الکفرة ملةواحدہ کفر ایک ملت ہے۔ یعنی جو اللہ تعالی کی
یکتائی، پیارے رحمة للعالمین ﷺ کی مصطفائی،کتاب اللہ کی سچائی کا منکر ہے
وہ کافر ہے۔ اپنے طور پر وہ کچھ بھی بنے جیسا کہ یہود نے کہا کہ نصاری کا
کوئی دین ایمان نہیں اور نصاری نے کہا کہ یہود کا کوئی دین ایمان نہیں
حالانکہ دونوں کتاب(یعنی توریت اور انجیل) پڑھتے ہیں۔ توریت و انجیل کی
صداقت نزول قرآن سے منظر عام پر آئی۔ چونکہ کتابی ہوکر اللہ کی آخری کتاب
القرآن کے منکر ہوئے تو کفار کی صف میں شامل ہوگئے۔ ہندو ،سکھ، بودھ،جینی،
صابی اور پارسی وغیر ہ سبھی منکرین قرآن ہونے کی وجہ سے کافر ہیں اور صلیبی
و یہودی بھی منکرین قرآن و صاحب قرآن ہیں۔ بنی اسرائیل میں انبیاءکرام
علیہم الصلوة والسلام کی بڑی تعداد مبعوث ہوئی اور بنی اسرائیل کو اللہ
تعالیٰ نے بڑی نعمتوں سے نوازا مگر نبیوں کی موجودگی میں ان لوگوں نے
نافرمانیاں کیں۔ جس بنا پر انہیں اللہ تعالی نے ہفتے کے دن کا تقدس پامال
کرنے پر بندر بنادیا، بچھڑے کی پوجا کی پاداش میں پجاریوں کے قتل عام کا
حکم آیا، حضرت سلیمان علیہ السلام کو جادوگر ٹھرایاجبکہ حضرت عیسی علیہ
السلام اور آپکی عفت مآب والدہ محترمہ پر گندے الزامات لگائے۔ سیدالعالمین
ﷺ کی دشمنی میں انتہاکردی مگر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پرذلت اور مسکینی
طاری کردی۔ آج امریکہ اور دیگر صلیبیوں کے زیر سایہ جی رہے ہیں۔ اس لحاظ سے
یہودی، صلیبی اور ہندو بتوں کے پجاری ایک ہیں۔یہودیوں نے اولا بچھڑے کی
پوجا کی جسے ہندونے گﺅماتا بناکر پوجا شروع کی جبکہ گائے کے خاوند بیل کو
کوئی درجہ نہیںدیا۔یہودیوں اور صلیبیوں نے قرآن پاک کو اپنا سب سے بڑادشمن
قرار دے رکھا ہے۔ کیونکہ قرآن پاک نے یہودیوں اور صلیبیوں کے کرتوتوں کا
پردہ چاک کیا ہے ۔مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم کی ابتداءقرآن کریم سے ہوتی ہے۔
اس لیئے صلیبی اور دیگر اسکے ساتھی مسلمانوں کے نظام تعلیم کو تبدیل کرنے
کی ہمہ جہت مکروہ کوشش کرتے ہیں۔
میٹرک کی اسلامیات کی کتاب بڑے عرصہ سے نافذ تھی جس میں سورة انفال، سورة
توبہ، سورة احزاب اور سورة الممتحنہ شامل تھیں۔ ان سورتوں میں کفار و
مشرکین کے کردار اور انکے ساتھ جہاد و قتال کے بیانات ہیں۔ امریکی اور
برطانوی لابی کے ایما پر ان سورتو ں کو نصاب سے خارج کرنے کے احکامات ضیا
ءالحق دور میں جاری ہوئے کہ ان تمام سورتوں کو میٹرک نصاب سے نکال دیا جائے
مگر عوامی رد عمل نے حکومت کو ایسا کرنے سے روک دیا البتہ طوالت نصاب کا
بہانہ بنا کر سورة توبہ کو میٹرک کی اسلامیات کی کتاب سے نکال دیاگیا۔ لیکن
ہمارے حکمرانوں کے آقا ﺅں نے اس پر بس نہیں کیا۔ یہاں تک کہ پرویز مشرف کے
دور میں اسلامیات کی کتاب پر حملہ کیا گیا مگر اہل ایمان کی موجودگی سے
