لڑکی کے باپ کی حیثیت ایک کسان
کی طرح ہے جو اپنی فصل اپنی محنت اپنی پیداوار کا معاوضہ خود طے نہیں
کرسکتا- اس کا فیصلہ لڑکے والے کرتے ہیں۔ بے چارہ لڑکی کا باپ خون دل سے
پالی ہوئی پڑھائی ہوئی ایک سالم انسان بھی دیتا ہے لڑکے والے لڑکی کو اپنے
ساتھ بھی لے جارہے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی مُنہ مانگا جہیز مانگتے ہیں-اپنا
لڑکا،انکی تعلیم و تربیت خود ان کے پاس رہتا ہے لیکن پھر بھی لڑکی والوں کے
ہاتھ بیجتے ہیں۔ انسانی عدل و انصاف کا کیا زبردست نمونہ ہے ہم نے لڑکے کو
پڑھایا لکھایا ہے اس لئے اس کی قیمت دو تم نے لڑکی کو پڑھایا لکھایا ہے اس
کا جُرمانہ دو ہم لڑکا نہیں دے رہے ہیں اس کی بھی قیمت دو تمہاری لڑکی لے
جائیں گے اس کی بھی قیمت دو-کسان کی مجبوری بھی لڑکی کے باپ جیسی ہوتی ہے
وہ منتیں کرکے مڈل مین کو اپنی فصل بیجتا ہے وہ سو نخرے کرتا ہے پھرخرید
لیتا ہے تو پیسے تھوڑے تھوڑے کرکے دیتا ہے اور کسان کواس کےدرپربار بار
جانے کی ذلت اٹھانی پڑتی ہے جس طرح لڑکی والوں کی تذلیل آئے دن ہوتی رہتی
ہے-
آجکل شادی بیاہ ایک باقاعدہ کاروبار بن چکا ہے- سادہ سے سادہ تقریب پر بھی
لاکھوں کا خرچہ آتا ہے-باقاعدہ منظم مافیاء سرگرم عمل ہے۔ شادی ہالوں سے لے
کر نکاح خواں تک کا حصول آسانی سے ممکن ہی نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب یہ سب
چیزیں نہ تھیں اب جیسے جیسے آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اُسی حساب
سے ہر چیز کا حصول ناممکن ہوتا نظر آرہا ہے-ایک لڑکی کے باپ کے لئے سب سے
زیادہ مشکل یہ ہے کہ وہ کیسے لڑکے والوں کے جائز اور ناجائز مطالبات کو
تسلیم کریں۔ اگر تسلیم کربھی لیں تو یہ گارنٹی کون دے سکتا ہے کہ لڑکے والے
مزید تنگ کرنا چھوڑ دیں گے۔ اور ایک دفعہ منہ کو مفت کے آرام و آسائش کی
لَت پڑ جائے تو اس کا روکنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں
کوئی سخت قوانین موجود ہی نہیں اگر کوئی قانوں موجود ہوں بھی تو اس پر عمل
درآمد کون کرائے گا جب کہ کئی دہائیوں سے ملک عزیز میں قتل و غارتگری اور
دہشتگردی کا دور دورہ ہے اور لاء اینڈ آرڈر مکمل بگڑ چکا ہے- تو یہ چھوٹے
چھوٹے سماجی مسائل کون حل کرے گا۔ جبکہ حکمراں طبقہ اپنے اپنے مسئلوں میں
پھنسا ہوا ہے۔ اور عوام روز بروز گونا گون مسائل کی دھلدل دھنستا جا رہا
ہے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے اپنے سرکل میں شادی بیاہ کی اس اہم
سنّت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں اوران مافیا سے بچنے کے لئے اپنے اندر
اتحاد اور بھائی چارگی کے بنیادی انسانی خوبیوں کو اجاگر کریں اور ہر طرح
کی تقریبوں کو انتہائی سادگی سے انجام دینے کی عادت ڈالیں اور فضول خرچی سے
لازماً پرہیز کریں- کیونکہ یہی فرمان خداوندی ہے -کُلُوا واشرَبوُ وَلاَ
تُسرِفُو۔ کھاؤ پیئو مگر اسراف سے بچو۔ |