صلیبیوں کا مسلم نظام تعلیم پر حملہ

پاکستان اور بھارت سابقہ مسلم ہندوستان پر فرنگی صلیبی نے غاصبانہ قبضہ کے یہ تو تسلیم کرلیا کہ مسلم کاجہادی جذبہ اس لمبے عرصے کے لیئے فاتح کی حیثیت سے نہیں رہنے دے گا۔ تو انہوں نے جانے سے قبل جسد مسلم سے روح مسلم نکالنے کی منصوبہ بندی کی۔ ایک کمیشن قائم کیا جسکے سربراہ Macaulay نے1835یں برٹش پارلیمنٹ سے اپنے تاریخی خطاب میں جو کہا وہ قارئین اس اقتباس کو پڑھ کر انگریز کی مسلم نظریاتی اساس کو مٹانے کی مکروہ سازش پر غورو فکر کریں کہ کیا کہیں فرنگی کی سازش سے ہی ہم پاکستان بناکر بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کرسکے جن کا اعلان ہمارے قائد نے برملا کیا تھا: میکالے کی تقریر کا اقتباس جو نیٹ سے حاصل کرکے پیش کررہاہوںجسے آپ اچھی طرح پڑھیں:

Lord Macaulay said the following about India in 1835 in British Parliament.

"I have traveled across the length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief. Such wealth I have seen in this country, such high moral values, people of such calibre, that I do not think we would ever conquer this country, unless we break the very backbone of this nation, which is her spiritual and cultural heritage, and, therefore, I propose that we replace her old and ancient education system, her culture, for if the Indians think that all that is foreign and English is good and greater than their own, they will lose their self-esteem, their native self-culture and they will become what we want them, a truly dominated nation."

