابلیت بہت کم، لیکن قلمی قابلیت
بہت زیادہ ہو، صحبتِ اربابِ کمال سے یکسر محروم ہوں، طباع وذہین ہوں، وہ تو
بہت جلد اعجاب بالرائے کی خطرناک بلا میں مبتلا ہو کر تمام امت کی تحقیر
اور تمام تحقیقاتِ امت کا ستخفاف اور تمام سلفِ صالحین کے کارناموں کی
تضحیک اور اول سے لے کر آخر تک تمام پر تنقید کرکے خطرناک گہرے گڑھے میں گر
کر تمام نسل کے لئے گمراہی کا باعث بن جاتے ہیں، اس قسم کے لوگوں میں سے آج
کل کی ایک مشہور شخصیت جناب ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کی ہے جو بچپن ہی سے
طباع وذہین مگر معاشی پریشانی میں مبتلا تھے، ابتداء میں اخبارِ مدینہ
بجنور میں ملازم ہوئے اور پھر دہلی میں جمیعت علماء ہند کے اخبار ’’مسلم‘‘
سے وابستہ رہے، پھر چند سالوں کے بعد اخبار ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی میں ملازم
ہوئے، جو جمعیت علماء ہند کا ترجمان تھا، دہلی سے نکلتا تھا غالباً سہ روزہ
تھا۔ تاریخ کے جواہر پاروں کے عنوان سے ان کے مضامین بہت آب و تاب سے نکلے
تھے، اس طرح مودودی صاحب کی قلمی تربیت مولانا احمد سعید صاحب کے ذریعہ
ہوتی گئی، والدِ مرحوم کی وفات کی وجہ سے اپنی تعلیم نہ صرف یہ کہ مکمل نہ
کرسکے بلکہ بالکل ابتدائی عربی تعلیم کی کتابوں میں رہ گئے، نہ جدید تعلیم
سے بہرہ ور ہوسکے ،پرائیویٹ انگریزی تعلیم حاصل کی اور انگریزی سے کچھ
مناسبت ہوگئی، اس دور کے اچھے لکھنے والوں کی کتابوں اور تحریرات اور مجلات
و جرائد سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا، اور قلمی قابلیت روز افزوں ہوتی گئی،
بدقسمتی سے نہ کسی دینی درسگاہ سے فیض حاصل کرسکے، نہ جدید علوم کے گریجویٹ
بن سکے، نہ کسی پختہ کار عالمِ دین کی صحبت نصیب ہوسکی اور ایک مضمون میں
خود اس کا اعتراف کیا ہے جو عرصہ ہوا کہ ہندوستان متحدہ میں مولانا عبدالحق
مدنی مراد آبادی کے جواب میں شائع ہواتھا، بلکہ بدنصیبی سے نیاز فتح پوری
جیسے ملحد وزندیق کی صحبت نصیب ہوئی، ان سے دوستی رہی ان کی صحبت ورفاقت سے
بہت کچھ غلط رجحانات و میلانات پیداہوگئے، حیدرآباد دکن سے ۱۹۳۳ء میں
ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ جاری کیا، آب وتاب سے مضامین لکھے بہتر سے بہتر
پیرائے میں کچھ علمی و قلمی چیزیں ابھرنے لگیں، ان دنوں ملک کی سیاسی فضا
مرتعش تھی، تحریکِ آزادیٔ ہند فیصلہ کن مراحل میں تھی، ہندوستان کے بہترین
دماغ اسی کی طرف متوجہ تھے، مودودی صاحب نے سب سے ہٹ کر اقامتِ دین اور
حکومتِ الٰہیہ کا نعرہ لگایا اور تحریکِ آزادی کی تمام قوتوں پر بھرپور
تنقید کی، ان کے بھولے بھالے مداح یہ سمجھے کہ شاید دینِ قیم کا آخری سہارا
بس مودودی صاحب کی ذات رہ گئی ہے، چنانچہ بہت جلد سید سلیمان ندوی، مولانا
مناظر احسن گیلانی اور عبدالماجد دریا بادی کے قلم سے خراجِ تحسین وصول
ہونے لگا، ظاہر ہے کہ اس وقت مودودی صرف ایک شخص کا نام تھا، نہ اس وقت اس
