جھوٹ کی بہاریں

انسانی فطرت میں سدا سے ہی اچھائی اور برائے کا انصر موجود ہے کبھی اچھا ئی جیت جاتی ہے اور کبھی برا ئی ا ور اس ہار جیت میں معاشر ہ اور ارد گرد کا ماحول اہم کردار ادا کرتا آیا ہے کیونکہ کسی بھی چیز کو زندہ رہنے کے لئے سازگار ماحول درکار ہوتا ہے۔جھوٹ کی بہاریں عام اور سچ آج تاریخ کے بدترین دورسے گزر رہا ہے میں بھی اسی دور میں زندہ ہوں میں ایک سچا مسلمان اوراچھا پاکستانی بننا چاہتا ہوں مگر بہت کوشش کے باوجودابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا سوال یہ پیدا ہوتا کے کیسے میں سچا مسلمان اوراچھا پاکستانی بن سکوں گا؟جب میں تحریک پاکستان کو دیکھتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کے کروڑں مسلمان ذات برادری او ر تمام فرقوں سے بلاتر ہو کر صرف لاالہ کی بنیاد پر اکٹھے ہو گئے ۔اﷲ اکبر کا نعرہ لگاکر حق کا سفر جاری رکھا تو اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے اسلامی جمہوریا پاکستان دنیاکے نقشے پہ ایک آزاد ملک کی حیثیت سے شامل ہوا اور آج ہم اتحاد چھوڑ کر فرقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور ایمان سے بہت دور نکل آئے ہیں ہمیں یاد ہی نہیں کہ ملک پاکستان سچ اور حق کی بالا دستی قانون کی حکمرانی اورمذہبی آزادی کی خاطر حاصل کیا گیا تھا افسوص کے ہم ایسا کچھ بھی نہیں کر رہے میرے ملک کا تقریبا کوئی بھی فرد قانون کو نہیں مانتا سب کا اپنا قانون ہے جب چاہا بنایا جب چاہا توڑ دیادوسروں کو الزام دے کر خود کو اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہم یہ جانتے ہوئے کہ سب کو پتا کے میں جھوٹ بول رہا ہوں پھر بھی بڑی دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے ہیں ہم حرام کو یہ کہہ کر خود پر حلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں کے سب ایسا ہی کر رہے ہیں اور جیسے خود ہیں ویسے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ایسے نظام کو جمہوریت کانام دینا جمہوریت کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے ۔جس نظام میں سفارش اور رشوت کی لعنت عام ہے کوئی بھی شعبہ زندگی ایسا نہیں جہاں رشوت نہ لی جاتی ہو رشوت لینا اور دینا جیسے ہمارے ملک کی ثقافت کا حصہ ہو افسوس تو اس بات کا ہے کہ رشوت لینے اوردینے کوبرائی ہی تصورنہیں کیا جاتا بلکہ ایسے لوگوں کو عزت اور قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں کرپشن اس قدر جڑیں پکڑ چکی ہے کہ معاشرے کا کوئی بھی فردمحفوظ نہیں رہاہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھی رشوت کا سہارا لیناپڑتا ہے آج جتنی عزت اور قدر کی نظر سے کرپٹ لوگوں کو دیکھا جاتا ہے اس سے ایسا لگتا ہے یہ روش کبھی ختم نہیں ہوسکتی اس سارے معاملے میں میں بھی شامل ہوں رشوت لینا تو میرے اختیار میں نہیں مگر دینا پڑتی ہے بجلی کا میٹر لگواناہو چاہے گیس کا رشوت دینا پڑتی ہے تھانہ ہو یا عدالت رشوت دینے کے بعد بھی اگر کام ہوجائے تو بڑی بات ہوتی ہے اکثر رشوت دینے پر بھی کچھ نہیں بن پاتا اور رقم بھی واپس نہیں ملتی ان حالات میں جب چاروں طرف رشوت سفارش اور کرپشن کا بازار گرم ہو تو سچ کی کون سنے گا اگر کسی نے سن بھی لی تو وہ اعتبار نہیں کرے گا ان حالات میں میر ے اندر جو ایک سچا انسان ہے وہ بہت کمزور ہو چکا ہے اتنا کمزور کہ کبھی کبھی ہوش میں آتا ہے اور مجھ سے پوچھتا ہے میں کہاں جاؤں ؟ یوں تو ہر بنیادی طور سچا ہی پیدا ہوتا ہے لیکن زمانے کی عیش و عشرت حاصل کرنے کی تمنا میں اپنی بنیادی سچی حیثیت کو زندہ دفن کردیتا ہے ۔