میکالے کی طویل تقریر کا یہ اقتباس مسلمانان پاکستان کے لیئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ اس نے مسلم کا لفظ استعمال نہیں کیالیکن جو کچھ اس نے بیان کیا اس کا موضوع ہندو نہیں مسلمان ہے کہ جس کی علمی اساس اور علمی ذخیروں سے وہ خائف تھا۔ مسلمانوں کے تہذیب وتمدن اور علمی اثاثوں کو مٹانے کے لیئے یہ ساری منصوبہ بندی کی گئی۔ اس نے کھل کر کہا کہ مسلمانوں کا دیرینہ نظام تعلیم اور ثقافت انگریز کے فاتح ہونے میں رکاوٹ ہیں۔ لھذا اس نے نظام تعلیم اور ثقافت اسلامی کی تبدیلی پر زور دیا۔ انگریز ی زبان کی ترویج کے لیئے تمام نصاب تعلیم انگریزی زبان میں اور اس میں مواد بھی فرنگی کے نظریات و ثقافت پر مبنی نافذ کرنے کی پالیسی بنائی گئی ۔ اسی پالیسی کے تحت مسلمانوں کے اعلی تعلیمی ادارے اور جامعات بند کردی گئی۔ تعلیمی اداروں کے لیئے وقفت زمینیں اور دیگر اثاثے بحق سرکار ضبط کرلیئے گئے۔ اسکے مد مقابل دنیا کی تاریخ میں پہلے مرتبہ بحکم سرکار مجوزہ نصاب مسلط کیا گیا اور اسکے فارغ ہونے والوں کو حسب درجات سرکاری ملازمتیں دینے کے معیار مقر رکردیئے۔ ان اداروں سے مسلم ثقافت اور عربی، فارسی زبانوں کو رخصت کردیا گیا۔ یونیفارم کے نام پر سوٹ ٹائی(صلیب) پہننا لازمی قرار دیا گیا۔ مسلم اکابرین نے انگریز کی اس سازش کے خلاف صف آرائی کی تو انگریزنے اپنے ٹاﺅٹوں کے ذریعہ عوام میں زہرافشانی کرائی کہ یہ لوگ تعلیم اور ترقی کے خلاف ہیں۔ انگریز کے ایک ملازم احمد خان نے اپنی طویل و عریض ریش مبارک کے زیر سائیہ وہ کارنامہ سرانجام دیا کہ جس کا تصور انگریز کے خواب و خیال میں نہ تھا۔ احمد خان صاحب شروع سے ہی انگریز کے وفادار تھے۔1857 کی جنگ آزادی میں ایک انگریز کپتان کی جان بچانے پر انگریز کے خاصے منظور نظر ہوئے۔ علی گڑھ کی درس گاہ میں اسلامی آداب طعام کی بجائے انگریزی آداب طعام سکھائے گئے۔ لباس اور حتی کہ علیک سلیک اور بیت الخلا تک کے فرنگی آداب سے طلبا کو مزین کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ انگریز کے قرب اور اسکے اعتماد کے لیئے انکے تمام آداب اپنائے بغیر چارہ نہیں۔ مسلمان نماز تو پڑھے مگر لباس فرنگی زیب تن کرکے ٹائی(صلیب گلے میں ڈالے، کھانا سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرتے ہوئے اور اسلامی آداب طعام کی مخالفت کرتے ہوئے کھائے۔ہاتھ سے کھانے کی بجائے چھری کانٹے کا استعمال، السلام علیکم کی جگہ گڈ مارننگ نے لے لی۔ہاتھ سے کھانا معیوب قرار دیا گیا۔ رفتہ رفتہ میکالے کا دیا ہوا تعلیمی نظام پورے ہند میں نافذ ہوگیا جو آج بھی فرنگی کے مقاصد کی تکمیل کررہا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ علم و عمل میں دنیا کے امام فرنگی کے کاسہ لیس ہوگئے جبکہ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاپان کے دوشہروں پر ایٹم بم برسائے۔ جاپان نے حوصلہ ہارا اور ہتھیار ڈال دیئے ۔ امریکہ نے جاپان پر دس سال قبضہ رکھا۔ جاپانیوں کے نظریات اور کلچر کی تبدیلی کے لیئے ہندوستان میں نافذ کیا جانے والا فرنگی نظام تعلیم مسلط کرنے کی سرتوڑکوشش کی مگر فاتح و قابض امریکہ اور اسکے اتحادی جاپانیو ں کو انکے نظریات اور کلچر سے سر مو نہ ہٹا سکے ۔جاپانیوں نے انگریزی نظام تعلیم سے نفرت کرتے ہوئے مسترد کردیااور اسی طرح صلیبیوںکے مخصوص کلچر کو بھی قبول نہ کیا۔ جاپانیوں نے اپنی قومی زبان کی تعلیم و ترویج پر زور دیا اور جدید ٹیکنالوجی میں حیران کن ترقی کیا ۔ آج امریکہ اور اسکے دیگر اتحادیوں کی سڑکوں اور گلیوں میں جاپانی گاڑیوں کی حکومت ہے۔اہل جاپان غیر مسلم ہوتے ہوئے پاکستان کے مسلمانوں سے زیادہ غیرت مند ثابت ہوئے۔پاکستان کے مسلمانوں کو فرنگی نظام سے نفرت ہے اور انگریزی نظام تعلیم قومی ترقی اسلامی ثقافت کے لیئے نقصان دہ جانتے ہیں لیکن حکمران طبقہ انگریز کی وفاداری ترک کرنے کو تیار نہیں۔ جاپان کے طرز عمل نے ہمارے نظریات کی تائید کی کہ قوموں کی ترقی کا راز انکی مادری قومی زبان میں مضمر ہے۔ بدیشی زبان کبھی بھی کسی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ چین، روس، جرمنی فرانس، بیلجیم اور دیگر ممالک نے اپنی قومی زبانوں میں اپنا نظام تعلیم رکھا ہوا ہے۔ جن ممالک نے اپنی قومی زبان کو چھوڑ کر انگریز ی زبان میں سلیبس بنائے وہ اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں یعنی میری مراد پاکستان ہے۔ کہ جہاں انگریز ی زبان برسراقتدار ہے اور کلچر فرنگی ہے ۔ 1973 کے آئین پاکستان کی توہین کرتے ہوئے ارباب اقتدار نے انگریزی زبان کو صرف انگریز کی خوشنودی کے لیئے نافذ کررکھا ہے کہ جس سے پاکستان ترقی نہیں کرسکا۔ اب میں پاکستان میں نافذ سلیبس کے بار ے عرض کروں گا۔ امریکہ اور فرنگی کے اشارے پر سلیبس ترتیب دیا جاتا ہے۔ جنرل ضیاءالحق مرحوم نے نصاب تعلیم قومی زبان اردو میں پڑھانے کے احکامات جاری کیئے مگر بعد میں فرنگی کاجوٹھا کھانے والوں نے پالیسی تبدیل کرادیاور ملک میں اردو میڈیم اور انگلش میڈیم دونوعیت کا نظام چل پڑا۔نجی تعلیمی اداروں نے انگلش میڈیم کے پرکشش نام پر ماہانہ ہزاروں روپے فی بچہ وصول کیں ۔ باقاعدہ تجارتی بنیادوں پر بیسیوں ادارے بڑی بڑی انڈسٹریز کی شکل میں قومی خزانے کو ٹیکس دیئے بغیربڑے سرمایہ داروں میں شامل ہیں۔ ملک میں متعدد اے لیول، او لیول نجانے کتنے لیول سے قوم کے نونہالوں کے مقدر سے کھیلا جارہاہے۔ کسی بھی حکومت نے ملک میں یکساں نظام تعلیم کے بارے نہ قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے بارے سوچا۔ امریکہ اور برطانیہ سے آنے والے سازشی وفود کی جانب سے پیش کردہ سفارشات کی روشنی میں تعلیمی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جیسا کہ حال ہی میں فرنگی وفد نے پاکستان آکر تجاویز دیں ۔ تاکہ پاکستان میں قومی اور نظریاتی نصاب تشکیل نہ پاسکے۔ اسی طرح USAID کے ذریعہ امریکی امنگوں کو پروان چڑھایا جارہاہے۔ میں دانشوروں ،علما ومشائخ اور نظریاتی فکر رکھنے والے حضرات سے اپیل کرتا ہوں کہ خدا را اپنا کردار ادا کرو۔ پاکستان کو بچاﺅ۔ اگر یہاں اپنا نظام تعلیم اور اپنا کلچر قائم نہ کیا تو پھر کون سا کارنامہ لے کر بروز محشر اللہ کے حضور پیش کروگے ۔ امریکی اور برطانوی سازشی ماہرین تعلیم کے وفود کی ضرورت نہیں۔ موجودہ نافذکتب نصاب کے بارے آئیندہ لکھوں گاتاکہ عوام کو معلوم ہوسکے کہ حکومت ہمارے بچوں کا کس حد تک تعلیمی استحصال کررہی ہے۔

AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140675 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More