اسلام میں عورت کا مقام اور مغربی تہذیب

عبدالمتین عباسی

اسلام نے عورت کو جوحقوق دیئے ہیں ،اس کے نتیجہ میں اسکو اسلامی سوسائٹی میں وہ بلندی ملی جسکی مثال دینے سے آج دنیا قاصر ہے ،مسلمان عورت دین ودنیا میں مادی ،عقلی اور روحانی حیثیت سے عزت اور ترقی کے ان بلند مقامات تک پہنچ سکتی ہے ۔جن تک مر د پہنچ سکتاہے اور اسکا عورت ہونا کسی مرتبے میں بھی اسکی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا ۔

مغر ب سے مرغوب جدید تعلیم یا فتہ اور پڑھے لکھے تو یہ بات تواتر سے کہتے ہیں کہ عورت ہمارے معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ ہے ۔اسکا استحصال ہورہاہے ۔یورپ نے عورت کو آزادی دی ہے حقوق دیئے ۔

آئیے ! تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب اور قوموں نے عورت کی تعریف کیسے کی :

قدیم یونانی عورت کو شیطان کی بیٹی اور نجاست کا مجسمہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے عورت آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسنے کا علاج ممکن ہے لیکن عور ت کے شرکا مداوا محال ہے ۔

ایک یونانی ادیب کہتاہے کہ دو مواقع پر مرد کیلئے عورت خوشی کا باعث بنتی ہے ایک شادی کے دن اور دوسرا انتقال کے دن ۔

رومیوں نے عورت کو جانور کا مقام دیا ،نکاح کے لئے عورت کو خریدنے کا ذریعہ سمجھا ،ہمیشہ نابالغ سمجھتے اور معمولی قصور پر قتل کردیتے تھے ۔

یہودیوں میں کافی عرصہ اختلاف رہا کہ عورت انسان بھی ہے یا نہیں ۔بہت سے یہ کہتے تھے کہ عورت انسان نما حیوان ہے ،جسے مردوں کی خدمت کے لئے پیدا کیا گیا۔

عیسائیوں نے کلیسا کی ایک مجلس میں فتویٰ دیا کہ عورت تو روح بھی نہیں رکھتی ۔

مغرب میں عورت کا سیاسی ،سماجی اور معاشرتی مقام کیا ہے ،مفکرین ،دانشوروں اور شاعروں کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
مشہور شاعر ہومر عورت کوناقابل اعتماد جنس خیال کرتاہے ۔
ارسطو کے نزدیک عورت ایک گھٹیا قسم کا مرد ہے ۔
ولیم شیکسپیر کے نزدیک اخلاقی کمزوری کانام عورت ہے ۔
چارٹ گلیمن کہتاہے مرد اور عورت کے غیر منظم جنسی تعلقات کو ہم بدکرداری نہیں سمجھتے ۔

اب تو مغر ب کے حیوان نما اور ماڈرن معاشرہ نے عورت کوبچی ہونے کی صورت میں نرسریوں میں چھوڑدیاہے اسکو شفقت سے محروم کردیا ۔جوانی میں اسکے سر سے آنچل کھینچ کر اس کے حس کو تماشہ ،جوانی کو کھلونا اور جسم کو جنس ارزاں قراردیا ہے ۔محبت کی آڑ میں محنت احترام اور تقدس سب کچھ چھین لیا۔ بڑھاپے میں ریٹائرڈ ہوم تعمیر کرکے زندگی کے باقی دن اس اجتماعی قبر میں گزارنے پر مجبور کردیا ۔

مغرب تہذیب نے عورت کو جو کچھ دیا ہے عورت کی حیثیت سے نہیں بلکہ مرد تصور کرکے دیا ۔عور ت درحقیقت اسکی نگاہ میں ویسی ہی ذلیل ہے جیسے دور جاہلیت میں تھی ۔گھر کی ملکہ ،شوہر کی بیوی، بچوں کی ماں ایک اصلی اور حقیقی عورت کے لئے اب بھیکوئی عزت نہیں اگر ہے تو اس مرد مونث یا زن مذکر کے لیے ہے جو جسمانی لحاظ سے تو عورت مگر دماغی ذہنی حیثیت سے مرد ہو او تمدن اور معاشرت میں مردوں جیسے کام کرے ۔ظاہر ہے یہ انوثت کی عزت نہیں رجلیت کی عزت ہے ۔احساس کمتری کی ذہنی الجھن کا کھلا ثبوت یہ ہے مردانہ کام کرنے میں عورتیں عزت محسوس کرتی ہیں ۔حالانکہ خانہ داری اور پرورش اطفال میں کوئی مرد عزت محسوس نہیں کرتا ۔

اسلام نے سواتمام دوسرے مذاہب میں عورت گناہ اور پاپ ہے ۔نحوست اور بدبختی کی علامت ،باپ کے لے باعث شرم ،شیطان کا نمائندہ ،کڑو ا گھونٹ ،ہاتھوں کی میل کچیل اور زہریلہ سانپ ہے ۔دنیا میں اسکا مقصد برائیوں کی ترویج کرنا ۔مردوں کو نیکیوں سے روکناہے ۔

اسلام نے عور ت کو ذات اور پستی سے نکال کر عظمت ورفعت کے بلند مقام پر فائز کیا ۔اسلام کے آنے کے بعد نہ زندہ درگور ہونے لگی ۔نہ بتوں دیوتاؤں اور دریاؤں کی بھینٹ چڑھی ۔نہ شوہر کیساتھ چتا میں جلیں ، شمع محفل بننے کی بجائے زینت کا شانہ بنی ۔بچپن میں شفقت ،جوانی میں محبت ،بڑھاپے میں عظمت اور مرنے کے بعد دعائے مغفرت کا حق دیا ۔انکی مامتا اور گھر گھر ستن کو برقرار رکھا انکو وراثت کا حصہ دیا ۔

تو کیا اسلام عورتوں کا سب سے بڑا محسن نہیں ؟ دنیا میں کوئی دوسرے مذہب نے عورتوں کو عصمت دی ہو ۔جس نے عورتوں کو ستر دیا ہوا ور حیا ،ایمان ،مال دیا ہو ۔بتائیں دنیا میں کوئی اور ایسا قانون ہے ۔

جس طرح مر د کے لئے عزت ،ترقی اور کامیابی اس میں ہے کہ وہ مرد رہے اور مردانہ خدمات انجام دے اسی طرح عورت کی عزت ،ترقی اور کامیابی اس میں ہے کہ وہ عورت رہے اور زنانہ خدمات انجام دے ۔ایک صالح تمدن کا کام یہی ہے کہ وہ عورت کو اس کے فطری دائر ہ عمل میں رکھ کر پورے انسانی حقوق ،عزت اور شرف عطا کرے ۔اسلامی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اسکی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو چمکائے اور اسی دائرہ میں اس کے لئے ترقیوں اور کامیابیوں کی راہیں کھولی۔

Laiq Syed
About the Author: Laiq Syed Read More Articles by Laiq Syed: 8 Articles with 7883 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.