حضرۃ الشیخ بنوری اور عربی زبان وادب - حصہ سوم

فضیلۃالشیخ ولی خان المظفر

اہل علم و اہل قلم حضرات کا فریضہ
تحریر وتقریر میں کم مائیگی، عربی استعداد سے شُدبُد کے فقدان کے باوجود کچھ لوگ حرفت و پیشے کے طور پر لکھاری بنتے ہیں، ایسے میں اصحاب استعداد اور رسوخ فی العلم والے علماء کا کیا کردار ہونا چاہیے؟ دیکھئے حضرت فرمارہے ہیں:
افسوس کہ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جس میں اربابِ علم اپنے علمی تقاضوں کو نہیں پورا کررہے ہیں اور اربابِ جہل علمی مسائل میں دخل دے رہے ہیں، ہر صاحبِ قلم ، صاحبِ علم بننے کا مدعی ہے، کتابوں کے اردو تراجم نے اس فتنے کو اور وسعت دی ہے، اردو تراجم جہاں ایک اصلاحی مفید خدمت انجام دے سکتے تھے، افسوس کہ عصرِ حاضر میں ’’واثمھما أکبر من نفعھما‘‘ کا مصداق بنتے جارہے ہیں، جن کا ضررو نقصان، فائدہ و نفع سے کہیں بڑھ گیا ہے۔

دورِ حاضر جہاں مختلف فتنوں کی آماجگاہ ہے، وہاں قلم کا فتنہ شاید سب سے گویا سبقت لے جارہا ہے۔ علمی میدان ان حضرات کا نہ صرف بہت محدود وتنگ ہے بلکہ ہے ہی نہیں۔ (عربی ادب سے بے خبری کے عالم میں) اردو کے تراجم سے کچھ سطحی معلومات حاصل کرکے ہر شخص دورِ حاضر کا مجتہد بنتا جارہا ہے، اور ’’اعجاب کل ذي رأي برأیہ‘‘ (ہر شخص کو اپنی رائے پسند ہے) اس فتنے نے مزید ’’کریلا اور پھر نیم چڑھا‘‘ والی مثل صادق کردی ہے اور ناشرین نے محض تجارتی مصالح کے خیال سے سستے داموں عالم نما جاہلوں سے تراجم کراکر فتنہ کو اور بڑھا دیا ہے، غرض کہ فتنوں کا دور ہے، ہر طرح کے فتنے اور ہر طرف سے فتنے ہی فتنے نظر آتے ہیں، ان فتنوں کے سدباب کے لئے مستقل اداروں کی ضرورت ہے، جن کا اساسی مقصود صرف یہی ہو کہ ان تراجم کا جائزہ لیاجائے اور اخبارات میں شائع ہونے والے مقامات کی نگرانی ہو، اربابِ جرائد ومجلات کا مقصد محض تجارت ہے اور اربابِ قلم کا مقصد محض شہرت ہے یا پھر کچھ مادی منفعت بھی پیش نظر ہے…… (بصائر وعبر: ۳۱۸/۱)۔

اہل بصیرت جانتے ہیں کہ فقہ اسلامی دستور کی صورت میں امت کی رہنمائی کے لئے موجود ہے، لیکن اس سے صحیح استفادہ عربی کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں-

ہمارے ان حضرات کا دوسرا بہانہ یہ ہے کہ اسلامی قانون بنا بنایا موجود نہیں، مرتب کرنے میں ایک بڑا عرصہ چاہیے، لیکن غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ محض دلفریب دھوکا ہے۔
اولاً: ’’اسلامی قانون‘‘ فقہِ اسلامی کی صورت میں مدون موجود ہے جو شخص عربی میں مہارت اور قانون سے مناسبت رکھتا ہو وہ آسانی سے ہرحادثہ کا شرعی حکم معلوم کرسکتا ہے اور اسے واقعات پر تطبیق دے سکتا ہے اور اگر ہمارے قانون دان کی عربی سے ناواقفیت کو عذر قرار دیاجائے، تو یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ جہاں آپ ایل ایل بی کی شرط عائد کرتے ہیں وہاں عربی فقہ میں مہارت کو کیوں شرط قرار نہیں دیتے؟ علاوہ ازیں فقہ اسلامی کی تمام اہم کتابوں کے تراجم اردو میں موجود ہیں، کنز الدقائق ہدایہ شرح وقایہ، عالمگیری وغیرہ وغیرہ کی تمام کتابیں اردو میں منتقل ہوگئی ہیں اور بعض اہم کتابوں کے انگریزی تراجم بھی دستیاب ہیں۔