کی دعوت تھی، نہ جماعت تھی نہ تحریک تھی، ان کی تحریرات اور زوردار بیانات
سے بعض اہلِ حق کو ان سے توقعات وابستہ ہوئیں، ان کی آمادگی اور چوہدری
محمد نیاز کی حوصلہ افزائی سے پٹھان کوٹ میں ’’دارالاسلام‘‘ کی بنیاد ڈالی
گئی، لیگ و کانگریس کی رسہ کشی شروع ہوگئی تھی، ان کے قلم سے ایسے مضامین
نکلے اور سیاسی کشمکش کے نام سے ایسی کتاب وجود میں آگئی کہ ہم نوا حضرات
سے اس کو خراجِ تحسین حاصل ہوا اور سیاسی مصالح نے اس کو پروان چڑھایا،
لاہور میں اجتماع ہوا اور باقاعدہ امارت کی بنیاد ڈالی گئی اور ان کی ایک
لکھی تقریر پڑھی گئی جس میں بتایا گیا کہ امیرِ وقت کے لئے کیا کیا امور
ضروری ہیں، اربابِ اجتماع میں مشہور شخصیتیں جناب مولانا محمد منظور
نعمانی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا
مسعود عالم ندوی بھی تھے، بڑے امیر منتخب ہوگئے اور چار امراء یہ حضرات
امیرِ ماتحت منتخب ہوگئے، جماعت اسلامی باقاعدہ وجود میں آگئی ،اس کا دستور
آیا، اس کامنشور آیا، لوگوں کی نگاہیں اٹھیں، ہر طرف سے امیدیں وابستہ
ہوگئیں، لیکن ۶ ماہ کاعرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ مولانا نعمانی، مولانا علی
میاں مستعفیٰ ہوگئے اور ان کو ان کی علمی کمزوریاں اور اخلاص کا فقدان نظر
آیا، ساتھ نہیں دے سکے لیکن ان حضرات نے پھر بھی پردہ پوشی کی اور امت کے
سامنے صاف وصریح وجہِ علیحدگی ظاہر نہیں فرمائی، میں اس وقت جامعہ اسلامیہ
ڈابھیل میں تدریسی خدمات انجام دیتا تھا، میں نے ان دو بزرگوں سے جدائی کے
وجوہ دریافت کئے، بہت کچھ کہا لیکن کوئی صاف بات نہیں بتلائی، لیکن میں
سمجھ گیا، مولانا مسعود عالم مرحوم اور مولانا امین احسن اصلاحی کو بہت کچھ
معتقدات وطریقہ کار میں موافقت تھی اور یہ دونوں بزرگ عرصہ تک مودودی صاحب
کے دست و بازو بنے رہے، مولانا مسعود عالم مرحوم نے عربی ادب کے ذریعہ
خدمات انجام دیں اور مودودی صاحب کی تحریرات اور کتابوں کے آب و تاب سے
عربی تراجم کئے اور ادبی تربیت کرکے چند شاگردوں کو بھی تیار کردیا، مولانا
اصلاحی نے اپنے خاص علمی ذوق وانداز سے مودودی صاحب کی تحریک کو پروان
چڑھایا، اچھے اچھے رفقاءِ کار، اربابِ قلم اور اربابِ فن شامل ہوگئے،
کمیونزم کے خلاف اور بعض دینی مسائل پر عمدہ عمدہ کتابیں لکھی گئیں، سود
خوری ، شراب نوشی پردہ وغیرہ پر اچھی کتابیں آگئیں، تفہیمات وتنقیحات میں
بعض اچھے اچھے مضامین آگئے جدید نسل کی اصلاح کے لئے کتابیں تالیف کی گئیں،
عرب ممالک میں خصوصاً سعودی عرب کو متاثر کرنے کے لئے اور وہاں کے شیوخ کو
ہم نوا بنانے کے لئے مختلف انداز سے کام کیا اور کامیاب تدبیریں اختیار کیں
اور جو رفقاءِ کار کے قلم سے معرضِ اشاعت میں آیا، اسے اس انداز سے پیش کیا
جاتا رہا کہ یہ سب کچھ مودودی صاحب کی توجیہات کارہینِ منت ہیں، اس سے ان
کی شخصیت بننی شروع ہوگئی اور تمام جماعت کے افراد کی تالیف سے خود وجاہت
کا فائدہ اٹھایا، خود عربی لکھنے سے معذور، انگریزی لکھنے سے معذور، نہ