ناکام ہوا۔ پی پی پی کے دور حکومت میں شدید حملہ ہوا اسلامیات کی کتاب کو
صلیبیوں اور یہودیوں کی منشا کے ہم آہنگ کردیا۔ سورة انفال،سوة احزاب اور
سوة الممتحنہ مکمل خارج سلیبس کرکے جہاد با السیف نکال جہاد با النفس شامل
رکھا ۔ اس پر نجی تعلیمی اداروں کی تنظیموں اور مذہبی لوگوں کے احتجاج پر
وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف صاحب نے نئی شائع شدہ کتاب کی سرکاری
سکولوں میں ترسیل بند کردی اور پرانی کتاب شامل نصاب رکھنے کی ہدائت فرمادی۔
حالانکہ اس کتاب میں بھی جہاد باالسیف کا موضوع مفقود ہے جسکا ہونا انتہائی
ضروری ہے۔میٹرک کی اسلامیات کی کتاب کو بھی مزید مفید بنانے کی ضرورت ہے ۔
اب جبکہ اسلامیات کی کتاب کا نصف نویں اور نصف دسویں میں پڑھانے کی پالیسی
بنائی گئی ہے تو سلیبس کا حجم بڑھا کر سورة توبہ کو بھی شامل کریں کیونکہ
وہ اپنے مضامین کے اعتبار سے سورة انفال کا حصہ ہے اور اسکے شروع میں تسمیہ
کا نزول نہ ہونا بھی ایک یہ وجہ بتائی گئی ہے۔ ماہرین تعلیم علماءکرام اور
دیگر اہل علم حضرات کی کمیٹی اس کار خیر کے لیئے بنائی جائے جو بہترین کتاب
مرتب کرے۔
اب میں مطالعہ پاکستان کی بات کرتا ہوں مطالعہ پاکستان کی منسوخ شدہ کتاب
بھی ہمارے مقاصد ملی کے مطابق نہ تھی مگر جو کچھ اس میں تھا وہ بھی
ہنودنواز، یہودنواز اور صلیب نواز طبقہ کو اچھا نہ لگا۔ لگتا ہے کہ قیام
پاکستان کے مخالفین کی کمیٹی بنا کر اسے یہ فریضہ سونپا گیا۔ پاکستان کے
وجود کا پس منظر غائب، برصغیر میں مسلمانوں کی آمد، عروج، فتوحات و اصلاحات
، حکمرانوں ،علماءکرام اور صوفیائے کرام کی تبلیغ اسلام کے واقعات ،
مسلمانوں کی تعمیرات، برصغیر میں علمی ادبی کارنامے سبھی کچھ اس لیئے غائب
کیا تاکہ نئی نسل کا اپنے اسلاف سے رابطہ ختم ہو۔
کیونکہ قوم کے لیئے اسکے ماضی اور اسلاف کے تذکرے ضروری ہوتے ہیں۔انگریزکی
آمد، اسکی مکاری اور اسلامی ہند پرغاصبانہ قبضہ ، حکمران خاندان کا قتل
عام، مسلمانوں اور انکے مذہبی پیشواﺅں کا قتل عام، علما اور مشائخ کی آزادی
کی تحریکیں اور انگریزوں کا انہیں تختہ دار پر لٹکانا ، ہندو اور انگریز کا
مسلمانوں کا استحصال کرناجیسے واقعات کا چھپانا سنگین جرم ہے۔ مسلم حکومت
کے زوال کے اسباب کا ذکر نہیں، جن علما اور مشائخ نے حضرت قائد اعظم کا
ساتھ دیاان کا ذکر تک نہیں، نظریہ پاکستان کی تشریح مبہم انداز میں پیش کی
گئی۔تحریک خلافت اور اسکے بانیان پر جیل میں قید بامشقت اور ان پر دیگر
مظالم کا ذکر ضروری ہے،قیام پاکستان کے وقت فرنگی اور پجاری اور سکھوں کے
روح فرسا مظالم کا تذکرہ انتہائی ضروری ہے۔نئی نسل کو معلوم ہو کہ پاکستان
انگریز یا ہندو نے تھالی میں رکھ کر نہیں دیا۔ پاکستان بننے کے بعد حکومت
کی تشکیل اور ایوانہائے اقتدار ، معتمد اداروں میں انگریز کے ٹاﺅٹوں کا