ثانیاً: اگر مقصد یہ ہے کہ اسلامی دفعات پر مرتب شدہ موجودہ قوانین کے مرکز (کی جگہ) پر ہونا چاہیے تو اس پر بھی کسی قدر کام ہوچکا ہے۔ ترکی میں سلطان عبدالحمید خان کے دور میں ’’المجلۃ العدلیۃ‘‘ کے نام سے دفعات پر ترتیب شدہ مواد موجود ہے، افغانستان اور ’’تمسک القضاۃ الأمانیۃ‘‘ اور ’’تشکیلات جزا عمومی افغانستان‘‘ کے نام سے مجموعے موجود ہیں۔ ان کتابوں کو اردو یا انگریزی میں منتقل کرنے پر کتنا عرصہ لگے گا، (ظاہر ہے) مختصر عرصہ میں یہ سب کام ہوسکتا ہے۔

ثالثاً: اگر اسلامی فقہ کسی طرح بھی ہمارے قانون دانوں کے بس کا روگ نہیں تو کم از کم اتنا ہی کرلیا جائے کہ ہر محکمہ میں ایک مستند عالمِ دین کا تقرر ہو اور اس کی رائے واعانت سے شرعی حکم معلوم کرکے نافذ کیاجائے، بہرحال اگر خدا کا خوف ہو اور آخرت کا محاسبہ پیش نظر ہو اور اس ملک کو صحیح اسلامی مملکت بنانا مقصود ہو تو پھر نہ اسلامی قانون نافذ کرنا مشکل ہے، نہ مرتب قانون کو اردو میں منتقل کرنا دشوار، نیت درست ہو تو سب آسان۔ ذی الحجہ ۱۳۸۹ھ، فروری ۱۹۷۰ء۔ (بصائر وعبر: ۳۳۳-۳۳۲/۱)

ایک عالم نما جاہل کی تقریر پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
موصوف کی تقریر کا یہ خلاصہ ہے ، ظاہر ہے کہ تقریر کا یہ حصہ قطعاً تحقیق کے خلاف اور بڑی غلط فہمیوں پر مشتمل تھا اور قابلِ برداشت نہ تھا، راقم الحروف نے مجبور ہوکر صدرِ محترم کومخاطب کیا کہ مقرر موضوع سے باہر ہوگیا ہے اور آپ چونکہ اردو نہیں سمجھتے اس لئے تنبیہہ نہیں ہوا، براہِ کرم اس کو روک دیں چونکہ موصوف کی بات میرے نزدیک ناقابلِ برداشت تھی اس لئے طبعاً غصہ آنا چاہیے تھا، چنانچہ شدید اور سخت لہجہ میں یہ احتجاج عربی زبان ہی میں کیا:
’’یاسیدي الرئیس، أرجوک أن تُلجم ھذا الخطیب فإنہ قد خرج عن موضوعہٖ ووسّع دائرۃ الاجتہاد إلی النصوص القطعیۃ الصریحۃ أرجوکم أن تلجموہ‘‘․

جناب صدرِ جلسہ! مقرر کو روکئے، یہ اپنے موضوع سے نکل گئے ہیں اور انہوں نے نصوصِ صریحہ قطعیہ کو اجتہاد کے دائرے میں لانے کا دعویٰ کیا ہے اس لئے براہِ کرم روک دیجئے۔