عربی لکھ سکتا ہے نہ بول سکتا ہے، یہی انگریزی کا حال بھی ہے لیکن جو
کتابیں ترجمہ کی گئیں ان کے سرورق پر بھی لکھا گیا ’’تالیفات المودودی‘‘
کہیں یہ نہیں لکھا کہ یہ ترجمہ مسعود عالم کا ہے یا عاصم حداد کا ہے، لوگ
یہ سمجھے کہ اردو کا یہ ادیب کیا ٹھکانا عربی ادب کا بھی امام ہے، لیکن چند
دن گزرے تھے کہ مولانا گیلانی مرحوم اور حضرت سید سلیمان مرحوم متنبہ ہوگئے
کہ یہ تحریراتِ جدید فتنہ انگیزی کاسامان مہیا کررہی ہیں، جو کچھ خطابات
تھے اور متکلمِ اسلام وغیرہ القاب تھے، اس کو روک دیا اور مولانا گیلانی نے
’’صدقِ جدید‘‘ میں ’’خارجیتِ جدیدہ‘‘ کے عنوان سے تنقیدی مضمون لکھا،
علمائے کرام کے زمرے میں شاید حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اﷲ پہلی
شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے مکاتیب میں اس فتنے کی نشاندہی فرمائی، رفتہ رفتہ
علماءِ امت کچھ نہ کچھ لکھتے رہے، حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد زکریا صاحب
نے اس وقت جو مطبوعہ ذخیرہ تھا، سب کو مطالعہ فرما کر ایک مبسوط رسالہ مرتب
فرمایا، لیکن افسوس کہ طبع نہ ہوسکا اور اس سلسلہ میں ایک مدرس مظاہر
العلوم مولانا محمد زکریا قدوسی صاحب مودودی صاحب کی طرف مائل ہوگئے تھے،
ان کی اصلاح کے پیشِ نظر ایک مکتوب لکھا، جو ’’فتنۂ مودودیت‘‘ کے نام سے
ایک رسالہ کی شکل میں شائع ہوگیا ہے۔
مودودی صاحب کی بہت سی چیزیں پسند بھی آئیں اور بہت سی ناپسند بھی، لیکن
عرصہ دراز تک جی نہ چاہا کہ ان کو مجروح کیاجائے اور ان کے جدید اندازِ
بیان سے جی چاہتا تھا کہ جدید نسل فائدہ اٹھائے، اگرچہ بعض اوقات ان کی
تحریرات میں ناقابلِ برداشت باتیں بھی آئیں، لیکن دینی مصلحت کے پیش نظر
برداشت کرتا رہا اور خاموش رہا، لیکن اتنا اندازہ نہ تھا کہ یہ فتنہ عالم
گیر صورت اختیار کرے گا اور اکثر عرب ممالک میں یہ فتنہ بری صورت اختیار
کرے گا اور دن بدن ان کے شاہکار قلم سے نئے نئے شگوفے پھوٹتے رہیں گے،
صحابہ کرامؓ اور انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں ناشائستہ ۱لفاظ
استعمال ہوں گے، آخر ’’تفہیم القرآن‘‘ اور’’خلافت و ملوکیت‘‘ اور ’’ترجمان
القرآن‘‘ میں روز بروز ایسی چیزیں نظر آئیں کہ اب معلوم ہوا کہ بلاشبہ ان
کی تحریرات و تالیفات عہدِ حاضر کا سب سے بڑا فتنہ ہے، اگرچہ چند مفید
ابحاث بھی آگئیں ہیں ’’وإثمھما أکبر من نفعھما‘‘ والی بات ہے اب حالت یہاں
تک پہنچ گئی ہے کہ سکوت جرمِ عظیم معلوم ہوتا ہے اور چالیس سال جو مجرمانہ
سکوت کیا، اس پر بھی افسوس ہوا اور اب وقت آگیا ہے کہ بلاخوف لومۃ لائم الف
سے یاء تک ان کی تالیفات وتحریرات کو مطالعہ کرکے جو حق وانصاف ودین کی
حفاظت کا تقاضا ہو، وہ پورا کیا جائے، واﷲ سبحانہ ولی التوفیق۔ (چنانچہ
الأستاذ المودودي وشئ من حیاتہ وأفکارہ، نامی کتاب لکھ کر حضرت بنوری نے
یہ فریضہ بھی انجام دیا)
رجب المرجب ، ۱۳۹۶ھ۔ اگست، ۱۹۷۶ء۔(جاری ہے) |