اسلام سے پہلے بھی لوگ دنیا کی چاہت میں جھوٹ،فریب ،دھوکہ دہی ،سفارش ،رشوت اور طاقت کا بے دریغ استعمال کیا کرتے تھے ۔ایسے ہی لوگوں کو آج ہم جاہل کہتے ہیں ،اگرہم غور کریں تو دور حاضر اور دور جہالت میں کوئی فرق نہیں رہا تب بھی لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے اور آج بھی کررہے ہیں ۔تب بھی امیر لوگ خود کو خدا سمجھتے تھے اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ۔تب بھی ماؤں ،بہنوں ،بیٹیوں اور بیویوں کی عزت نہیں کی جاتی تھی اور بھی یہ رشتے ذلیل و رسوا ہوچکے ہیں ۔کہنے کو تو ہم ترقی یافتہ دور میں زندہ ہیں لیکن ذہنوں اور دلوں پر جہالت کا دوردورا ہے ۔بلکہ یوں کہا جائے کہ ہم ہیں ترقی یافتہ دور کے جاہل لوگ تو زیادہ بہترہوگا۔دور جہالت میں اہل مکہ کے اندر وہ تمام برائیاں تھیں جو بنی نو ع انسان کیلئے نا قابل برداشت تھیں اور یہ بُرائیاں نسل در نسل چلتی آرہی تھیں۔ انسانی جا نو ں کو کتو ں سے بر تر تصور کیا جا تاتھا اگر کوئی مردفوت ہو جا تا تو اُس کی بیوہ کو بھی اُس کے ساتھ مر نا پڑتا تھا ، شراب نو شی ،عیا ش پرستی ، جو ئے با زی ، زنا ، قبائل کا تقابل ، یعنی اگر ایک بڑا خاندان ہے۔ تو تما م قوانین اُس کے تابع ہو تے تھے معاشرتی حالا ت اور جہا لت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اہل مکہ اتنے غرق ہو چکے تھے کہ اُن کے ہا ں اگر لڑکی ؛پیدا ہو جا تی تو وہ بے درد انسان اپنی انا پرستی اور وقتی نظام کو بچانے کیلئے وہ اپنے لخت جگر کو بھی زندہ درگور کر دیتے تھے۔ شرما و حیاء کے پیما نے جب لبریز ہو ئے حیا کی چادر جب پامال ہو نے لگی اہل مکہ جب ظلم و ستم میں حد سے بڑھنے لگے تو اُسی سر زمین عرب سے ایک روشنی کی کرن نمودار ہو ئی ۔ جہالت کے بادل چھٹے ابرِرحمت جو ش میں آیا کہ آقائے دو عالم ، رحمۃللعٰلمین حضرت محمدؐاس دنیا میں تشریف لا ئے آپؐنے ایسا نظام بدلا کہ تا ریخ میں آج تک اُس کی مثال نہیں ملتی ، کفروجہا لت کے گھٹا ٹو پ اندھیرے یکسردین الٰہی کی روشنی کی صورت بدل گئے جب آپؐنے عدل و انصاف قائم کیا اور فرما یا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ ؑ بھی چوری کے الزام میں گرفتار ہو تی تومیں اُس کابھی ہا تھ کا ٹ دیتا ۔آج آپ تھو ڑا سا حالات پاکستان کا جا ئزہ لگائیں ملک میں چلنے والے تما م اداروں کی طرف دیکھیں پاکستان کو آزاد ہوئے 66سال گزر چکے ہیں مگر نظام جو ں کا تو ں ہے۔ یہاں لغاری، بگٹی، بھٹو، کھو سے، گیلا نی، مزاری، راجے ، پراچے، میاں ، بٹ ، اور چوہدریوں کے چہرے نظر آتے ہیں۔ ہر پانچ سال بعد ان خاندانو ں کے لو گ پارلیمنٹ اور وزارتوں کی مسندو پر بیٹھ کر پاکستان کو لوٹتے ہیں۔ انگریز جونظام چھو ڑ گیا تھا آج تک وہی نظام چل رہا ہے۔بلکہ اس سے بد تر ہوچکا ہے۔ ہر آنے والا حکمران جمہو ریت کا نعرہ لگا تا ہے ۔ ہر پا رٹی کا لیڈر نظام بدلنے کی با ت کر تاہے۔ مگر 66سال سے نہ چہرے بدلے اور نہ ہی نظام بدلا موجو دہ جمہو ریت تعفن زدہ اور کر پشن زدہ دکھا ئی دیتی ہے۔ میرے خیال میں تو ایسی جمہوریت کو جمہوریت کہنا بھی حقیقی جمہوریت کوغلیض گالی ہے ۔آج کا ترقی پسند انسان اپنی بنیادی حیثیت کو چھوڑ ایسی منزل کی طرف گامزن ہے جس کا اس کائنات میں کہیں کوئی نشان تک نہیں ہے ۔جب تک انسان سچائی کا دامن نہیں پکڑتا تب تک کسی قسم کی ترقی ممکن نہیں ۔ہم کچھ بھی کرلیں آخر یہ مانا ہی پڑتا ہے کہ سچ ہی اس کائنات کی سب بڑی حقیقت ہے-

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564604 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.