میرے احتجاج پر مشرقی پاکستان کے دو عالموں نے مندوبین میں سے کھڑے ہوکر احتجاج کیا، مولانا مفتی محمود صاحب نے صدرِ جلسہ سے تنقید کے حق کا مطالبہ کیا، مندوبین کے علاوہ ہال میں سامعین نے شور مچایا، الغرض مقرر نے تقریر کو مختصر کرکے ختم کیا، سب سے پہلے ڈاکٹر سید محمد یوسف صاحب صدر شعبۂ عربی کراچی یونیورسٹی نے باجازتِ صدر عربی میں بہت عمدہ سلجھی ہوئی تقریر فرمائی کہ ’’عقل کے دائرے کو جو شخص اتنا وسیع کرے گا، کہ قرآن وحدیث کے صریح نصوصِ قطعیہ بھی اس کی زد میں آجائیں وہ تومسلمان ہی نہیں ہے‘‘۔ اس تقریر کا بہت اچھا اثر ہوا اور عرب ممالک کے مندوبین بھی خوش ہوگئے۔ اس کے بعد ڈاکٹر حب اﷲ نے جو الأزہر میں مجمع البحوث الإسلامیہ کے ڈائریکٹر اور بڑے محقق عالم اور دینی تصلب وپختگی میں ممتاز ہیں، باجازتِ صدر نہایت عمدہ اور مؤثر تقریر فرمائی اور فرمایا کہ ’’افسوس کہ جناب مقرر نے جن احادیث سے عقل کی اہمیت بیان کی ہے، یہ احادیث بہت ہی ضعیف یاموضوعی ہیں اور عقل کا دائرہ شریعت کے اندر محدود ہے، عقل کو یہ آزادی کبھی نہیں دی گئی کہ شرائعِ الٰہیہ کے حدود سے باہر جائے، فلسفی عقل کے لئے شریعت میں کوئی جگہ نہیں، عملی عقل کا دائرہ وحیِ الٰہی کے دائرے میں ہے‘‘۔ باقی جو کچھ بقیہ تقریر کا حصہ تھا، چونکہ وہ خالص اردو میں تھا اس لئے ڈاکٹر حب اﷲ نہ سمجھ سکتے تھے نہ اس کی ترید فرماسکے، آخر میں صدرِ محترم السید الحسینی نے تنقید کے لئے راقم الحروف کو دعوت دی، میں نے چاہا کہ عربی میں تقریر ہو لیکن اردو خواں حاضرین کا اصرار تھا کہ تقریر اردو میں ہو تاکہ ان کے پلے بھی کچھ پڑے، کیونکہ سابق دو تقریریں عربی میں تھیں۔ (بصائر وعبر: ۶۷۶/۱)۔

میری تقریر ڈاکٹر حب اﷲ صاحب کی تقریر ہی کا تکملہ ہے، امتِ محمدیہ کا اس پر اجماع ہے کہ جو حکم شرعی قرآن وحدیث میں واضح طور پر آگیا ہے نہ اس میں اجتہاد کی گنجائش ہے نہ اس کی مخالفت کا امکان، اجتہاد کا دائرہ وہ حوادث وواقعات ہیں جہاں کتاب وسنت خاموش ہوں جو جدید مسائل پیش آئیں ان میں قرآن وسنت نے اجتہاد کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ اس کا حکم دیا ہے، ان مسائل میں اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلا رہے گا، ان مسائل میں اجتہاد کو بند کرنا اسلام کو بدنام کرنا ہے، البتہ اجتہاد کے لئے اہلیتِ اجتہاد کی ضرورت ہوگی، اس کے لئے کوئی وجہِ جواز نہیں کہ جو شخص اجتہاد کااہل نہ ہو وہ بھی اجتہاد کرے……
آگے چل کر اپنی تقریر پر حاضرین کا تبصرہ نقل کرتے ہیں:
الحمدﷲ میری اس مختصر تقریر کی تصور سے بالاتر قدر افزائی ہوئی اور سامعین کو فوق العادہ سکون ہوا، عربی ممالک کے مندوبین میں سے الشیخ عبدالرحمن وکالی مراکش و رباط کے مندوب نے اٹھ کر فرمایا:
’’یاشیخ واﷲ إن خطابک وھذا الحدیث الذی ذکرتہ کان بلسماً لجروحنا‘‘․
’’آپ کے اس بیان اور اس حدیث نے ہمارے زخموں پر مرہم کا کام کیا‘‘۔