قابض ہونا۔ 1955 تک کس نے آئین نہیں بننے دیا؟ آئین 56 ءکی منسوخی ،مارشل
کا نفاذ اور62 ءکا صدارتی نظام یعنی آمر کا اقتدار ، مشرقی پاکستان کے
سانحہ کا پس منظر ،آئین 73ء پر حملے اور اسکی زبوں حالی اور عضو معطل
بنانا، اسلام کے نام پر تحریکوں کا عروج، ملک میں کرپشن کے بڑے بڑے واقعات
سے پردہ نہیں اٹھایا گیا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے وزیر اعظم کو
قتل کرنا، امریکیوں کو پاکستان میں دراندازی کی کھلی چھٹی دینا، مسئلہ
کشمیراور سندھ طاس معاہدہ کا نہائت مبہم تذکرہ کہ طالب علم صرف نام ہی جان
سکتا ہے تفصیلات سے بے بہرہ رہے گا۔ اس سے آگے پاکستان کی سرزمین کے بارے
مبہم بیان، دریاﺅں اور نہروں کا تفصیلی ذکر نہیں۔ معدنیات ،مصنوعات،ذرائع
آمدو رفت(شاہراہوںوریلوے)کا خاطرخواہ بیان نہیں۔ مطالعہ پاکستان کو نظریاتی
انداز میں مرتب کرنا چاہیئے کیونکہ یہ ریاست صفحہ ہستی پر موجود نہ تھی آخر
کیوں اس نے وجود پایا؟ مقاصد کا ذکر نہیں ۔ اس گول مول کتاب سے کچھ بھی
حاصل نہیں ہوسکتا۔حضرت علامہ اقبال کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے بطور خاص وجود
پاکستان کے لیئے بھیج کر امت کو بتایا کہ بمصطفے برساں خویش را کہ دیں ہمہ
اوست، کے خطبات، اور دیگر کاوشوں کو مطالعہ پاکستان کا اہم حصہ ہونا چاہیئے
مگر دیدہ دانستہ یہ سب کچھ حذف ہے۔ نہرورپورٹ کے مقابلے میں حضرت قائد اعظم
کے چودہ نکات بڑی اہمیت کے حامل ہیں لیکن اب ہندوسے الفت و محبت بڑھانے کے
لیئے سب کچھ ختم کیا جارہاہے۔نظام تعلیم ، تعلیمی پالیسیوں، ماہرین تعلیم ،
اداروں کے تعارف کا کوئی ذکر نہیں۔ قدرتی و مصنوعی جنگلات، معدنی و زرعی
وسائل کا غیر مبہم ذکر مبتدی کو اپنے ملک کی ترقی کے لیئے رہنمائی کرسکتا
ہے۔ مگر کتاب ایک ڈھونگ ہے ۔ مرتب کرنے والے خود پاکستان کے پس منظر، تحریک
پاکستان اور پاکستان کے طبعی خدوخال ، جغرافیہ، داخلہ و خارجہ امور سے
نابلد ہیں۔ میرے بیان کردہ امور کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہیں جو مطالعہ
پاکستان کی اچھی مفید کتاب کی تدوین میں معاون ہوسکتی ہیں۔ سیاسی اور
سفارشی وابستگیوں کو دفع کریں اور اہل لوگوں کی صوبائی سطح پر کمیٹیاں اپنی
سفارشات مرکزی کمیٹی کو دیں۔ پھر اسے بذریعہ اخبارات عوام تک پہنچائیں تاکہ
مزید بہتری لائی جاسکے۔ تدوین کتاب تک کے حالات شامل نصاب کریں اور بعد میں
سال میں پیش آنے والے واقعات اس کتاب کا حصہ بنانے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے
لیکن سابقہ مسودات میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ اب خدا کے فضل سے اردوکتاب
کے بارے لکھوں گا کہ صلیبی ٹاﺅٹوں نے اردو کا کیا حشر کر رکھا ہے۔ مثلا
دسویں جماعت کو نرسری کی نظم جیوے پاکستان یادکرائی جارہی ہے۔ |