ایک بھائی کی کہانی خود اسکے زبانی ۔۔۔۔

میرے وطن کی اپنی شان

" ماسٹر کی ڈگری کیا ہاتھ آئی، میں تو پھولے نہیں سمایا۔ اب تو دن پھر جائیں گے۔ عزت دولت شہرت سب ہوگا، مگر، دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے نوکری کا نام و نشان بھی نہ ملا۔گھر میں جب ماں باپ بہن بھائی تسلی دیتے تو لگتا کہ مجھ پر ہنس رہے ہوں اور میں اپنوں سے بھی دور ہوتا چلا گیا۔ایک دن میرا ایک دوست آیا۔ خوش لباسی گواہ تھی کہ وہ مجھ سے بہتر حالت میں ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے ایک سکول میں استاد کی نوکری کر لی۔ سفید پوشی سے اچھا گزارا ہورہا ہے۔ ساتھ ہی ایک اخبار میں شام کی نوکری بھی کر رکھی ہے۔ میں نے طنزیہ انداز میں اسے دیکھا اور کہا دن رات جاگ کر ماسٹر اس لئے کیا تھا کہ معمولی ٹیچر لگ جاؤ۔ اب ساری زندگی بیوی بچوں کو خوشیوں کیلئے ترساؤ گے۔ اس نے کہا ارے نہیں بھائی! استاد کبھی معمولی نہیں ہوتا بلکہ میں تمہیں بھی آفر دیتا ہوں میں تمہارے لئے بھی کچھ کر سکتا ہوں۔ میں نے حقارت سے اسے جواب دیا۔ میں نے اتنی محنت اسلئے نہیں کی تھی۔ کروں گا تو بہترین نوکری ورنہ نہیں۔پھر اچانک ایک ایسی خبر آئی جس سے مجھے لگا میری لاٹری کھل گئی۔میرے ماموں جو کئی برسوں سے امریکہ میں تھے انہوں نے مجھے بلوا بھیجا۔انہوں نے کہا کہ فی الحال ایک ماہ کیلئے میرے پاس ملنے آؤ، اس دوران کچھ کوشش رنگ لائی تو دیکھیں گے۔ میں نے خوشی خوشی تیاریاں کیں اور اپنے دوست سے ملنے چلا گیا۔اسے خبر سنائی کہ مجھے اپنی محنت کا پھل ملنے والا ہے۔ اب ساری زندگی عیش میں کٹے گی۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا، اس عیش کیلئے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ جو عزت اپنے وطن میں ہے وہ کہیں اور کہاں۔ میں نے غصے سے کہا کونسا وطن جہاں میں اتنی اعلیٰ ڈگری لیکر دھکے کھا رہا ہوں؟اس وطن وطن سے کچھ نہیں ملتا۔ یہ پیسے کا دور ہے اور پیسے ہی کو سلام ہوتا ہے۔مجھے اچھی نوکری مل جائے تو اس ملک کی شکل بھی دوبارہ نہیں دیکھوں گا۔ اس نے کہا اچھا بھائی جاؤ اور خوب پیسہ کماؤ۔

پھر میں اپنے خوابوں کی سرزمیں آگیا۔ماموں مجھے لیکر اپنی رہائش پر آگئے۔ بڑا سا گھر دیکھ کر میں جھوم اٹھا مگر انہوں نے میرا سامان جس جگہ رکھا وہ سٹور جیسا کباڑ خانہ تھا۔ میں نے کہا ماموں یہ کیا؟ میں آپ کے سٹور میں رہوں گا؟ انہوں نے کہا برخوردار یہ سٹور نہیں وہ کمرہ ہے جو مجھ سمیت 6 افراد نے کرایہ پر لیا ہوا ہے۔ تم بھی گزارا کرو۔ اس سے زیادہ ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔ میں حیران رہ گیا لیکن دل کو تسلی دے لی کہ میں تو اعلٰی تعلیم یافتہ ہوں ۔ نوکری ملی تو بڑا گھر لے لوں گا۔شام کو جب باقی افراد آئے تو ان میں ایک نوجوان بھی تھا جس سے میری دوستی ہو گئی۔ چند دن کی گپ شپ میں کھلا کہ وہ یہاں پی ایچ ڈی کرنے آیا تھا۔ کیونکہ اخراجات پورے نہیں ہوتے اسلئے ایک ہوٹل میں کلینر کی نوکری کر رہا تھا۔میں دنگ رہ گیا۔ پی ایچ ڈی کے سامنے میری کیا اوقات۔ میں نے اس سے کہا شرم آنی چاہئے۔ اتنی تعلیم کے بعد بھنگی کی نوکری؟ وہ مسکرایا اور بولا قسمت آزمالو، یہاں پاکستانیوں کیلئے یہی کام ہیں۔تم کیا سوچ کر آئے ہو۔ میں نے ٹھان لی کہ میں اچھی نوکری ڈھونڈ کر دکھاؤں گا۔ اگلے دن ماموں نے کہا، میاں بہت عیش ہو گئے۔جاؤ کوئی کام کر کے مزدوری لاؤ۔ یہاں کوئی کسی کو بٹھا کر نہیں کھلاتا۔ مجھے بے اخٌتیار اپنے بوڑھے والد یاد آگئے جو کب سے مجھے بٹھا کر کھلا رہے تھے مگر ماتھے پر شکن تک نہ تھی۔ پھر نوکری کی تلاش میں کہاں کہاں خاک چھانی اور کیسی کیسی تضحیک سہی وہ ایک الگ داستان ہے۔غرض یہ کہ ایک ماہ کے قلیل عرصے میں ہی میں جان گیا کہ وطن کیا ہوتا ہے۔اور پاکستان میں رشتوں کی کیا قدر ہے۔ایک ماہ بعد وطن کی خاک کو چھوا تو سجدے میں گر گیا اور زمیں کو چوما۔

آج میں ایک اسکول میں استاد کے درجے پر فائض ہوں اور عزت کی روزی کماتا ہوں۔ میری اولین کوشش ہوتی ہے کہ وہ سبق انہیں ضرور سکھاؤں جو میں نے ایک ماہ کے دھکوں میں سیکھا تھا ۔
"اپنے وطن کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں"
کیا کہیں گے آپ ؟؟؟ ۔ "
Najamuddin Ghanghro
About the Author: Najamuddin Ghanghro Read More Articles by Najamuddin Ghanghro: 583 Articles with 733731 views I m now Alhamdulillah retired from Govt. Service after serving about 39 ys. Passing ,Alhamdulillah a tense less life. MAY ALLAH CONTINUE IT.AAMEEN

.. View More