دوسرے دن اجلاس میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کا مقالہ بہت اہم تھا، اجلاس الاستاذ احمد حسن الباقوری (جمہوریہ مصر) کی صدارت میں شروع ہوا اور حضرت مفتی صاحب نے اپنا مقالہ اردو میں پڑھ کر سنایا جو تقسیمِ دولت اور اسلامی نظام معیشت پر تھا، پسند کیا گیا، بعد ازاں چائے کے وقفے کے بعد جناب مسعود چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف کا انگریزی میں مقالہ تھا جس میں قرآن کریم سے’’اشتراکیت یاسوشلزم‘‘ کے اثبات کی کوشش کی گئی تھی، اور علماءِ امت پر کچھ ناشائستہ انداز سے تنقید تھی، مقالہ انگریزی میں تھا، مقالہ ختم کرنے کے بعد ہال میں شور اور غوغا آرائی ہوئی بلکہ اتنا شور ہوا کہ معاملہ قابو سے باہر ہوگیا، آخر مولانا مفتی محمود صاحب نے استاذ باقوری سے تقریر کرنے کی اجازت لی کہ یہ ہنگامہ بغیر تردیدی تقریر کے خاموش نہیں ہوسکتا، چنانچہ مفتی صاحب کی تقریر سے لوگوں کو تسلی ہوگئی اور اس روز کی مجلس بھی ختم ہوگئی (أألائک آبائي فجئني بمثلہم إذا جمعتنا یاجریر المجامع)۔ (بصائر وعبر: ۶۸۰/۱)۔

شعبہ تحقیق وتصنیف کی تأسیس کے ذیل میں لکھتے ہیں:
ہمیں اپنی کوتاہ سامانی اور کم مائیگی کے ساتھ ساتھ اس راستے کی مشکلات کا پورا احساس ہے، تاہم اﷲ تعالیٰ کی نصرت و اعانت کے بھروسے پر اپنے حقیر وسائل کے مطابق کئی موضوعات پر کام شروع کردیا گیا، الحمدﷲ چار مخلص ومحقق اہل علم واہل قلم اس خدمت کے لئے وقف ہیں، جن میں سے بعض حضرات اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں کے ماہر ادیب ہیں۔

عربی سے اردو ترجمہ کے لئے سب سے پہلے شیخ مصطفیٰ سباعی مرحوم کی کتاب ’’السنۃ ومکانتھا في التشریع الإسلامي‘‘ کو منتخب کیا گیا، جو اپنے موضوع پر بے نظیر جامع کتاب ہے، ترجمہ کی پہلی جلد طبع ہوچکی ہے اور دوسری زیر طبع ہے، اردو کتابوں میں مولانا محمد اسحاق صدیقی کی تصنیف ’’دینی نفسیات‘‘ اچھوتی کتاب ہے، جو زیرِ طبع ہے اس کے بعد موصوف کی دوسری تصنیف ’’ختمِ نبوت‘‘ عنقریب شائع کی جائے گی، جس میں مسئلہ ختم نبوت کے عقلی ونفسیاتی پہلوؤں پر نئے انداز سے بحث کی گئی ہے۔

کتابوں کی نشرواشاعت کے لئے ’’مکتبہ رشیدیہ غلہ منڈی ساہیوال‘‘ کو شعبۂ تحقیق و تصنیف مدرسہ عربیہ اسلامیہ کی جانب سے وکیل بنایا گیا ہے، اﷲ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے اس ذمہ داری کو بخوشی اٹھانا منظور کرلیا ہے، ہمیں حق تعالیٰ کے الطافِ غیبیہ سے امید ہے کہ جس طرح مدرسہ کی مشکلات کے حل کرنے میں ہماری دستگیری فرماتے ہیں، اسی رح اس شعبہ کی ضروریات کی تکمیل میں ہماری امداد فرمائیں گے، وھو ولي التوفیق والنعمۃ وھو حسبنا ونعم الوکیل․
جون ۱۹۷۶ء، ربیع الثانی ۱۳۹۲ھ۔
(بصائر وعبر: ۶۰/۲)۔
(جاری ہے)

zubair
About the Author: zubair Read More Articles by zubair: 40 Articles with 73699 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.